مولانا محمد صدیق بدخشی کی طرف صادر فرمایا ہے اس کے بعض سوالوں کے جواب میں جو اس نے پو چھے تھے اور اس واقعہ کے عمل میں جو اس نے دیکھا تھا اور لکھا تھا۔
آپ کے دو مکتوب مرغوب پے در پے پہنچ کر بڑی خوشی کا موجب ہوئے۔ حضرت حق تعالیٰ سید المرسلین ﷺکے طفیل بے شمار ترقیاں عطا فرمائے۔
آپ نے پوچھا تھا کہ صاحب تصرف پیر(شیخ) اپنے تصرف سے مستعد مرید کوان مرتبوں میں جو اس کی استعداد سے بڑھ کر ہیں، پہنچا سکتا ہے یانہیں ۔ ہاں پہنچا سکتا ہے لیکن ان بلند مرتبوں میں جو اس کی استعداد کے مناسب ہیں۔ نہ ان مراتب میں جو اس کی استعداد کے مخالف ہیں۔ مثلا وہ مرید جوولایت موسوی (موسوی المشرب میں سالک اپنے آپ کو حق سبحانہ و میں ہالک اور مضمحل پاتا ہے سوائے ذات کے اس کی نظر میں اور کچھ نہیں ہوتا اس ولایت کو ولایت حضرت موسی علیہ السلام کہتے ہیں اور سالک کو موسوی المشرب کہتے ہیں)کی استعداد رکھتا ہے اور اس کی استعداد کی نہایت قوت اس ولایت کے نصف راہ تک پہنچنے کی ہے تو صاحب تصرف پیر اس کو اس ولایت کے نہایت درجات تک پہنچا سکتا ہے لیکن یہ کہ اس کو ولایت موسوی سے ولایت محمدی میں لادے اور اس ولایت میں اس کو ترقی بنے ۔ معلوم الوقوع نہیں ہے۔
اور نیز آپ نے پوچھا تھا کہ وہ کونسا مرتبہ ہے جس میں(لطیفہ) اخفی جوانسانی لطائف میں سے زیادہ لطیف ہے۔ نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کاحکم رکھتا ہے اور دنائت و خساست(ذلالت و کمینگی) میں اس کے ساتھ مشابہت پیدا کرتا ہے۔
میرے بھائی کو معلوم ہو کہ اخفی اگر چہ لطائف میں سے لطیف ہے لیکن دائرہ امکان میں داخل ہے اور حدوث کے داغ سے داغدار ہے جب سالک دائرہ امکان سے پاؤں باہر رکھتا ہے اور مراتب و وجوب میں سیر فرماتا ہے اور ظلال وجوبی سے ان کے اصلوں میں پہنچتا ہے اور صفت وشان کی قید سے چھوٹ جاتا ہے۔ ناچار ممکن اس کو خوار و بے اعتبار نظر آتا ہے اور اس کے احسن و لطف کودناءت و خساست میں برابر دیکھتا ہے اورنفس واخفی کو اس مقام میں یکساں خیال کرتا ہے۔
اور آپ نے لکھا تھا کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ہم نے سنا ہے کہ عبادت کے وقت حق تعالیٰ کو حاضر و ناظر دیکھ کر عبادت کرنا حق تعالیٰ کے نزول کا موجب ہے۔ بندہ کی طرح عبادت کرنی چاہیئے۔ مطلب یہ کہ حق تعالیٰ کو حاضر سمجھ کر عبادت کرنی بے ادبی میں داخل ہے۔
اے محبت کے نشان والے مجھے معلوم نہیں کہ اس قسم کی بات اس فقیر سے سرزد ہوئی ہو کہیں اور جگہ سے دیکھی ہوگی اور وہ واقع جو آپ نے لکھا تھا اور اس واقع میں حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کو دیکھا تھا۔ بہت نیک اور اصلی ہے۔ پانی سے مراد علم ہے اوراس میں ہاتھ ڈالنا عمل میں قدرت (مہارت)کا حاصل ہوتا ہے اور اس بارے میں حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کی مشارکت اس کے حاصل ہونے کی مؤکدہ موئد ہے کیونکہ آنحضرت علیہ الصلوة والسلام حضرت رحمن کے شاگرد ہیں۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا سکھائےاللہ تعالیٰ نے آدم علیہ الصلوة والسلام کو تمام چیزوں کے نام حاصل کلام یہ کہ اس واقعہ میں علم سے مرادعلم باطن ہے کہ علم باطن کی وہ قسم جواہل بیت علیہم الرضوان کی نسبت سے مناسبت رکھتی ہے۔ وَالبَاقِى عَندَ التَّلَاقِی (باقی بوقت ملاقات)۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ90ناشر ادارہ مجددیہ کراچی