اس بیان میں کہ حق تعالیٰ کی صفات حیات اور علم اور تمام کمالات کے ساتھ متصف ہیں اور صفات کے اس قیام کے معنی کی تحقیق میں جوذات جل شانہ کے ساتھ رکھتی ہیں ملا سلطان سرہندی کی طرف صادر فرمایا ہے۔
واجب الوجود جل شانہ کی صفات مثل حيات و قدرت وعلم وغیرہ کے جو حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قیام کرتی ہیں کمال تنزه و تقدس کے باعث صفات ممکن کے ساتھ کی نسبت نہیں رکھتیں کیونکہ ممکن کی صفات سراسر اعراض ہیں جو جواہر کے ساتھ قیام رکھتی ہیں اور واجب الوجود جل شانہ کی صفات جواہرمُقَوِّمْ(قیام کرنے والی) ہیں کیونکہ جواہر کا قیام اس کے ساتھ ہے۔ نیز ممکن کی صفات میت کا حکم رکھتی ہیں اور جمادمحض ہیں اور حیات وعلم وغیرہ سے بے نصیب ہیں اس قدر ہے کہ ممکن ان کے ذریعے سےحی و عالم و قادر ہوتا ہے لیکن وہ بھی بذاتها حی وعالم نہیں ہے۔ برخلاف واجب الوجود جل شانہ کی صفات مقدسہ کے کہ وہ بھی اس حقیر کی نظرکشفی میں اپنے موصوف جل شانہ کی طرح حی و عالم ہیں اور اپنے مندرجہ کمالات کی تفصیل سے دانا اور اس پر فریفتہ ہیں لیکن ان کا علم علم حضوری کی قسم سے مفہوم ہوتا ہے نہ کے علم حصولی کی قسم سے اسی طرح ہر ایک صفت و شان جو مرتبہ وجوب تعالیٰ میں ثابت کیا جاتا ہے سب علم و حیات کے ثبوت سے ظاہر ہوتے ہیں اورمحض نور نظر آتے ہیں۔ گویا وہ نور سراسرحیات ہے اور سراسرعلم و انکشاف اور کمال کی یہ دونوں صفتیں وہاں ظاہر ہیں ۔ برخلاف دوسری صفات یعنی قدرت و ارادت وغیرہ کے کہ وہاں اس طرح واضح ہو کرمکشوف نہیں ہوتیں۔ ہاں جو کچھ اس مقام میں درکار ہے وہ کمالات کا انکشاف ہے جو صفت علم سے تعلق رکھتا ہے چونکہ علم حیات کے تابع ہے اس لیے صفت حیات بھی ضروری ہے اور قدرت و ارادت مقدور ومراد سے وابستہ ہے اورسمع و بصر کے علم پر کفایت کر سکتے ہیں اور کلام سےمقصود افادہ ہے اور تکون مکونات کیلئے ہے اس کے علاوہ ہر ایک صفت چونکہ جامع ہے اس لیے ہر ایک میں یہ کمال ثابت ہے۔ خواہ ظاہر ہو یا نہ ہو کوئی یہ نہ کہے کہ اس بیان سے معنی کا معنی کے ساتھ قیام لازم آتا ہے کیونکہ صفات جب حی و عالم ہیں تو ان کے ساتھ حيات وعلم کا قیام ضروری ہے اس لیے کہ میں کہتا ہوں کہ دونوں ذات واجب تعالیٰ کے ساتھ قائم ہیں ایک اصالت کے طور پر اور دوسری تبعیت کے طور پر جیسے کہ علماء نے اعراض کی بقاء میں کہا ہے کہ عرض اور عرض کا بقاء دونوں عرض کے محل سے قائم ہیں۔ اس بحث کی تحقیق یہ ہے کہ صفات واجبی جل شانہ کا قیام ذات تعالیٰ کے ساتھ ایسا نہیں ہے جیسے کہ عرض کا قیام جوہر کے ساتھ ہے۔حاشاو کلا بلکہ ایسا ہے جیسے مصنوع کا قیام صانع کے ساتھ ہے۔ صانع مصنوع کا قیوم ہے اگر چہ وہاں اتصاف ہے اور یہاں اتصاف نہیں لیکن وہ قیام ایسا ہے جیسے شے کا اپنی ذات کے ساتھ قیام ہوتا ہے۔ صرف اس قدرفرق سے کہ وہاں زیادتی ثابت ہے اور یہاں زیادتی متصور نہیں لیکن وہ زیادتی غیر یت کی حد تک نہیں پہنچاتی اس کےحق میں لا غیرہ فرمایا ہے پس دونوں جگہ تغائر اعتباری ثابت ہوا اور قیام متحقق ہوا۔ اس مقام میں اتصاف کا حاصل ہونا ایسا ہے جیسے انسان کا انسانیت کے ساتھ یا جوہر کا جوہریت کے ساتھ متصف ہونا بلکہ میں کہتا ہوں کہ جس مقام میں ذات اقدس اور صفات حقیقیہ مقدسہ ہیں جو حضرت ذات سے قائم ہیں وہاں صفت و اتصاف کا کوئی ملاحظہ ثابت نہیں ۔ نہ حضرت ذات میں موصوف ہونے کا ملاحظہ ہے نہ صفات مقدسہ میں صفت ہوناملحوظ ہے جب اس بارگاہ میں وجود اور وجود و جوب کی گنجائش نہیں تو پھر صفت و اتصاف کی کیا مجال ہے جو وجود کی فرع ہیں اس مقام مقدس میں نور کے سوا کسی چیز کی گنجائش نہیں اور وہ بھی بیچون ہے اگر حیات ہے تو وہ بھی نور ہے اور اگر علم ہے تو وہ بھی نور ہے ۔ علی ہذا القیاس۔ اگر اس نور اقدس بیچون کا ظہور مرتبہ دوم میں تغیر و انتقال کے بغیر ثابت کیا جائے تو وجود کے سوا کوئی چیز اس کا مظہر بننے کے قابل نہ ہوگی۔ اسی واسطے تعین اول اس حقیر کے نزدیک تعین وجودی ہے اور باقی تمام تعینات اس تعین اول کے تابع ہیں اگر چہ لفظ تعین کا اطلاق اس جگہ اس فقیر کے علوم کے موافق گنجائش نہیں رکھتا لیکن چونکہ یہ لفظ قوم میں متعارف و مشہور ہے اس لیے ہم بھی اس کے اطلاق میں دلیری کرتے ہیں۔ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ يا الله تو ہمارے نور کو کامل کر اور ہمیں بخش۔ تو ہر چیز پر قادر ہے ۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ336ناشر ادارہ مجددیہ کراچی