شیونات کیا ہیں؟

شیونات کیا ہیں؟

شیونات جمع الجمع کا صیغہ ہے اس کا مُفرد شان ہے اور شیون اسکی جمع ہے

شیون صور علمیہ (اعیان ثابتہ)اور حقائق عالم کو کہتے ہیں۔

شان کا معنیٰ حال اور امر ہے آیتِ مُبارکہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِى شَأْنٍۢ (ترجمہ: وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے)

اس مرتبے اور اصطلاح کی اصل ہے۔اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے پر تجلی فرماتا ہے تو اس تجلّی کو حق کے اعتبار سے شانِ الہٰی کہا جاتا ہے اور بندے کے اعتبار سے حال کہتے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کے جلووں کا نام ہے جو ذات اور صفات سے الگ شے ہے

شیونات کی تعریف

حضرت امام ربّانی علیہ الرحمۃ شیونات کی تعریف میں رقم طراز ہیں۔

۔اللہ تعالیٰ کی شیونات اس کی ذات کی فرع (شعبہ ،جزو)ہیں اور اسکی صفات ان شیونات پر ہی متفرع(بہت سی شاخوں والا ، مزید پھیلنا)ہیں اور انکے اسماء جیسے خالق و رازق (وغیرھا) صفات پر متفرع ہیں اور اسکے افعال ان اسماء پر متفرع ہیں اور تمام موجودات افعال کے نتائج ہیں اور ان ہی پر متفرع ہیں (اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے) پس معلوم ہوگیا کہ شیون اور چیز ہیں اور صفات اور چیز اور شیون خارج میں عین ذات ہیں اور صفات خارج میں ذات پر زائد ہیں (معارفِ لُدنیہ معرفت 20)

شیونات و صفات میں فرق

جاننا چاہئیے کہ صفات و شیونات مین بہت باریک فرق ہے تمام صفات الہیہ خارج میں ذات تعالیٰ وقدس پر وجود زائد کے ساتھ موجود ہیں اور شیونات محض اعتبارات ہیں جو ذات جل شانہ میں اعتبار کئے گئے ہیں جیسا کہ حضرت مجدد پاک نےمکتوب 287 دفتر اول میں اس فرق کو مثال سے واضح فرمایا ہے

نیز حضرت امام ربّانی قُدِس سرّہ مزید فرماتے ہیں:

وہ فیض جو حقِ تعالیٰ کیطرف سے سالک کو پہنچتا ہے دو قسم کا ہے ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق ایجاد (موجود کرنا) اِبقاء (باقی رکھنا) تخلیق (پیدا کرنا) ترزیق(رزق دینا) اِحیاء (زندہ کرنا) اِماتت (مارنا) وغیرھا کے ساتھ ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو ایمان، معرفت اور مراتبِ ولایت و نبوت کے کمالات سے متعلق ہے۔ پہلی قسم کا فیض سب کو صفات کے ذریعے سے آتا ہے اور دُوسری قسم کا فیض بعض کو صفات کے ذریعے سے اور بعض کو شیونات کے واسطے سے آتا ہے اور صفات اور شیونات کے درمیان بہت باریک فرق ہے جو محمّدی المشرب اولیاء ( محمدی المشرب تمام مراتب کا جامع ہے اس میں سالک متخلق باخلاق اللہ ہو جاتا ہے اس ولایت کو ولایت حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور سالک کو محمدی المشرب کہتے ہیں )کے علاوہ کسی پر ظاہر نہیں ہوا اور نا ہی کسی اور نے اسکی نسبت کلام کیا

اس بیان کو ہم ایک مثال سے واضح کرتے ہیں مثلاً پانی بالطبع اُوپر سے نیچے کو آتا ہے یہ طبعی فعل اس میں حیات، علم، قُدرت و اِرادہ کا اعتبار پیدا کرتا ہے کیونکہ صاحبانِ علم اپنے ثِقل کے باعث بتقاضائے علم اُوپر سے نیچے کو آتے ہیں اور فوق کیطرف توجہ نہیں کرتے اور علم حیات کے تابع ہے اور ارادہ علم کے تابع ہے اسی طرح قُدرت بھی ثابت ہوگئی کیونکہ ارادہ میں اَحَدُ المقدُورین (دو مقداروں میں سے ایک کو اختیار کرنا) کی تخصیص ہے پس یہ اعتبارات جو پانی کی ذات میں ثابت کئے جاتے ہیں بمزلہ شیونات کے ہیں اگر ان اعتبارات کے باوجود پانی کی ذات میں صفاتِ زائدہ ثابت ہوجائیں تو وہ وجودِ زائد کیساتھ صفاتِ موجودہ کیطرح ہوں گے۔ پانی کو پہلے اعتبارات کے لحاظ سے حیّ، عالم، قادر اور مُرید نہیں کہہ سکتے۔ ان اسموں کے ثابت کرنے کیلئے صفاتِ زائدہ کا ثابت کرنا ضروری ہے۔لہٰذا جو کچھ بعض مشائخ کی عبارات میں پانی کے متعلق مندرجہ بالا اسموں کے ثبوت میں واقع ہوا ہے ان کی بُنیاد شیون و صفات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہے اور اسی طرح صفات کے وجود کی نفی کا حُکم بھی اسکے فرق نہ معلوم ہونے پر محمول ہے اور شیون و صفات کے درمیان دُوسرا فرق یہ ہے کہ مقامِ شیون صاحبِ شان کا مواجہ (روبرو) ہے اور مقامِ صفات ایسا نہیں ہے۔(دفتر اوّل مکتوب 287)

مقامِ شیون مواجہہِ ذات ہےحضرت امام ربّانی قدس سرہ کی نظر میں شیون و صفات کے درمیان فرق کی بُنیاد یہ ہے کہ جو حضرات صرف شہودِ صفات تک پہنچے ہیں وہ ابھی مرتبہِ ذات تک وصول کی سعادت سے مشرف نہیں ہوئے اور جو شہودِ شیونات کے مرتبے سے شاد کام ہیں انہیں وصولِ ذات کا مرتبہ بھی حاصل ہے کیونکہ شیونات ذاتِ حق پر زائد نہیں اور نہ ہی انکا وجودِ خارجی ثآبت ہے لیکن صفات، ذات پر زائد ہیں اور وجودِ خارجی بھی رکھتی ہیں لہٰذا سَیرِ صفات میں تعلقاتِ صفات پیشِ نظر ہوتے ہیں اور وہ ممکنات ہیں اس مرتبے میں عارف مرتبہِ ذات سے دور رہتا ہے کیونکہ یہ مقام صفات کا ہے لیکن مقامِ شیون مرتبہِ ذات تک وصُول کا نام ہے لہٰذا مقامِ شیون کو مواجہہِ (روبرو)ذات قرار دیا گیا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں