اہل سنت و جماعت کی آرائے صائبہ کے موافق صحیح اعتقاد کے بیان میں جو کتاب وسنت سے ماخوذ ہے اور ان لوگوں کے رد میں جنہوں نے کتاب وسنت سے اہل وسنت و جماعت کے معتقدات کے بر خلاف سمجھا ہے۔ یا کشف کے ساتھ ابل حق کا خلاف معلوم کیا ہے۔ مولانا امان اللہ فقیہ کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بداں اَرْشَدَکَ اللهُ تَعَالى وَ اَلْهَمَكَ سَوَاءَصِرَاطَ ۔ اللہ تعالیٰ تجھے سیدھا راستے کی ہدایت دے۔
تجھے معلوم ہونا چاہیئے کہ طریق سلوک کی جملہ ضروریات میں سے ایک اعتقادصحیح ہے جس کو علمائے اہل سنت و جماعت نے کتاب وسنت اور آرائے سلف سے استنباط فرمایا ہے اور کتاب و سنت کو ان کے معانی پرمحمول رکھنا بھی ضروری ہے۔ جن معانی کو تمام علمائے ابل حق یعنی اہل سنت و جماعت نے اس کتاب وسنت سے سمجھا ہے اور اگر بالفرض کشف و الہام کے ساتھ ان معانی مفہومہ کے برخلاف کوئی امر ظاہر ہو تو اس کا اعتبارنہ کرنا چاہیئے اور اس سے پناہ مانگنی چاہیئے ۔ مثلا وہ آیات و احادیث جن کے ظاہر سے توحید سمجھی جاتی ہے اور ایسے ہی احاطہ (اللہ تعالیٰ کا ہر چیز پر محیط ہونا)اور سریان (اللہ تعالیٰ کا مومن کے قلب میں سمانا)اور قرب اور معیت ذاتیہ معلوم ہوتے ہیں جب علمائے حق نے ان آیات و احادیث سے یہ معنی نہیں سمجھے ہیں تو اگر اثناۓ راہ میں سالک پریہ معانی منکشف ہو جائیں اور سوائے ایک کے کسی اور کو موجودنہ پائے اور اس کو محيط بالذات جانے اور ازروئے ذات کے قریب جانے ۔ اگرچہ اس وقت وہ غلبہ حال اور سکر(مستی) وقت کے باعث معذور ہے لیکن اس کو چاہیئے کہ ہمیشہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا اور زاری کرتا رہے تا کہ اس کو اس بھنور سے نکال کر وہ امور جوعلمائے اہل حق کی آرائے صائبہ کے مطابق ہیں، اس پر منکشف کرے اور ان کے معتقدات حقہ کے برخلاف سر مو ظاہر نہ کرے۔
غرض علمائے اہل حق کے معانی مفہومہ کو اپنے کشف کا مصداق اور اپنے الہام کی کسوٹی بنانا چاہیئے کیونکہ وہ معانی جوان کے مفہومہ معانی کے برخلاف ہیں محل کے اعتبار سے ساقط ہیں ۔
کیونکہ ہر مبتدع یعنی بدعتی اور ضال یعنی گمراہ کتاب وسنت ہی کو اپنے معتقدات کا مقتدا جانتا ہے اور اپنے ناقص فہم کے موافق اس سے معانی غیر مطابقہ سمجھ لیتا ہے۔ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا اکثرکو اس سے گمراہ کرتا ہے اور اکثر کو اس سے ہدایت دیتا ہے۔ اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ علمائے اہل حق کے معانی مفہومہ معتبر ہیں اور ان کے برخلاف معتبر نہیں ہے وہ اس سبب سے کہ انہوں نے ان معانی کو آثار صحابہ وسلف صالحین رضوان الله علیہم اجمعین کے چشمہ سے اخذ کیا ہے اور ان کے نجوم ہدایت کے انوار سے اقتباس فرمایا ہے ۔ اسی وا سطے نجات ابدی انہیں پر مخصوص ہے اور فلاح سرمدی انہی کے نصیب ہے أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (یہی لوگ اللہ تعالیٰ کا گروہ ہیں خبرداریہی اللہ تعالیٰ کا گردہ خلاصی پانے والا ہے اور اگر بعض علماء اعتقادحقہ کے باوجود فرعیات(اعمال) میں سستی کر یں اور تقصیرات کے مرتکب ہوں تو عملیات میں مطلق علماء کا انکار کرنا اور سب کو مطعون کرنامحض بے انصافی اور صرف مكابرہ یعنی ہٹ دھرمی ہے بلکہ اس میں دین کی اکثر ضروریات کا انکار ہے کیونکہ ان ضروریات کے ناقل اور ان کے کھوٹے کھرے کو پہچاننے والےیہی لوگ ہیں۔
لولا نور هدايتهم إما اهتدينا ولو لا تمیز هم الصواب عن الخطاء لغوینا وهم الذين بذلوا جهدهم في إعلاء كلمة الدين القويم واسلکو الطريق كثيرا من الناس على الصراط المستقيم فمن تابعهم افلح ونجا من خالفهم ضل و اضل ۔ اگر ان لوگوں کا نور ہدایت ہم کو نہ پہنچتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے اور اگر یہ لوگ صواب کو خطا سے الگ نہ کردیتے تو ہم گمراہ رہتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ساری کوشش کو دین قویم(سیدھا) کے کلمہ کو بلند کرنے میں لگا دیا اور اکثر لوگوں کو صراط مستقیم پر چلایا جس نے ان کی متابعت کی وہ بچ گیا اورنجات پا گیا اور جس نے ان کی مخالفت کی وہ خود بھی گمراہ ہوا اور اس نے اوروں کو بھی گمراہ کیا۔
جاننا چاہیئےکہ صوفیہ کے معتقدات آخر کاریعنی منازل سلوک کے طے کرنے اور ولایت کے اعلی درجات تک پہنچنے کے بعد علمائے اہل حق کے یہی معتقدات ہیں ۔ علماء ان کونقل واستدلال سے حاصل کرتے ہیں اورصوفیہ کشف و الہام سے۔ اگر چہ بعض صوفیہ کو اثنائے راہ میں سکر(مستی) وقت اور غلبہ حال کے باعث ان معتقدات کے مخالف امور ظاہر ہوتے ہیں لیکن اگر ان کو ان مقامات سے گزار کر نہایت کار تک پہنچائیں تو وہ امور گرد کی طرح اڑ جاتی ہیں اور اگر اس مخالفت پرر ہیں تو بھی امید ہے کہ اس مخالفت پر ان کو مواخذہ نہ کریں گے۔ ان کاحکم مجتہدمخطی کاحکم ہے یعنی مجتہد نے استنباط میں خطا کی اور صوفیہ نے کشف میں۔
صوفیہ کی جملہ مخالفات میں سے ایک وحدت وجود اور احاطہ اور قرب اور معیت ذاتیہ کاحکم ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا اور ایسا ہی صفات سبعہ (حیات، علم، قدرت،ارادہ، سمع، بصر، کلام)یا ثمانیہ(علمائے ماتریدیہ صفات سبعہ کے ساتھ تکوین (عالم وجود میں لانا)بھی شمار کرتے ہیں) کے وجود سے ان کا انکار ہے جو ذات باری تعالیٰ پر وجود زائد کے ساتھ خارج میں موجود ہیں کیونکہ علمائے اہل سنت و جماعت صفات کوحق تعالیٰ کی ذات پر وجود زائد کے ساتھ خارج میں موجود جانتے ہیں۔ ان کا انکار اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ان صفات کے آئینہ میں ان کوحق تعالیٰ کی ذات مشہودہوتی ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ دیکھنے والے کی نظر سے آئینہ پوشیدہ رہتا ہے ۔ پس اس اختفاء کے باعث خارج میں ان کے عدم وجود کا حکم کردیتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ اگر خارج میں موجود ہوتی تو مشہود ہوتی۔ فَحَيْثُ لَا شُهُوْدَ لَا وُجُوْدَ (چونکہ شہودنہیں اس لئےوجودبھی نہیں) اور علماء پر اس سبب سے کہ انہوں نے صفات کے وجود کا حکم کیا ہے طعن کرتے ہیں بلکہ کفر اور ثنویہ یعنی دوبینی کاحکم کرتے ہیں ۔ أَعَاذَنَا اللَّهُ سُبْحَانَهُ عَنِ الْجُرْاَتِ فِي الطَّعْنِ ( الله تعالیٰ ہم کو طعن کی جرأت سے بچائے) اور ان کو اس مقام سے ترقی ہو جاتی اور ان کا شہوداس پردہ سے نکل آتا اور مراتیت کا حکم زائل ہو جاتا اور صفات کو جدا دیکھتے تو انکار کا حکم نہ کرتے اور ان کی نوبت علمائے بزرگوار کے طعن تک نہ پہنچتی۔
اور ان کے جملہ مخالفات میں سے دوسری یہ ہے کہ یہ لوگ بعض ایسے امور کا حکم کرتے ہیں جو واجب تعالیٰ کے ایجاب کومستلزم ہیں ۔ اگر چہ یہ لوگ ایجاب کے لفظ کا اطلاق نہیں کرتے اور ارادہ کو ثابت کرتے ہیں لیکن درحقیقت ارادہ کی نفی کرتے ہیں ۔ اس حکم میں تمام لوگ اہل ملت کے مخالف ہیں ۔ ان امور میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لوگ اس بات کا حکم کرتے ہیں کہ حق سبحانہ وتعالیٰ قدرت کے ساتھ قادر ہے ان معنی میں کہ اِنْ شَاءَ فَعَلَ وَ إِنْ لَّمْ يَشَاءَ لَمْ يَفْعَلْ اگر چاہے گا کرے اور اگر نہ چاہے گا نہ کرے گا لیکن شرط اولی کو واجب الصدق (ضرور ایسا کریگا)جانتے ہیں اور شرط ثانیہ کوممتنع الصدق(ہر گز ایسا نہ کریگا)۔ یہ قول بھی ایجاب تک پہنچ جاتا ہے بلکہ قدرت کا ان معنی کے لحاظ سے بھی انکار ہے جو اہل ملت کے نزدیک ثابت و مقرر ہیں کیونکہ ان کے نزدیک قدرت کے معنی صحت فعل اور ترک کے ہیں اور ان کے قول سے فعل کا وجوب اور ترک کا امتناع(ترک کا منع کرنا) لازم آتا ہے۔ فَاَيْنَ هَذَا مِنْ ذٰلِکَ اس میں اور اس میں بہت فرق ہے۔
اس مسئلہ میں ان کا مذہب بعینہ حکماء کا مذہب ہے اور صدق اولی کے وجوب اور صدق ثانیہ کے امتناع کے باوجو ارادہ کا ثابت کرنا اور اس اثبات کے ساتھ اپنے آپ کو علماء سے جدا کرنا نافع نہیں ہے کیونکہ ارادہ کے معنی دوتسادی چیزوں میں سے ایک کوخاص کرنے کے ہیں ۔ پس جہاں تساوی و مساوات نہیں ہے وہاں ارادہ بھی نہیں اور اس جگہ وجوب اور امتناع کے درمیان تساوی و مساوات معدوم ہے۔ فَاَفْهَمْ ۔
اور ان امور میں سے دوسرا یہ ہے کہ مسئلہ قضاو قدر کی تخصیص میں ان کا بیان اس طرح پر ہے جس کا ظاہر ایجاب ہے اور اس بحث میں ان کی جملہ عبارات میں سے ایک یہ عبارت ہے کہ اَلْحَاكِمُ مَحْكُوْمٌ وَالْمَحْکُومُ حَاكِمٌ (حاکم محکوم ہے اور محکوم حاکم ہے) ایجاب سے قطع نظر کر کے حق تعالیٰ کو کسی کامحکوم بنانا اور کسی کو اس پر حاکم مقرر کرنا بہت ہی برا ہے۔ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ( یہ لوگ بہت ہی برے اور جھوٹ بات بولتے ہیں) اور ابھی اس قسم کی بہت سی مخالفتیں ہیں كقولهم امكان رؤیت الحق سبحانه ليست إلا بالتجلى الصورى (حق سبحانہ کی رؤیت تجلی صوری کے سوا نا ممکن ہے) یہ قول بھی حق تعالیٰ کی رؤیت کو مستلزم ہے وہ رؤیت جو انہوں نے تجلی صوری میں تجویز کی ہے۔ درحقیقت حق تعالیٰ کی رؤیت نہیں ہے۔ وہ شج و مشال کی رؤیت ہے۔
يَرَاهُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِغَيْرِ كَيْفٍ وَ إِدْرَاکٍ وَ ضَرْبٍ مِنْ مِّثَالٍ
مومن خدادیکھیں گے جنت میں خوش خصال بے کیف وبے شباہت و بے شبہ وہ بے مثال ۔
کقولهم بتقدم أرواح الکمل لازليتها یعنی یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ کاملین کی ارواح ازل ہی سے قدیم ہیں۔
ان کا یہ قول بھی اہل اسلام کے مخالف ہے کیونکہ اہل اسلام کے نزدیک تمام عالم مع اپنے اجزاء کے محدث(پیدا شدہ) ہے اور ارواح بھی جملہ عالم میں سے ہیں کیونکہ تمام ماسوائے اللہ کا نام عالم ہے۔ فَاَفْهَمْ
پس سالک کو چاہیئے کہ حقیقت حال تک پہنچنے سے پہلے اپنے کشف و الہام کے برخلاف علمائے اہل حق کی تقلید کو لا زم جانے اور علماء کوحق پر اور اپنے آپ کو خطا پر خیال کرے کیونکہ علماء کی مسند انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تقلید ہے جن کی تائید وحی قطعی سے کی گئی ہے اور خطا و غلط سے معصوم ہیں اور کشف و الہام وحی کے ساتھ ثابت ہوئے احکام کے مخالف ہونے کی صورت میں سراسر خطا اور غلط ہیں ۔ پس اپنے کشف کو علماء کے قول پر مقدم کرنا درحقیقت احکام قطعیہ منزلہ پر مقدم کرنا ہے اور یہ عین گمراہی اور محض خسارہ ہے اور نیز جس طرح کتاب و سنت کے موافق اعتقاد کا درست کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح ان کے موافق جیسا کہ علمائے مجتہدین نے کتاب وسنت سے استنباط فرمایا ہے اور احکام حلال و حرام وفرض و واجب و مستحب و مکروہ و مشتبہ ان سے نکالے ہیں ان کا علم وعمل بھی ضروری ہے۔ مقلد کو لائق نہیں کہ مجتہد کی رائے کے برخلاف کتاب و سنت سے احکام اخذ کرے اور ان پرعمل کرے اورعمل کرنے میں اس مجتہد کے مذہب سے جس کا وہ تابع ہے قول مختار کو اختیار کرے اور رخصت سے اجتناب کر کےعزیمت پر عمل کرے اور جہاں ہو سکے مجتہدین کے اقوال جمع کرنے میں کوشش کرے تا کہ متفق علیہ قول پر عمل واقع ہو۔
مثلا امام شافعی رحمتہ الله علیہ وضو میں نیت کو فرض کہتے ہیں ۔ نیت کے بغیر وضو نہ کریں اور اسی ترتیب اور اعضا کے دھونے اور تواتر کو بھی لازم جانتے ہیں ۔ ترتیب و تواتر کی بھی رعایت کرنی چاہیئے۔
امام مالک رحمتہ الله علیہ اعضا کے دھونے میں دلک یعنی ملنے کوفرض کہتے ہیں۔ اعضا کو ملنا بھی چا ہیئے۔
ایسا ہی لمس نساء(عورتوں کو چھونا) اور مس ذکر کو وضو کا ناقص یعنی توڑنے والا کہتے ہیں ۔ لمس نساء اورمس ذکر کے واقع ہونے کی صورت میں از سرنو وضو کرلے۔ علی ہذالقیاس۔
ان دو اعتقادی وعملی پروں کے حاصل ہونے کے بعد قرب ایزدی جل شانہ کے مدارج عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے اور منازل ظلمانی اور سالک نورانی کے قطع کرنے کا طالب ہونا چاہیئے۔
لیکن جاننا چاہیئے کہ ان منازل کاقطع کرنا اور ان مدارج پر عروج کرنا شیخ کامل مکمل راہ داں، راہ بیں رہنما کی توجہ وتصرف پر وابستہ ہے جس کی نظر امراض قلبی کوشفا بخشنے والی ہے اور اس کی توجہ نا پسندیدہ ردی اخلاق کو دور کرنے والی ہے۔ پس طالب کو چا ہیئے کہ اول شیخ کی طلب کرے۔ اگر محض فضل خداوندی سے اس کوشیخ کا پتہ بتلا دیں تو شیخ کی معرفت کونعمت عظمی تصور کر کے اپنے آپ کو اس کا ملازم بنائے اور ہمہ تن اس کے تصرف کے تابع ہو جائے۔
شیخ الاسلام ہروی رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں کہ الہی یہ کیا ہے جو تو نے اپنے دوستوں کو عطا کیا ہے کہ جس نے ان کو پہچانا اس نے تجھ کو پا لیا اور جب تک تجھ کو نہ پایا ان کو نہ پہچانا اور اپنے اختیار کو کلی طور پرشیخ کے اختیار میں گم کر دے اور اپنے آپ کو تمام مرادوں سے خالی کر کے کمرہمت کو اس کی خدمت میں باندھے اور جو کچھ اس کو فرماۓ اس کو اپنی سعادت کا سرمایہ جان کر اس کے بجالانے میں جان سے کوشش کرے۔ مقتدا اگر ذکر کو اس کی استعداد کے مناسب دیکھے گا تو اس کا امر کرے گا اور اگر توجہ و مراقبہ کے مناسب دیکھے گا تو اس کی طرف اشارہ کرے گا اور اگر صرف صحبت ہی میں رہنا اس کیلئے کافی دیکھے گا تو اس کا امر کرے گا۔
غرض شیخ کی صحبت کے حاصل ہونے کے باوجود ذکر اور شرائط راہ میں سے کسی شرط کی حاجت نہیں ہے جو کچھ طالب کے حال کے مناسب دیکھے گا، فرما دے گا اور اگر راستہ کی بعض شرائط میں تقصیر واقع ہوگی تو شیخ کی صحبت اس کا تدارک کر دے گی اور اس کی توجہ اس کی کمی کو پورا کر دے گا اور اگر ایسے شیخ مقتدا کے شرف صحبت سے مشرف نہ ہوتو پھر اگر مرادوں میں سے ہے تو اس کو اپنی طرف جذب کر لیں گے اورمحض عنایت بیغایت سے اس کا کام کردیں گے اور جو شرط و ادب کہ اس کیلئے درکار ہو گا اس کو جتلا دیں گے اور منازل سلوک کے قطع کرنے میں بعض بزرگواروں کی روحانیات کو اس کے راستہ کا وسیلہ بنائیں گے کیونکہ عادت اسی طرح جاری ہے کہ راہ سلوک کے طے کرنے میں مشائخ کی روحانیات کا وسیلہ درکار ہے اور اگر مریدوں میں سے ہے تو اس کا کام مقتدا کے وسیلہ کے بغیر مشکل ہے۔ جب شیخ مقتدا نہ ملے ہمیشہ الله تعالیٰ کی بارگاہ میں التجاو زاری کرتا ہے تا کہ اس کو مقتدا تک پہنچا دیں اور نیز چاہیئے کہ شرائط راہ کی رعایت کو لازم جانے ۔ شرائط مشائخ کی کتابوں میں مفصل طور پر بیان ہو چکی ہیں۔ وہاں سے ملاحظہ کر کے ان کو مدنظر رکھیں۔ .
شرائط راہ میں سے اعلی اور اعظم شرط نفس کی مخالفت ہے اور وہ مقام ورع و تقوی کی رعایت پر موقوف ہے جو محارم یعنی حرام سے ہٹ جانے سے مراد ہے اور محرمات وحرام سے نہیں بچ سکتے جب تک فضول مباحات سے پرہیز نہ کریں کیونکہ مباحات کے ارتکاب میں نفس کی باگ کا ڈھیلا کرنا مشتبہات تک پہنچا دیتا ہے اور مشتبہ حرام کے نزدیک ہے اور حرام میں گر پڑنے کا احتمال قوی ہے۔ مَنْ حَامَ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَقَعَ فِيهِ جوشخص چراگاہ کے گرد پھرا وہ بے شک اس میں جا پڑے گا) پس محرمات سے بچنا فضول مباحات سے بچنے پر موقوف ہوا۔ پس ورع میں فضول مباحات سے بچنا بھی ضروری ہوا اور ترقی وعروج ورع پر وابستہ ہے۔
اس کا بیان یہ ہے کہ اعمال کے دو جزو ہیں ایک امتثال اوامر یعنی امر کا بجا لانا دوسرا انتہاء از مناہی یعنی منہیات سے بچنا ۔ امتثال امر میں قدسی یعنی فرشتے بھی شامل ہیں ۔ اگر امتثال امر میں ترقی واقع ہوتی تو قدسیوں کو بھی واقع ہوتی اور مناہی سے بچ رہنا قدسیوں میں نہیں ہے ۔کیونکہ وہ بالذات معصوم ہیں اور مخالفت کی مجال نہیں رکھتے تا کہ اس سے نہی کی جائے۔ پس معلوم ہوا کہ ترقی اسی جزو پر وابستہ ہے اور یہ اجتناب سراسرنفس کی مخالفت ہے کیونکہ شریعت ہوائے نفسانی اور رسوم ظلمانی کے دفع کرنے اور مٹانے کے لئے وارد ہوئی ہے چونکہ نفس کی طبعی خواہش کاحرام کا ارتکاب یا فضول امر کا ارتکاب ہے جوحرام کے ارتکاب تک پہنچا دیتا ہے ۔ اس لئےحرام وفضول کے اجتناب میں اس کی عین مخالفت ہے۔
اگر سوال کریں کہ امتثال اوامر(تعمیل احکام) میں بھی نفی کی مخالفت ہے کیونکہ نفس نہیں چاہتا کہ عبادات میں مشغول ہو پس امتثال بھی ترقی کامستلزم ہو گا اور چونکہ ملائکہ میں امتثال کی مخالفت مفقود ہے۔ اس لئے ان کی ترقی کا سبب نہیں ہے۔ پس قیاس مع الفارق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عبادات میں نفس کا راضی نہ ہونا اس سبب سے ہے کہ وہ اپنی فراغت و آرام کا خواہاں ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ اپنے آپ کوکسی چیز سے مقید کرے اور یہ فراغت اور عدم تقیید(پابندی قبول نہ کرنا) بھی حرام میں داخل ہے یا فضول میں ۔ پس امتثال اوامر میں نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کی مخالفت اس حرام یا فضول سے اجتناب کے باعث ہے ، نہ صرف ادائے اوامر کے باعث جو کہ ملائکہ کو بھی حاصل ہے۔ پس قیاس صحیح ہے۔ پس جس طریق میں نفس کی مخالفت زیادہ تر ہے وہی سب طریقوں سے اقرب اور زیادہ تر نزدیک ہے اور کچھ شک نہیں کہ تمام طریقوں میں سے طریقہ علیہ نقشبندیہ میں نفس کی مخالفت کو زیادہ تر مد نظر رکھتے ہیں کیونکہ ان بزرگواروں نے عمل عزیمت پر اختیار کیا ہے اور رخصت سے اجتناب فرمایا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ عزیمت میں حرام وفضول کے اجتناب کے دونوں جز ومدنظر ہوتے ہیں ۔ بر خلاف رخصت کے کہ فقط حرام کا اجتناب ہے اگر کوئی یہ کہے کہ ہوسکتا ہے کہ باقی طریقوں نے بھی عزیمت کو اختیار کیا ہو تو میں کہتا ہوں کہ اکثر طریقوں میں سماع ورقص ہے۔ بڑے تامل کے بعد کام رخصت تک پہنچ جاتا ہے۔عزیمت کی اس میں کیا مجال ہے ایسا ہی ذکر جہر ہے جس میں رخصت سے زیادہ تصور نہیں۔
اور نیز دوسرے سلسلوں کے مشائخ نے اپنے اپنے طریقوں میں بعض حقانی نیتوں کے باعث امور محدثہ یعنی نئے نئے امور پیدا کئے ہیں جن میں نہایت صحت وتحقیق کے بعد رخصت ہی کا حکم ہے۔ برخلاف اس سلسلہ عالیہ کے بزرگواروں کے جوسر موسنت کی مخالفت پسند نہیں کرتے اور ابداع و احداث یعنی کسی نے امر کا پیدا کرنا روا نہیں رکھتے۔ پس اس طریق میں نفس کی مخالفت پورے طور پر ہے اس لئے یہی طریقہ سب طریقوں سے اقرب ہے۔ پس طالب کے لئے اس طریق کا اختیار کرنا نہایت ہی بہتر اور مناسب ہے کیونکہ یہ راہ نہایت اقرب ہے اور مطلب کمال رفعت میں ہے لیکن ان کے متاخرین(بعد) خلفاء کی ایک جماعت نے ان بزرگواروں کے اوضاع(افعال) و اطوار کو ترک کر کے اس طریق میں بعض نئے نئے امور پیدا کئے ہیں اور سماع ورقص و ذکر جہر کو اختیار کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس خاندان بزرگ کے بزرگواروں کی نیتوں کی اصل حقیقت تک نہیں پہنچے۔ یہ لوگ اپنے زعم میں خیال کرتے ہیں کہ ان محدثات (نئی باتوں)اور بدعات یعنی نئے امور اور بدعتوں سے اس طریقہ کی تکمیل اورتتمیم کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس کی بربادی اور خرابی میں کوشش کررہے ہیں۔ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ الله تعالیٰ حق بات کو پسند کرتا ہے اور وہی سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ359 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی