صفات واجبی کی تحقیق مکتوب نمبر 114دفتر سوم

صفات واجبی کی تحقیق اور اپنے کمالات کے ساتھ حق تعالیٰ کے علم کے تعلق کی کیفیت میں اور اس بیان میں کہ معنی کوعین کے قیام سے چارہ نہیں لیکن اس کیلئےمحل کا ثابت کرنا ضروری نہیں اور تعین وجودی اور انبیاء متبوعین اور انبیاء تابعین علیہم الصلوة والسلام اور ملائکہ کرام کے مبادی تعینات اور اولیاء عوام مومنین و کفار اور عالم آخرت کی موجودات کے مبادی تعینات کے بیان میں صادر فرمایا ہے۔ 

صفات حقیقیہ جو ہم حق تعالیٰ کے مرتبہ ذات میں ثابت کرتے ہیں اس اثبات سے اس بارگاہ میں کوئی تعین وتنزل پیدا نہیں ہوتا اور مرتبہ اول کے سوا کوئی دوسرا مرتبہ ثابت نہیں ہوتا اور کسی طرح بھی ان کا الگ ہونا متصورنہیں ہوتا۔ حضرت ذات تعالیٰ اور اس کی صفات حقیقیہ گویا ایک مرتبہ میں ثابت ہیں اور باوجود زیادت کے عین ذات ہیں اور اگر چہ یہ صفات مقدمہ حضرت ذات تعالیٰ کے مندرجہ کمالات کی تفصیل ہیں لیکن ان کاحکم تمام اجمال تفصیل کےحکم سے علیحدہ ہے کیونکہ اجمال اس مرتبہ میں ہے جہاں تفصیل ثابت نہیں بلکہ مرتبہ تفصیل مرتبہ اجمال سے نیچے ہے اس بارگاہ جل شانہ میں یہ امر مفقود ہے وہاں مرتبہ تفصیل عین مرتبہ ا جمال ہےیہ معرفت طور پر عقل سے برتر ہے جس کی طرف نظرکشفی نے ہدایت پائی ہے اس مرتبہ میں واجب تعالیٰ کا علم جوان صفات کے متعلق ہے اپنی ذات اور اپنی ذات کے مندرجہ کمالات کے علم کی طرح علم حضوری ہے گویا یہ سب باوجود زیادتی کے عین عالم ہیں اور ان کا حضورنفس عالم کے حضور کی طرح ہے چونکہ حضرت ذات تعالیٰ کے ساتھ ان کا کمال اتحاد ہے ۔ اس لیے صوفیہ کی ایک بڑی بھاری جماعت نے صفات کو عین ذات کہا ہے اور صفات کی زیادتی کا انکار کیا ہے اور لَا ھُوَ سے منع کر کے لَاغَیْرَهٗ کا اثبات فرمایا ہے لیکن کمال اس بات میں ہے کہ لَا ھُوَ کی تصدیق کے باوجود لَاغَیْرَهٗ کا اثبات کیا جائے اور باوجود زیادتی کے غیر یت کو سلب کیا جائے یہ کمال انبیاء کے علوم کے مذاق کے موافق اور فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت شکر اللہ تعالیٰ سعيهم کی رائے صائب کے مطابق ہے۔

 جاننا چاہیئے کہ اس مرتبہ میں وہ ذاتی انکشاف جو حضرت ذات تعالیٰ اور اس کی صفات مقدسہ سے تعلق رکھتا ہے علم حضوری کی قسم سے ہے کیونکہ صفات مقدسہ کا حکم بھی ذات تعالیٰ کے حکم کی طرح ہے جیسے کہ گزر چکا اور یہ جو ہم نے کہا ہے کے علم حضوری کی قسم سے ہے اس لیے کہ علم حضوری نفس عالم کے حضور سے مراد ہے اور صفات چونکہ نفس عالم نہیں ہیں اس لیے ان کا علم بھی حضوری نہیں لیکن چونکہ کوئی صورت ان سے الگ نہیں ہوتی اور ان کا حضورنفس ثابت ہے اس لیے علم حضوری کی قسم سے ہے اور انکشاف جو صفت علم سے تعلق رکھتا ہے علم حصولی کی قسم سے ہے اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ علم حصولی کی قسم سے ہے اس لیے کہ علم حصولی علم میں معلوم کی صورت حاصلہ سے مراد ہے اور اس فقیر کے نزدیک متحقق مکشوف ہوا ہے کہ واجب تعالیٰ کے علم میں کسی معلوم کی صورت متنقش نہیں اور اس کا علم کسی صورت معلومہ کامحل نہیں تو پھر عالم تعالیٰ شانہ کی ذات میں کس طرح صورت حاصل ہو سکے بلکہ اس کے علم کو معلوم کے ساتھ ایک خاص تعلق اور انکشاف ہے بغیر اس بات کے کہ علم میں معلوم کی صورت ثابت ہو کیونکہ خانہ علم تمام نقوش اور علمیہ صورتوں سے خالی اور مصفا ہے۔ مَعَ ذَلِكَ ‌لَا ‌يَعْزُبُ عَنْ ‌عِلْمِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السموات وَلَا فِي الْأَرْضِ ( باوجود اس کے ایک ذرہ بھی زمین و آسمان میں اس کے علم سے پوشیدہ نہیں ) اس قدرمکشوف ہوتا ہے کہ جب حق تعالیٰ کاعلم کسی معلوم سے تعلق پکڑتا ہے تو اس تعلق کے باعث ایک صورت معلوم سے جدا ہو جاتی ہے اور اس علم کے ساتھ قیام پیدا کرتی ہے بغیر اس بات کے کہ علم میں حلول و حصول پیدا کرے اور جب علم کے تعلق کے باعث ایک صورت معلوم سے جدا ہو جاتی ہے اور علم بلکہ عالم کے ساتھ قیام پیدا کر لیتی ہے تو راست آتا ہے کہ علم حصولی کی قسم سے ہو اور جب صفت علم حق تعالیٰ کی ذات کے مندرجہ کمالات سے تعلق پیدا کرتی ہے تو اس تعلق کے باعث ان کمالات سے علمیہ صورتیں الگ ہوتی ہیں اورعلم کے ساتھ قیام پیدا کرتی ہیں اگر چہ ان کا حلول وحصول علم میں ثابت نہیں ہوتا۔

 سوال:تم نے صفت علم کے ساتھ ان علمیہ صورتوں کا قیام پیدا کر دیا لیکن معلوم نہ ہوا کہ ان صورتوں کے ثبوت کامحل کون ہے جس طرح معنی کیلئےعین کا قیام ضروری ہے اس طرح اس کیلئے عین کامحل ہونا ضروری ہے۔

جواب : ہاں معنی کیلئےعین کا قیام ضروری ہے لیکن اس کیلئے محل کا ثابت کرنا ضروری نہیں ۔ معنی کیلئے محل کے ثابت کرنے سے مقصود اس کے ساتھ معنی کے قیام کا ثابت کرنا ہے نہ کہ قیام پر کوئی اور زائد امر جب ممکن کے جوا ہرمجردہ میں جوان علمیہ صورتوں کے ظلال کی مانند ہیں اوریہ صورتیں ان جواہر کی مبادی تعینات ہیں کہتے ہیں کہ ان کیلئے کوئی محل و مکان ثابت نہیں بلکہ کچھ ضروری نہیں تو اگر ان جواہر مجردہ (غیر مادی) کے اصول کیلئے محل نہ ہو تو کیا تعجب ہے۔ ان علمیہ صورتوں کو اعراض کی طرح تصور نہ کریں کہ غیرسے قیام رکھتی ہیں اور اعراض کے قیام پر ان کے محل کے ثابت کرنے کے پیچھے نہ پڑیں کیونکہ یہ علمیہ صورتیں اصول بلکہ جواہر (جن کے ساتھ اعراض کا قیام ہے)کے مبادی تعینات ہیں ۔ پھر اعراض کی ان کے ساتھ کیا نسبت ہے بلکہ میں اعراض میں بھی کہتا ہوں کہ ان کیلئےمحل کے ثابت کرنے سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ محل کے ساتھ ان کا قیام ثابت ہو جائے نہ یہ کہ محل مستقل طور پرمقصود ہوتا ہے اس کی تحقیق یہ ہے کہ یہ علمیہ صورتیں مرتبہ وجوب میں ثابت ہیں جہاں محل و مکان کی گنجائش نہیں اور قیام کے سوا وہاں کچھ متصور نہیں ۔ واجب الوجود جل شانہ کی صفات حقیقیہ میں جو حضرت ذات اقدس سے قیام رکھتی ہیں کوئی حالیت(اس کا کسی میں سرائیت کرنا ) و محلیت( اس میں کسی کا سرایت کرنا ) ثابت نہیں اور ثبوت ذہنی اور خارجی جو کہتے ہیں وہ مرتبہ امکان میں تقسیم پاتا ہے کیونکہ اس بارگاہ میں نہ خارج کی گنجائش ہے نہ علم کی جب اس بارگاہ میں وجود کا دخل نہیں تو پھر وجود ذہنی اور خارجی جو اس کی قسمیں ہیں وہاں ان کی کیا مجال ہوگی اور وجود کیلئے خارج وعلم کی ظرفیت کی کیا گنجائش ہوگی۔ پس یہ علمیہ صورتیں ثابت اور صفت علم کے ساتھ قائم ہیں اور کوئی ثبوت علمی اور خارجی ان میں متحقق نہیں بلکہ وجوعلمی اور خارجی کا ہونا ان کیلئے عار ہے کیونکہ وہ امکان کی صفات اور حدوث کے نشانات میں سے ہے فَاِنَّ کُلَّ مُمْكِنٍ حَادِثٌ عِنْدَهُمْ ( کیونکہ ان کے نزدیک ہرممکن حادث ہے ) اور مرتبہ وجوب وجود میں اگر چہ وجود ثابت ہوا ہے لیکن علم و خارج کی ظرفیت اس وجود کے لئے ظاہر نہیں ہوئی کیونکہ وہاں ظرف و مظروف ہونے کی مجال نہیں اس بات کوغور سے سننا چاہیئے کہ جب صورت معلوم نفس علم سے مراد ہے تو اس کا حصول و حلول علم میں کس طرح ہوگا۔ صوفياء میں سے متاخرین نے کہا ہے کہ علمیہ صورتیں جو اعیان ثابتہ (ممکنہ حقائق) سے مراد ہیں اور مکنات کی حقائق ہیں ان کا ثبوت صرف خانہ علم ہی میں ہے اور علم کے خارج میں وجود کی بو بھی ان کو نہیں پہنچی لیکن چونکہ ان علمیہ صورتوں کے عکوس ظاہر وجود کے آئینہ میں کہ جس کے سوا خارج میں کچھ موجود نہیں پڑے ہیں اس لیے متوہم ہوتا ہے کہ وہ صورتیں خارج میں موجود ہیں جس طرح کوئی صورت جب آئینہ میں منعکس ہوتی ہے تو یہ وہم گزرتا ہے کہ وہ صورت آئینہ میں ہے نہیں معلوم ان بزرگواروں کی کیا مراد ہے اور علم میں صورتوں کے حصول سے ان کا کیا مطلب ہے حالانکہ صورتیں شاہد و حاضر میں نفس علم ہیں اورغائب میں اللہ تعالیٰ کا علم ازلی قدیم بسیط وحدانی ہے جس کا تعلق بیشمار معلومات کے ساتھ ہے اور اس تعلق سے متعددصورتیں حاصل ہوتی ہیں جوان معلومات کو ایک دوسرے سے الگ الگ کردیتی ہیں بغیر اس بات کے کہ اس علم از لی میں ان کا حصول وحلول ثابت ہو اور اس میں متعددصورتیں کس طرح حلول کرسکیں جبکہ اس سے محل کاتبعض(بعض) وانقسام(تقسیم) لازم آتا ہے نیز اس میں شے کا غیرشے کے ساتھ فرض کر نا پایا جاتا ہے اور یہ امر ترکیب کا موجب ہے جو قدم اور ازلیت کے منافی ہےعجب معاملہ ہے کہ معقول والوں نے معلوم کی صورت حاصلہ کو ذہن میں ثابت کیا ہے اور ان ہی میں اس کا حلول(سرایت) سمجھا ہے نہ علم میں کیونکہ وہ صورت ان کے نزدیک عین علم ہے نہ کہ اس نے علم میں حلول کیا ہے لیکن متاخرین صوفیاء کی عبارت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علم میں اس صورت کا حصول وحلول ہے جس کو باطن وجود کہتے ہیں۔ وَھُوَسُبْحَانَهٗ أَعْلَمُ (اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے ) جاننا چاہیئے کہ یہ علمیہ صورتیں جو حق تعالیٰ کی ذات کے مندرجہ کمالات کے ساتھ صفت علم کے متعلق ہونے سے ثابت ہوئی ہیں نظر کشفی میں ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے حیات وعلم ثابت ہے اور ان کے لیے وہ انکشاف جوعلم حضوری کے مناسب ہے ان کمالات کی نسبت جوان میں مندرج ہیں حاصل ہے چنانچہ اس بحث کی تحقیق ایک مکتوب (نمبر 113 دفتر سوم)میں مفصل طور پر لکھی جا چکی ہے اگر اس کی معرفت کے عجیب وغریب ہونے کے باعث کچھ پوشیدگی کی رہ جائے اور حاجت پڑ جائے تو اس کی طرف رجوع کرنا چاہیئے جب بیان سابق سے واضح ہوا کہ حق تعالیٰ کی ذات اقدس اور اس کی صفات مقدسہ ایک ہی مرتبہ میں ثابت ہیں اور صفات کی زیادتی کے ثبوت سے کوئی تعین وتنزل اس بار گاہ جل شانہ میں پیدا نہیں ہوا تو جاننا چاہیئے کہ اس مرتبہ مقدسہ کا کہ حضرت ذات مع الصفات ہے مرتبہ دوم میں پہلا ظہور وہ ہے جس میں تغیر وتبدل کی آمیزش نہیں اور وہ اس فقیر کے نزدیک کشف و شہود(مشاہدہ) کی رو سے حضرت وجود ہے جومحض خیر اور صرف کمال ہے اور ظلیت کے طور پر تمام کمالات کے ظہور کی قابلیت رکھتا ہے وجود کے سوا کسی اور کو یہ دولت میسر نہیں ہوئی اسی واسطے اگر علم اس مرتبہ مقدسہ کے متعلق ہو جائے اور اس کے کمالات کوکھینچ لے جیسے کہ گزر چکا تو اول اول جو کچھ اس بارگاہ جل شانہ سے الگ ہو گا وہ حضرت وجود ہی ہوگا اور دوسرے کمالات اس کے تابع ہو نگے یہی وجہ ہے کہ صوفیاء وغیرہ کی ایک جماعت نے وجود کو عین ذات سبحانہ تصور کیا ہے اور وجود کے تعین کو لاتعین سمجھا ہے اور اس تعین اسبق کا ثبوت علم و خارج کے ماسوا ہے جیسے کہ اس امر کی تحقیق کئی جگہ بیان ہو چکی ہے کہ حضرت وجودظلیت کے طور پراجمالا تمام ذاتیہ اور صفاتیہ کمالات کا جامع ہے اور اس مرتبہ جامع اجمالیہ کی تفصیل بھی ہے جس کو تعین ثانی کہہ سکتے ہیں۔ اول اول جس چیز نے مرتبہ تفصیل میں ثبوت پیدا کیا ہے وہ صفت حیات ہے جو تمام صفات کی ماں یعنی اصل ہے یہ صفت حیات گویا اس صفت حیات کاظل ہے جو مرتبہ حضرت ذات تعالیٰ میں ثابت ہے اسی واسطے لَا ھُوَ  لَاغَیْرَهٗ ، اس کے حق میں ثابت ہے اوریہ ظل چونکہ اس مرتبہ میں پیدا ہوا ہے جو حضرت ذات تعالیٰ کے مرتبہ کے سوا ہے اس لیے لَاغَیْرَهٗ اس کے حق میں ثابت نہیں کیونکہ اس پر غیر یت کا داغ پڑا ہے ۔ صفت الحیا ۃ کے بعد ظلیت کے طور پر صفت علم ثابت ہے جیسے کہ صفت حیات میں گزرا یہ صفت تمام صفات کی جامع ہے اور صفت قدرت و ارادت و غیره با وجود استقلال کے گویا اس کے اجزاء ہیں کیونکہ اس صفت کو حضرت ذات تعالیٰ کے ساتھ اس قسم کا اتحاد ہے جو اس کے سوا غیر کے لیے ہیں اس لیے کہ علم حضوری میں علم و عالم و معلوم کا اتحاد ہے اور قدرت ہرگز قادر و مقدور کے ساتھ متحدنہیں ہوتی اور ارادت میں بھی کہ اَحَدُالْمَقْدُوْرِیْنَ یعنی دو مقدروں میں سے ایک کی تخصیص سے یہ اتحاد ثابت نہیں اسی طرح دوسری صفات کا حال ہے اس حقیر کے نزدیک حضرت خلیل علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کا مبدا تعین بالاصالت (براہ راست) تعین اول یعنی تعین وجود ہے اور اس تعین کا مرکز جواس کے تمام اجزاء میں سے اشرف ہے بالاصالت (براہ راست) حضرت خاتم الرسل ﷺکا مبدا تعین ہے چنانچہ اس بحث کی تحقیق ایک مکتوب میں مفصل طور پرلکھی جا چکی ہے چونکہ حضرت خلیل علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کی ولایت اسرافیلی ولایت ہے اس لیے حضرت اسرافیل علیہ السلام کا مبدا تعین بھی کی تعین وجودی ہے اور ہر ایک پیغمبر اور رسول کا  مبدأتعین بالاصالت  اس تعین اول وجودی کے حصوں میں سے ایک ایک حصہ ہے اور امتوں میں سے اگر کسی کو انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کی متابعت کی بدولت اس تعین وجودی میں سے حصہ مل جائےیااس تعین وجودی کے حصوں اور نقطوں میں سے کوئی حصہ یا نقطہ اس شخص کا مبدا تعین ہو جائے تو جائز بلکہ واقع ہے جب تک اس تعین میں  مبدأ تعین پیدا نہ ہو بالاصالت حضرت ذات تعالیٰ تک پہنچنا میسر نہیں ہوتا ملائکہ اعلی جو حضرت ذات جل شانہ کے مقرب ہیں ان کے مبادی تعینات بھی اسی تعین وجود میں ہے جس پر حضرت ذات تعالیٰ تک پہنچناوابستہ ہے۔ جاننا چاہیئے کہ یہ صفت علم جو تعین وجودی کے مرتبہ تفصیل میں پیدا ہوئی ہے۔ اگر چہ اس تعین وجودی کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے لیکن چونکہ جامعیت رکھتی ہے اس لیے گویانفس وجود کی طرح اس تعین کے تمام حصوں کی جامع ہے اس کا اجمال بھی ہے اور تفصیل بھی ۔ اجمال مرکز دائرہ کا حکم رکھتا ہے اور تفصیل محیط کا حکم ۔ پس اس تعین علمی کا مرکز جواجمال ہے گویا اس تعین اول وجودی کے مرکز کا ظل ہے اور اسی علاقہ سے بعض نے یقین کیا ہے کہ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کا  مبدأ تعین حضرت علم کا اجمال ہےنہیں بلکہ یہ اجمال آنحضرت ﷺکے مبدأ تعین کا ظل ہے جوتعین اول وجودی کا مرکز ہے جیسے کہ اوپرگزر چکا نیز بعض نے اس علم کے اجمال کو تعین اول کہا ہے اور مرتبہ فوق کولاتعین جانا ہے اور حضرت وجود کا عین خیال کیا ہے ہاں عین وجود ہے لیکن تعین کے ساتھ منسوب ہے۔ جیسے کہ اوپر گزر چکا ہے۔ پوشیدہ نہ ر ہے کہ تعین اول کے مندرجہ حصے اگر چہ انبیاء کرام اور ملا ئکہ عظام علیہم الصلوۃ والسلام کے مبادی تعینات ہیں لیکن چونکہ اس مرتبہ میں اجمال ہے اس لیے ہر ایک کا  مبدأعلیحدہ علیحدہ مفصل طور پر معلوم نہیں ہوتا اور اس کا کوئی نام مقرر نہیں کیا جاتا جب اس نے تفصیل پائی ہر ایک کا مبدأ الگ ہوا اور علیحدہ نام پایا ۔ مثلا است تعین اول وجودی کا ایک حصہ اسم الحیاۃ ہے اور دوسرا حصہ اسم العلم ہےعلی هذا القیاس اور مشہود ہوتا ہے کہ اسم الحیاۃ اس جامعیت کے اعتبار سے کہ رکھتا ہے ملائکہ علییں علی نبینا وعلیہم السلام کا مبداء تعین ہے۔ حضرت روح اللہ علیہ السلام کو بھی جو ملاء اعلی کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اس مقام سے حصہ حاصل ہے اور مہدی علیہ الرضوان بھی چونکہ حضرت روح اللہ علیہ السلام کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اس مقام کے امیدوار ہیں۔

 جاننا چاہیئے کہ صفات ثمانیہ(حیات، علم، قدرت،ارادہ، سمع، بصر، کلام، تکوین) میں سے ہر ایک صفت جنہوں نے مرتبہ تعین ثانی میں تفصیل پائی ہے ہر ایک بزرگ مقتدا پیغمبر علیہ السلام کا  مبدأ ہے چنانچہ علم حضرت خاتم الرسل علیہ السلام کا  مبدأتعین ہے اور قدرت حضرت عیسی علیہ السلام علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کا  مبدأتعین ہے اورتکوین حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کا  مبدأ تعین ہے ۔ ان اسما ء کلیہ مقدسہ کے جزئیات باقی تمام انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے مبادی تعینات ہیں ان بزرگواروں میں سے وہ گروہ جو خاص اسم کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور خاص مقتداء نبی کے ساتھ ان کی مناسبت ہے ان کے مبادی تعینات اس اسم کی جزئیات ہیں اور وہ اولیاء جو مقتداء پیغمبروں میں سے کسی پیغمبر کے قدم پر ثابت ہیں ان کے مبادی تعینات اس اسم کے جزئیات کی جزئیات ہیں جو اس پیغمبر کا  مبدأ تعین ہے۔ اسی طرح تمام مومنوں کے مبادی تعینات اس اسم کی جزئیات ہیں جو اس پیغمبر کا مبداءتعین ہے جس کے قدم پروہ چلتے ہیں کفار کے مبادی تعینات اسم مفصل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان مبادی مذکورہ سے الگ ہیں جب ممکنات کے مبادی تعینات معلوم ہو چکے تو اب جاننا چاہیئے کہ دائرہ وجوب ان تعینات کی منتہا پر ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد دائرہ ممکنات شروع ہوتا ہے حق تعالیٰ نے جب چاہا کہ اپنے کمال کرم و احسان سے اپنے فیوض و انعامات دوسروں کو عطا فرمائے اور گنج بخشی ظاہر کرے تو خلقت کو پیدا کیا اور اپنے وجود اور توابع وجود کے کمالات ان کو بخشے ۔ بغیر اس بات کے کہ وہاں سے کچھ جدا ہو کر ان کے ساتھ ملحق ہو جائے کیونکہ یہ امرنقص کا موجب ہے۔ تَعَالَى اللہُ عَنْ ذَالِکَ ‌عُلُوًّا ‌كَبِيرًا ( الله تعالیٰ اس سے بہت ہی برتر اور بلند ہے) خلق سے مقصود یہ ہے کہ ان کو اپنے انعام و احسان پہنچائے نہ یہ کہ ان کے ذریعے اسمائی و صفاتی کمالات کی تکمیل وتتمیم ہو ۔ حاشا وکلا صفات في حد ذاتها کامل ہیں ۔ ظہور ومظہر کی ان کو کچھ حاجت نہیں ۔ اس بارگاہ جل شانہ میں تمام کمالات بالفعل حاصل ہیں ۔ بالقوۃنہیں جس کا حاصل ہونا کسی دوسرے امر پر وابستہ ہو۔ اس بارگاہ جل شانہ میں اگر شہود(مشاہدہ) و مشاہدہ ہے تو خود بخود ہے اور اگر علم و معلوم ہے تو خود ہی عالم ہے اور خود ہی معلوم ۔ اسی طرح خود تکلم ہے اور خود ہی سامع ہے وہاں تمام کمالات مفصل ومتمیز ہیں لیکن بیچونی کے طور پر کیونکہ چون کو بیچون کی طرف کوئی راہ نہیں خلق کیا ہے جوحق تعالیٰ کے کمالات کا آئینہ بن سکے۔ 

در کدام آئینه در آیداو ترجمہ: وہ کسی آئینہ میں آتا نہیں 

اور عالم کیا ہے جو اس اجمال کی تفصیل کرے کیونکہ وہ بارگاہ جل شانہ میں اجمال میں تفصیل ہے اور عین تنگی میں وسعت ہے چونکہ اس جگہ کی تفصیل و وسعت بیچون ہے۔ اس لیے متوہم ہوتا ہے کہ اجمال کے لیےتفصیل کی ضرورت ہے جوخلق عالم پر وابستہ ہے اور اس اجمال کی تکمیل اس تفصیل پر موقوف ہے لیکن حق یہ ہے کہ وہاں اجمال بھی ہے اور تفصیل بھی جیسے کہ گزر چکا ہے۔ وَ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (الله تعالیٰ گھیرنے والا اور جاننے والا ہے جاننا چاہیئے کہ اس عالم کی پیدائش اس مرتبہ میں واقع ہوئی ہے جس کو اس مرتبہ مقدسہ کے ساتھ کسی قسم کی مزاحمت و مدافعت نہیں ۔ أَحَدُ الْمَوْجُوْ دَیْنِ یعنی دو موجودوں میں سے ایک کا وجود اگرچہ دوسرے وجود کی حد بندی کرنا چاہتا ہے لیکن یہ قاعدہ اس جگہ مفقود ہے کیونکہ عالم کے وجودنے اس وجود اقدس کے لیے کوئی حد نہایت پیدا نہیں کی اور کسی نسبت وجہت کو ثابت نہیں کیا ۔ وہ صورت جو آئینہ میں توہم ہوتی ہے اس کا ثبوت مرتبہ وہم میں ثابت ہے اس ثبوت کوزید کے ثبوت کے ساتھ جو اس صورت کا اصل ہے کسی قسم کی مزاحمت و مدافعت حاصل نہیں اور اس صورت کے ثبوت نے اپنے اصل کے ثبوت میں کوئی حد و نہایت پیدا نہیں کی اور کوئی جہت و نسبت حاصل نہیں کی ۔ عالم کا وجود اس صورت کے وجود کی طرح ہے جو مرتبہ وہم میں ثابت ہے جس کو اپنے اصل کے ساتھ جو خارج میں موجود ہے کوئی مزاحمت نہیں اور صورت کے اس وہمی ثبوت سے اس خارجی ثبوت میں جو صورت کا اصل ہے کیا تم کی حدو نہایت پیدا نہیں ہوئی۔ وَلِلَّهِ ‌الْمَثَلُ الْأَعْلَى مثال اعلى الله تعالیٰ کے لیے ہے ۔

اس تحقیق سے اس بات کی حقیقت معلوم ہوئی جو کہتے ہیں کہ عالم مرتبہ وہم میں ثابت ہے یعنی عالم اس مرتبہ میں پیدا ہوا ہے جو مرتبہ وہم کے مشابہ ہے جو آئینہ کی منعکسہ صورت کے لیے اپنے اصل کی نسبت کہ خارجی میں موجود ہے۔ ثابت ہے بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ اس مرتبہ مقدسہ میں وجود خارجی(وجود جس کا خارج میں ادراک ہو سکے) کا اطلاق بھی تشبیہ و تنظیر کی قسم سے ہے کیونکہ خارج کی دہاں گنجائش نہیں جب وجود اس مرتبہ اقدس سے کوتاه ہے تو پھر خارج کیا ہے جو وجود کی فرع اورقسم ہے۔

 خاتمہ حسنہ

:۔ یہ سب مبادی تعینات جو مذکور ہوئے ہیں خواہ عین وجودی اجمالی ہو یاتفصیلی سب اس عالم دنیا کی موجودات ممکنہ کے ساتھ نسبت رکھتے ہیں اور اس عالم دنیا کی موجودات کا وجود وتشخص ان مبادی عالیہ پر وابستہ ہے لیکن موجودات آخرت (مشہود ہوتا ہے کہ) ان مبادی مذکورہ پر وابستہ نہیں بلکہ ان کے مبادی تعینات اور امور ہیں ۔ وہ امور اس فقیر کے نزدیک وہ کمالات ذاتیہ ہیں جن کے دامن پاک تک ظلیت کی گردنہیں پہنچی اور اس مرتبہ اقدس میں مندرج ہیں بلکہ اس مرتبہ مقدسہ میں بیچونی تفصیل و تمیز کے ساتھ مفصل و متمیز ہیں ۔ ان کمالات مقدسہ مفصلہ ذاتیہ میں سے ہر ایک کمال عالم آخرت کی موجودات میں سے ہر ایک موجود کا  مبدأتعین ہے۔ اہل بہشت کے وجود کو ان تعینات وجودی کے ساتھ خواہ اجمالی ہوں یا تفصیلی جو عالم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں کسی قسم کامس نہیں ۔ عالم آخرت کی موجودات گویا اس مرتبہ مقدسہ کے مواجہ اور مقابل ہیں۔ برخلاف عالم دنیا کی موجودات کے کہ اس مواجہ اور مقابلہ سے بے نصیب ہیں ۔ اس عالم دائمی کی موجودات کو اس مرتبہ مقدسہ سے اس قسم کے نصيب وحظ حاصل ہیں جو بیان سے باہر ہیں۔ 

ھَنِیئًا لأرْبَابِ النَعِیْمِ ِنَعِيْمُهَا ارباب نعمت کو یہ نعمت مبارک

وَمِنْ بَعْدِ هٰذَا مَايَدِقُ صِفَاتُهٗ                     وَکَتْمُہٗ أَحْطٰى لَدَيْهِ وَأَجْمَلُ

ترجمہ بیت بعدازاں وہ امر ہے جس کا نہیں ملتا یا اس کا پوشیدہ ہی رکھنا اور چھپانا ہے بھلا رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا (ياللہ تو ہماری بھول چوک پر ہمارا مواخذہ نہ کر) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ338ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں