حقائق آگاه معارف دستگاه مخدوم زاده کلاں خواجہ محمد صادق علیہ الرحمۃ والغفران اور مخدوم زادہ خردمرحوم و مغفورمحمدفرخ
ومحمد عیسی رحمتہ اللہ علیہم کے بعض مناقب و کمالات ک
ے ذکر میں اور اس مکتوب کے خاتمہ میں ارباب ولایت کی فنا کا بیان ہے اور اس بیان میں کہ قرب نبوت میں یہ فنا کچھ درکار نہیں ہے اور اس کے مناسب بیان میں مولانامحمد صالح کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) اخی محمد صالح نے اہل سر ہند کے واقعات کو سن لیا ہوگا۔ میرے فرزند اعظم رضی اللہ عنہ نے بمعہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں محمدفرخ و محمد عیسی کے آخرت کا سفر اختیار کیا۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
اللہ تعالیٰ کی حمد ہے کہ اس نے اول باقی مانده کو صبرکی قوت عطا فرمائی اور پھر مصیبت و بلا کو نازل فرمایا کسی نے کیا اچھا کہا ہے ۔
من از تو روئےپیچم گرم بیازاری که خوش بود عزیزاں تحمل وخواری
ترجمہ: ستائے لا کھ تو مجھ کو پھروں گا میں نہ کبھی پیارے یاروں کی سختی بہت ہےلگتی بھلی
میرا فرزند مرحوم(خواجہ محمد صادق) حق تعالیٰ کی آیات میں سے ایک آیت اور رب العالمین کی رحمتوں میں سے ایک رحمت تھا۔ چوبیس برس کی عمر میں اس نے وہ کچھ پایا کہ شاید ہی کسی کے نصیب ہو۔ پایہ مولویت اور علوم نقلیہ اور عقلیہ کی تدریس کو حد کمال تک پہنچایا تھا۔ حتی کہ اس کے شاگرد بیضاوی اور شرح مواقف وغیرہ کے پڑھانے میں اعلی ملکہ رکھتے ہیں اور معرفت و عرفان کی حکایات اور شہود(مشاہدہ) و کشوف کے قصے بیان سے باہر ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ آٹھ برس کی عمر میں اس قدر مطلوب الحال ہوگیا تھا کہ ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ ان کے حال کی تسکین کیلئے بازاری طعام سے جو مشکوک ومشتبہ ہوتا ہے۔ معالجہ کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو محبت مجھے محمد صادق کے ساتھ ہے اور کسی کے ساتھ نہیں اور ایسے ہی جو محبت اس کو ہمارے ساتھ ہے کسی کے ساتھ نہیں۔ اس کلام سے اس کی بزرگی کو معلوم کرنا چاہیئے۔ ولایت موسوی کو نقطہ آخرت تک پہنچایا اور اس ولایت علیہ کے عجائب وغرائب بیان کیا کرتا تھا اور ہمیشہ خاضع اور خاشع اورملتجی اور متضرع اور متذلل اور منکسر رہتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ ہر ایک ولی نے الله تعالیٰ سے ایک نہ ایک چیز طلب کی ہے ۔ میں نے التجا اور تضرع طلب کیا ہے۔
محمد فرخ کی نسبت کیا لکھا جائے ۔ گیارہ سال کی عمر میں طالب علم اور کا فیہ خواں ہو گیا تھا اور بڑی سمجھ سے سبق پڑھا کرتا تھا اور ہمیشہ آخرت کے عذاب سے ڈرتا اور کانپتا رہتا تھا اور دعا کرتا تھا کہ بچپن ہی میں دنیائے کمینی کو چھوڑ جائے تا کہ عذاب آخرت سے خلاصی ہو جائے۔ مرض موت میں جو یار اس کے بیمار پرسی کو آتے تھے۔ بہت عجائب وغرائب اس سے مشاہدہ کرتے تھے اورمحمد عیسی سے آٹھ سال کی عمر میں لوگوں نے اس قدر خوارق و کرامات دیکھے کہ بیان سے باہر ہیں۔ غرض قیمتی موتی تھے جو امانت کے طور پر ہمارے سپرد کئے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ بلا جبر و اکراہ امانت والوں کی امانت ادا کر دی گئی اللهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُم. وَلَا تَفْتِنَّا بِحُرْمَةِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَيْهِ وَعَلَیْھِمْ الصَّلَوۃُ وَ التَّسلِيمَاتُ (یااللہ تو ہم کو ان کے اجر سے محروم نہ کیجیو اور ان کے بعد فتنہ میں نہ ڈالیو بحرمت سید المرسلین ﷺ۔
از ہر چہ می رود سخن دوست خوشتر است ترجمہ: تمام باتوں سے بہتر ہیں یار کی باتیں
جاننا چاہیئے کہ فنا جو ماسوائے حق کے نسیان سے مراد ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ ماسوائے حق کی محبت و گرفتاری دور ہو جائے گی کیونکہ جب اشیاء کی ذاتیں اورصفتیں اور افعال دید و دانش(دیکھنے اور سمجھنے) سے زائل ہو جائیں گے۔ ان کی محبت و گرفتاری بھی زائل ہو جائے گی۔ طریق ولایت میں ماسوی اللہ کا نسيان ضروری ہے تا کہ ماسوائے حق کی گرفتاری دور ہوجائے لیکن قرب نبوت کے مدارج میں اشیاء کی گرفتاری اور محبت کے دور کرنے کے لئے اشیا ء کا نسيان درکارنہیں کیونکہ قرب نبوت میں اصل کی گرفتاری جو في حد ذاتہ حسن جمیل ہے۔ اشیاء کی گرفتاری کا جو فی نفسہ قبیح اور غیر مستحسن ہیں۔ نام و نشان نہیں رہنے دیتی ۔ خود اشیاء فراموش ہوں یا نہ ہوں کیونکہ اشیاء کے علم میں اشیاء کی گرفتاری کے باعث جوحق تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف روگردانی کا موجب ہےذم کی وصف حاصل کر لی ہے جب اشیاء کی گرفتاری زائل ہوگئی ۔ اشیاء کا علم مذموم نہ ہوگا اور کس طرح مذموم ہو جبکہ اشیاء سب کے سب حق تعالیٰ کی معلوم ہیں اور ان سب کا علم صفات کا ملہ میں سے ہے ۔ اگر کہیں کہ جب ماسوی اللہ کا علم زائل نہیں ہوتا تو حق تعالیٰ کا علم اور ماسوائے حق کا علم ایک وقت میں کس طرح جمع ہو سکتے ہیں ۔ پس ماسوی الله کا نسيان ضروری ہے۔ میں کہتا ہوں کہ وہ علم جس کا اشیاء کے ساتھ تعلق ہے۔ علم حصولی کی قسم سے ہے اور وہ علم کہ جس کا تعلق حق تعالیٰ کی بارگاہ کے ساتھ ہے علم حضوری کے مشابہ ہے۔
پس ہر دوعلم ایک وقت میں جمع ہو جائیں گے اور کوئی محذور ومحال لازم نہیں آئے گا۔ محال اس وقت لازم آتا ہے جبکہ دونوں علم حصولی ہوں اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ علم حصولی کی قسم سے ہے اور علم حضور کے مشابہ ہے وہ اس واسطے کہا ہے کہ وہاں نہ تو حصول کی حقیقت ہے اور نہ ہی حضور کی گنجائش ہے۔ حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ کا علم جو اشیاء کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ حصولی نہیں ہے کیونکہ حوادث کو حق تعالیٰ کی ذات و صفات میں حلول وحصول نہیں ہے اور اس عارف کا علم اس علم کا ایک پرتو ہے اور اس علم کو بھی کہ جس کا تعلق حضرت حق تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ حضوری نہیں کہہ سکتے کیونکہ حق تعالیٰ مدرکہ سے اس کے اپنے نفس سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔ علم حضوری کو اس علم کے ساتھ وہی نسبت ہے جو علم حصولی کو علم حضوری کے ساتھ ہے۔ یہ معرفت عقل و فکر کے طور سے باہر ہے۔ وَمَنْ لَّمْ يَذُقْ لَم يَدْرِ جس نے مزہ ہی نہیں چکھا، وہ کیا جانے۔
پس ثابت ہوا کہ اشیاء کا علم حق تعالیٰ کے علم کے منافی نہیں ہے۔ پس اشیاء کا نسیان کچھ ضروری نہیں۔ برخلاف طریق ولایت کے کہ وہاں اشیاء کی گرفتاری کا زائل ہونا اشیاء کے نسیان کے سوا متصور نہیں کیونکہ ولایت میں ظلال کے ساتھ گرفتاری ہوتی ہے اور ظلال کی گرفتاری میں اس قد رقوت نہیں کہ اشیاء کے علم کے باوجود اشیاء کی گرفتاری کو زائل کر سکے۔ پس اول نسیان کا ہونا ضروری ہے تا کہ گرفتاری زائل ہوجائے۔ یہ وہ معرفت ہے جو اس درویش ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی اور نے اس کی نسبت کوئی کلام نہیں کی ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ479ناشر ادارہ مجددیہ کراچی