چند سوالوں کے جواب میں اور اس راہ کی بے نہایتی اور رمزوا جمال کے طور پر طریقت کے بعض مقامات و منازل کی تفصیل کے بیان میں مشخیت مآب شیخ ادریس سامانی کی طرف لکھا ہے۔
حمد وصلوة اورتبلیغ دعوات کے بعد عرض کرتا ہے کہ اس طرف کے فقراء کے احوال حمد کے لائق ہیں اور آپ کی خیر و عافیت اور حضرت علیہ الصلوة والسلام کے پسندیدہ طریقہ پر استقامت و ثابت قدمى اللہ تعالیٰ سے مطلوب و مسئول ہے۔
ان احوال ومواجيد کا بیان جو مولانا عبدالمومن کی زبان کے حوالے کیا تھا۔ مولانا نے مفصل طور پر ظاہر کر کے کہا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگر میں زمین کی طرف نظر کرتا ہوں تو زمین کو نہیں پاتا ہوں اور اگر آسمان کی طرف نظر کرتا ہوں تو اس کو بھی نہیں پاتا ہوں اور جس کسی کے آ گے جاتا ہوں اس کا وجود بھی نہیں پاتا ہوں اور ایسے ہی عرش و کرسی و بہشت و دوزخ کا بھی وجود نہیں پاتا ہوں اور اپنا وجود بھی نہیں جانتا ہوں۔ حق تعالیٰ کا وجود بے پایاں ہے اس کی نہایت کو کسی نے معلوم نہیں کیا بزرگ بھی اسی جگہ تک رہ گئے ہیں اور یہاں تک آ کر سیر سے عاجز ہو گئے ہیں اور اس معنی سے زیادہ کچھ اختیار نہیں کیا ہے۔ اگر آپ بھی اس کو کامل جانتے ہیں اور اسی مقام میں ہیں تو پھر میں آپ کے پاس کس لئے آؤں اور کیوں تکلیف اٹھاؤں اور آپ کو بھی تکلیف دوں اور اگر اس کمال کے سوا کوئی اور امر ہو تو اطلاع بخشیں۔ تا کہ ایک اور یار کے ساتھ جو درد و طلب بہت رکھتا ہے وہاں آؤں۔ اسی تردد کے حاصل ہونے کی وجہ سے چند سال تک وہاں آنے میں توقف رہا۔
میرے مخدوم ! اس قسم کے احوال قلب کے تلوينات (ایک حال یا صفت سے دوسرے حال یا صفت میں تبدیل ہوتے رہنا) سے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے احوال والے شخص نے قلب کے مقامات سے ابھی چوتھے حصہ سے زیادہ طے نہیں کیا۔ مقامات قلب سے تین حصہ اور طے کرنے چاہئیں تا کہ قلب کا معاملہ پورے طور پر طے ہواور پھر قلب کے آگے روح اور روح کے آگے سر اور سر کے آگے خفی اور اس کے بعد اخفی ہے۔ ان باقی ماندہ چاروں میں سے ہر ایک کے لئے الگ الگ احوال ومواجید ہیں اور سب کو جدا جدا طے کرنا چاہیئے اور ہر ایک کمالات سے آراستہ ہونا چاہیئے۔ عالم امر کے ان پنجگانہ لطائف سے گزرنے اور ان کے اصلوں کی منازل کو درجہ بدرجہ طے کرنے اور اسماء و صفات کے ظلی مدارج کو جوان اصول کے اصول ہیں۔ درجہ بدرجہ کرنے کے بعد اسماء و صفات کی تجلیات اور اور شیونات(جمع الجمع کا صیغہ ہے اس کا مُفرد شان ہے اور شیون اسکی جمع ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) و اعتبارات کے ظہورات ہیں اور ان تجلیات سے گزر کر آگے تجلیات ذات ہیں۔ تب نفس کے اطمینان سے معاملہ پڑتا ہے اور پروردگار تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے وہ کمالات جو اس مقام میں حاصل ہوتے ہیں ان کے مقابلہ میں پہلے کمالات ایسے ہیں ہے کہ دریائے محیط ناپیدا کنار کے مقابلہ میں قطرہ۔ اس مقام میں شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور اسلام حقیقی سے مشرف ہوتے ہیں۔
کار این است غیر ایں ہمہ ہیچ ۔اصل کام ہےیہی باقی سب ہیچ ہے۔
اسم وصفات کی وہ تجلیات جو عالم امر کی ان پنجگانہ منزلوں کو ان کے اصول اور اصول کے قطع کرنے سے پہلے متو ہم ہوتے ہیں وہ عالم امر کے بعض خواص کے ظہورات ہیں جو بیچونی( بےمثل) اور لا مکانیت سے کام رکھتے ہیں نہ کہ اسماء و صفات کی تجلیات۔ ایک سالک نے اسی مقام میں کہا ہے کہ میں((30) سال تک روح کو خدا سمجھ کر اس کی پرستش کرتا رہا۔ پس وصول کہاں ہے اورسیری کسی کے لئے ہے۔
كَيْفَ الْوُصُوْلُ إِلىٰ سُعَادَ وَدُوْنَهَا قُلَلْ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ خُيُوْفُ
میں سعاد تک کعب کیسے پہنچوں کس قدر خوفناک راستے ہیں
چونکہ آپ نے توجہ کے ساتھ اس راہ کی حقیقت کو بیان کرنا طلب فرمایا تھا اس لئے مختصر
طور پر کچھ اس کا بیان لکھا گیا ہے۔ والْأَمْرُ عِنْدَ اللهِ سُبْحَانَہ اصل معاملہ الله تعالیٰ کو معلوم ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَعَلىٰ مَنْ لَّدَيْکُمْ آپ پر اور آپ کے حاضرین مجلس پر سلام ہو۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ192 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی