طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی تعریف مکتوب نمبر27 دفتر اول

 طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی تعریف اور ان بزرگواروں کی بلندی نسبت کے بیان میں۔ خواجہ عمک کی طرف لکھا ہے:

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔

آپ کا مبارک نامہ جو ازروئے کرم کے اس مخلص کے نام لکھا ہوا تھا۔ اس کے آنے سے فقیر بہت خوش ہوا۔ خدا آپ کو سلامت رکھے۔ فقیر نہیں چاہتا کہ آپ کو تکلیف دے۔ بغیر اس بات کے کہ اس طریق علیہ نقشبندیہ کی تعریف کرے۔

میرے مخدوم ! اس سلسلہ عالیہ کے بزرگواروں کی عبارتوں میں لکھا ہے کہ ہماری نسبت سب نسبتوں سے بڑھ کر ہے۔ نسبت سے ان کی مرادحضور و آ گاہی ہے اور وہ حضور جوان کے نزدیک معتبر ہے۔ حضور بے غیبت ہے جس کو یاداشت سے تعبیر کرتے ہیں۔

پس ان بزرگواروں کی نسبت سے مراد یادداشت ہے اور یادداشت جو اس فقیر کے فہم قاصر میں قرار پائی ہے۔ اس تفصیل پر مبنی ہے کہ تجلی ذاتی حضرت ذات کے حضور سے مراد ہے۔ جو بے ملاحظہ اسماء صفات و شیون(اس کا مُفرد شان ہے   شان کا معنیٰ حال اور امر ہے)  و اعتبارات کے ظاہر ہو اور مشائخ نے اس تجلی کوتجلی برقی کہا ہے۔ لیکن تھوڑی دیر کے لئے شیون و اعتبارات رفع ہو جاتے ہیں اور پھر شیون و اعتبارات کے پردے چھا جاتے ہیں۔ پس اس تقدیر پر حضور بے غیبت متصور نہیں بلکہ تھوڑی دیر حضور ہے اور اکثر اوقات غیبت پس یہ نسبت ان عزیزوں کے نزدیک معتبر نہیں ہے حالانکہ اس تجلی کو دوسرے سلسلوں کے مشائخ نے نہایت النہایت کہا ہے اور جس وقت یہ حضور دائمی ہو جائے اور ہر گز پردے میں نہ آئے اور ہمیشہ بے پردہ اسماء و صفات و شیون و اعتبارات کے جلوہ گر ہو تو اس وقت حضور بے غیبت ہوگا۔ پس ان بزرگواروں کی نسبت کو دوسروں کی نسبت کے ساتھ قیاس کرنا چاہئے اور بے تکلف سب سے برتر جاننا چاہئے اس قدم کاحضور اگر چه بہت لوگوں کو بھی معلوم ہوتا ہے لیکن ۔

ھنیئا لارباب النعيم نعيمها    وللعاشق المسكين ما يجرع

ارباب نعمت کو یہ نعمت مبارک اور عاشقوں کو یہ رنج و حسرت مبارک

يہ نسبت عالیہ اتنی نادر اورقليل الوجود ہے کہ اگر بالفرض اسی بزرگ سلسلہ کے مشائخ کے سامنے بیان کی جائے تو گمان ہے کہ ان میں سے اکثر انکار کر دیں اور ہرگز یقین نہ کریں وہ نسبت جواب اس خانواده بزرگ کےمشائخ میں متعارف اور مشہور ہے۔ مراد ہے حق تعالی کے حضور اور شہود(مشاہدہ)  سے اس طرح پر کہ شاہدی اور مشہودی(مشاہدہ)  کے وصف سے پاک ہو اور مراد ہے اس وجہ سے جو جہات ستہ مشہورہ سے خالی ہو۔ اگر چہ فوق کی جہت کا وہم گزرتا ہے اور بظاہر دوام قبول کرتا ہے۔ یہ نسبت صرف مقام جذبہ میں بھی ثابت ہو جاتی ہے اور اس کی فوقیت کیلئے کوئی وجہ ظاہر نہیں ہے۔ برخلاف یادداشت سابقہ کے کہ جس کا حاصل ہوتا جہت جذبہ اور مقامات سلوک کے تمام ہونے کے بعد ہے اور اس کے درجہ کی بلندی کی پر پوشیدہ نہیں ہے اگر پوشیدگی ہے تو صرف اس کے حاصل ہونے میں ہی ہے اگر کوئی حاسد حسد کے باعث انکار کر دے اور ناقص اگر اپنے نقص کی وجہ سے منکر ہو جائے تو معذور ہے ۔

 قاصرے گر کندایں طائفہ راطعن و قصور حاشا للہ که برارم بزباں ایں گلہ را

ہمہ شیران جهان بستہ ایں سلسه اندر و بہ از حیله چساں ہگلسد این سلسله را

ترجمہ: اگر کوئی قاصر لگائے طعنہ ان کے حال پر توبہ توبہ گر زباں پر لاؤں میں اس کا گلہ شیر ہیں جکڑے ہوئے اس سلسلے میں سب کے سب ٹوٹ جائے لومڑی سے کیسے پھر یہ سلسلہ

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ107 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں