طریقہ علیہ نقشبندیہ کی خصوصیتوں اور کمالوں کے بیان میں لیکن اس طریق کے افضل ہونے اور دوسروں کی انتہاء اس کی ابتداء میں مندرج ہونے اور اس طریق کے انتہاء کے بیان میں اور سفر دروطن اور خلوت در انجمن اور سلوک پر جذبہ کے مقدم ہونے کے بیان میں اور اس بیان کہ اس طریق میں سیر کی ابتداء عالم امرسے ہے اور یہ طریقہ موصل الى اللہ(اللہ سے واصل ہونے والے) طریقوں میں سے سب سے اقرب ہے اور یہ طریقہ ایسا ہے کہ اس کے ابتداء میں حلاوت اور وجدان ہے اور انتہاء میں بے مزگی اورفقدان جو نا امیدی کے لوازم سے ہے اور ایسا ہی اس طریق کے ابتداء میں قرب و شہود(مشاہدہ) ہے اور انتہاء میں بعدووحر مان اور اس طریقہ کے بزرگواروں نے احوال ومواجید کو احکام شرعی کے تابع کیا ہے اور ذوق ومعرفتوں کو علوم دینی کا خادم بنایا ہے اور اس طریق میں پیری و مریدی طریقت کے سیکھنے اور سکھانے پر ہے اور نہ کلاه وشجرہ پر اور اس طریق میں نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کے ساتھ ریاضتیں اور مجاہدے احکام شرعی کے بجالانے اور سنت سنيہ على صاحبها والصلوۃ والسلام کے لازم پکڑنے سے ہیں اور اس طریق میں سالک کا سلوک شیخ مقتدا کے تصرف پرمنحصر ہے اور جس طرح یہ بزرگوار نسبت عطا کرنے میں کامل طاقت رکھتے ہیں ۔ اسی طرح اس نسبت کے سلب کرنے میں بھی پوری طاقت رکھتے ہیں اور اس طریق میں زیادہ تر افادہ(فائدہ پہنچانا ) اور استفاده(فائدہ حاصل کرنا) خاموشی میں ہے اور خاموشی اس طریق کے لوازم سے ہے اور اس کے مناسب میں سید حسین مانک پوری کی طرف لکھا ہے:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاٰلِهِ الطَّاهِرِيْنَ اَجْمَعِیْنَ
میرے عزیز بھائی ! سیادت پناه میر سیدحسین نے دور پڑے ہوؤں کو فراموش نہ کیا ہو گا اور اس طریقہ علیہ کے آداب کی رعایت کو جو مشائخ کرام کے عظام کے تمام طریقوں سے کئی وجہ سے ممتاز ہے۔ ہاتھ سے نہ دیا ہوگا۔ چونکہ آپ کو ملاقات کی فرصت کم ملی ۔ اس لئے مطلب کو مدنظر رکھ کر اس طریقہ علیہ کی بعض خصوصیتوں اور کمالات کو علوم بلند و معارف ارجمند کے ضمن میں لکھتا ہے۔
اگر چہ معلوم ہے کہ اس قسم کے علوم و معارف کا سمجھنا بالفعل سننے والوں کےفہموں سے بعید ہے لیکن ایسے مصارف اختیار کرنا دو باتوں سے ہے ایک یہ کہ سننے والے(سید حسین مانک پوری) کو ان علوم کی استعداد ہے اگر چہ اس کو بالفعل دور از کار دکھائی دیتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ اگر چہ ظاہر میں مخاطب معین(مخصوص) ہے لیکن حقیقت میں مخاطب وہ شخص ہے جو اس معاملہ سے واقف ہے ۔ اَلسَّیْفُ لِلضَّارِبِ ( تلوار مارنے والے کیلئے ہے)مثل مشہور ہے۔
اے بردار ! اس بلند طریق کے سرحلقہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں جو انبیاء علیہم والصلوة والسلام کے بعد تحقیقی طور پر تمام بنی آدم سے افضل ہیں اور اسی اعتبار سے اس طریق کے بزرگواروں کی عبارتوں میں آیا ہے کہ ہماری نسبت تمام نسبتوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ ان کی نسبت جس سے مراد حضور اور آگاہی ہے۔بعینہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت اور حضور ہے جو تمام آگاہیوں سے بڑھ کر ہے اور اس طریقت میں نہایت اس کے ابتدا میں درج ہے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہم نہایت کو ابتدا میں درج کرتے ہیں ۔ع
قیاس کن زگلستان من بہار مرا ترجمہ: قیاس کرلے مرے باغ سے بہار کو تو ۔
اور اگر کوئی پوچھے کہ جب دوسروں کی انتہا ان کے ابتدا میں مندرج ہوئی تو پھر ان کی انتہا کیا ہوگی ۔ نیز جب دوسروں کی نہایت وصول بحق ہے تو پھر ان کوحق سے آگے کہاں تک سیر میسر ہوگی۔
حالانکہ لَيْسَ وَرَاءَ الْعَبَّادَانِ قَرْيَۃٌ(جزيرة عبادان کے آگے اور کوئی گاؤں نہیں ہے )مثل مشہور ہے تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ اس طریقہ علیہ کی نہایت اگر میسر ہو جائے وصل عریانی (ذات حق کاایسا مشاہدہ جس میں کسی اعتبار زائد کا نشان نہ ہو ) ہے جس کے حاصل ہونے کی علامت مطلوب کے حاصل ہونے سے ناامیدی کا حاصل ہوتا ہے۔ پس اس سےسمجھ لے کیونکہ ہمارے کلام وہ اشارہ ہیں جن کوخواص بلکہ اخص میں سے بہت تھوڑے سمجھتے ہیں اس اعلی دولت کے حاصل ہونے کی علامت اس واسطے بیان کی ہے کہ اس گروہ میں سے بعض نےوصل عریانی کا دم مارا ہے اور بعض مطلوب کے حاصل ہونے سے ناامیدی کے قائل ہوئے ہیں لیکن اگر دونوں دولتوں کا جمع ہونا ان کے پیش کیا جائے تو نزدیک ہے ان کوجمع ہونے کے ضد ین خیال کریں اورمحالات (ناممکن)کی قسم سے جانیں ۔ وہ جماعت جو وصل کا دعوی کرتی ہےیاس کوحرمان جانتی ہے اور وہ گروہ جو یاس کے مدعی ہیں وصل کو عین فصل(جدائی) خیال کرتے ہیں یہ سب کچھ اس بلند مرتبہ تک نہ ہونے کی علامت ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اس عالی مقام کا ایک پر تو ان کے باطن پر چمکا ہے جس کو بعض نے وصل خیال کیا ہے اور بعض نے یاس۔ اور یہ تفاوت ہر ایک گروہ کی استعداد سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک گروہ کی استعداد کے مناسب وصل ہے اور دوسرے گروہ کی استعداد کے مناسب یاس۔
اس حقیر کے نزدیک وصل کی استعداد سےیاس کی استعداد بہت اچھی ہے اگرچہ وصل ویاس ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں ۔ اس جواب سے دوسرے اعتراض کا جواب بھی روشن ہو گیا کیونکہ وصل مطلق اور ہے اور وصل عریاں اور ۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے اوروصل عربانی سے ہماری مراد یہ ہے کہ حجاب سب کے سب اٹھ جائیں اور تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں اور چونکہ ہرقسم کی تجلیات (غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا) اور مختلف قسم کے ظہورات بہت بڑے اورقوی حجاب ہیں اس لئے ان سب تجلیات وظہورات سے گزر جانا اور آگے بڑھنا ضروری ہے۔ خواہ یہ تجلی وظہور امکانی آئینوں میں ہو خواہ و جوبی مظہروں میں کیونکہ اصل حجابوں کے حاصل ہونے میں دونوں برابر ہیں اور اگر کچھ فرق ہے تو شرف اور رتبہ میں ہے اور وہ طالب کی نظر سے خارج ہیں۔
اگر پوچھیں کہ اس بیان سے لازم آتا ہے کہ تجلیات کی نہایت ہے۔ حالانکہ مشائخ طریقت نے تصریح کی ہے کہ تجلیات کی نہایت نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ تجلیات کا بے نہایت ہونا اس لحاظ سے ہے کہ اسماء و صفات میں سیرمفصل طور پر واقع ہو۔ اس تقدیر پرحضرت ذات تک پہنچنا میسر نہیں ہے اوروصل عریانی حاصل نہیں بلکہ حضرت ذات تک پہنچنا اسماء و صفات کو مجمل طور پر طے کرنے سے وابستہ ہے۔ پس اس وجہ سے تجلیات کی نہایت ہوگی اور اگر کہا جائے کہ تجلیات ذاتی کو بھی بے نہایت کیا ہے چنانچہ مولوی جامی قدس سرہ نے شرع معمات میں اس کی تصریح کی ہے۔ پس تجلیات کی نہایت کہنا کسی وجہ سے درست ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ تجلیات ذاتیہ بھی شیون و اعتبارات کے ملاحظہ کے بغیر نہیں ہیں کیونکہ اس ملاحظہ کے بغیرتجلی کاہوناممکن نہیں اور جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ ایک ایسا امر ہے جو تجليات کے ماوراء ہے۔ خواہ وہ تجلیات صفاتی ہوں خواہ ذاتی کیونکہ اس مقام میں تجلی کا اطلاق جائز نہیں۔ اس لئےتجلی پرتجلی کا ہونا مراد ہے شے کے ظہور سے جو دوسرے یا تیسرے یا چوتھے مرتبہ میں ہو۔ جہاں تک کہ اللہ تعالیٰ چاہے اور یہاں سب مراتب ساقط ہو گئے ہیں اور تمام مسافت طے ہو چکی ہے۔
اور اگر یہ پوچھیں کہ ان تجلیات کو ذاتی کس اعتبار سے کہا جاتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ تجليات اگر معانی زائده کے ملاحظہ سے ہیں تو تجلیات صفات ہیں اور اگر غیر زائده معانی کے ملاحظہ سے ہیں تو تجليات ذات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وحدت کے ظہور کوجوتعین اول ہے اور ذات پر زائد نہیں ہے۔ بزرگوں نےتجلی ذات کہا ہے اور ہمارا مطلب حضرت ذات تعالیٰ و تقدس سے جہاں معانی کے ملاحظہ کو ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ خواہ وہ معانی زائد ہوں یاغیرزائد کیونکہ معانی سب کے سب مجمل کے طور پر طے ہو کر حضرت ذات تعالیٰ تک وصول میسر ہواہے۔
اور جاننا چاہیئے کہ وصل اس مقام میں مطلب کی طرح بیچون وبیچگون ہے اور وہ اتصال جس کوعقل سمجھ سکے وہ بحث سے خارج ہے اور اس جناب پا ک کے لائق نہیں ہے ۔ کیونکہ چون( مثل) کو بیچون ( بےمثل) کی طرف کوئی راہ نہیں ہے لَا يَحْمِلُ عَطَايَا الْمَلِکِ إِلَّا مَطَايَاهُ بادشاہ کے عطیوں کو اسی کے اونٹ اٹھا سکتے ہیں
اتصالے بے تکیف بے قیاس ہست رب الناس را با جان ناس
ترجمہ: جان انساں سے خدا کا اس طرح ہے اتصال جس کی کیفیت کا پانا اور سمجھنا ہے محال
اس طریقہ علیہ کےمشائخ میں سے کسی نے اپنے نہایت کی خبرنہیں دی ہے۔ سب نے اپنے طریق کے ابتدا کی نسبت کہا ہے کہ نہایت اسی میں مندرج ہے۔ جب ان کی ابتداء میں دوسروں کی انتہا ءملی ہوئی ہو تو ان کی نہایت بھی اسی بدایت کے مناسب ہونی چاہیئے اور وہ وہی ہے جس کے ظاہر کرنے سے اس فقیر نے امتیاز حاصل کی ہے۔
اگر پادشہ بردر پیر زن بیاید تو اے خواجہ سبلت مکن
ترجمہ: اگر بڑھیا کے در پر آئے سلطان تو اے خواجہ نہ ہو ہرگز پریشان
اَلْحَمْدُلِلہِ سُبْحَانَہٗ وَالْمِنَّةُ عَلىٰ ذٰلِكَ اس بات پر اللہ کی حمد اور احسان ہے۔
اے برادر! اس طریق سے اور دوسرے طریقوں سے اس نہایت کے واصل بہت ہی تھوڑے ہیں ۔ اگر ان کے افراد کی تعداد ظاہر کریں تو نزدیکی ہے کہ نزدیک لوگ دوری اختیار کریں اور بعیدوں کے انکار سے تو کچھ تعجب بھی نہیں ۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺکے صدقے سے نہایت النہایت تک کمال وصول کے سبب سے ہے۔
اور اس طریقہ علیہ کی خصوصیتوں میں سے ایک سفر در وطن ہے جو سیرانفسی سے مراد ہے اگر چہ سیرانفسی مشائخ کے تمام طریقوں سے ثابت ہے لیکن وہ سیر سیر آفاقی کے قطع کرنے کے بعد نہایت میں میسر ہوتا ہے اور اس طریقہ میں ابتدا اس سیر سے ہے اورسیر آفاقی اس کے ضمن میں قطع ہوجاتا ہے۔ پس اس سیر کا منشاءجوابتدا میں حاصل ہوتا ہے ابتدا میں انتہا کا مندرج ہونا ہے اور دوسرا خاصہ خلوت در انجمن ہے جو سفر در وطن پرمتفرع دمترتب ہے جس سفر دروطن میسر ہو جائے ۔خلوت در انجمن اس کےضمن میں میسر ہو جائے گا پس انجمن کا تفرقه سفر دروطن کے خلوت خانہ میں تفرقہ نہیں ڈالتا اور آفاق کا تفرقہ (انتشار و پراگندگی)ا نفس کے حجرہ میں راہ نہیں پاتا یہ خلوت در انجمن اگر چہ دوسرے طریقوں کے منتہیوں کو حاصل ہے لیکن اس طریقت میں چونکہ ابتدا ہی میں میسر ہوجاتی ہے اس لئے اس طریق کے خاصوں میں سے ہے۔
اور جاننا چاہے کہ خلوت در انجمن اس تقدیر پر ہے کہ وطن کے خلوت خانہ کے دروازوں کو بند کیا ہو اور تمام سوراخوں کومسدود کر دیا ہو۔ یعنی انجمن تفرقہ میں کسی کی طرف متوجہ نہ ہو اور متکلم ومخاطب نہ ہو نہ یہ کہ آنکھ کو ڈھانپے اور حواس کو تکلف کے ساتھ بیکار کرے کیونکہ یہ بات اس طریق کے منافی ہے۔
اے برادر! یہ سب حیلہ وتكلف ابتدا اور وسط ہی میں ہے اور انتہاء میں اس قسم کا حیلہ و تکلف در کار نہیں ہے۔ عین تفرقہ میں جمعیت سے ہے اور نفس غفلت میں حاضر ہے اس سے کوئی یہ گمان نہ کرے کہ منتہی میں تفرقہ و عدم تفرقہ مطلق طور پر مساوی ہیں ۔ ایسا نہیں ہے بلکہ تفرقہ وعدم تفرقہ اس کے باطن کے نفس جمعیت کے برابر ہیں ۔ اس کے علاوہ اگر ظاہر کو باطن کے ساتھ جمع کرنے اور ظاہر سے بھی تفرقہ کو دفع کر دے تو پھر بہت ہی بہتر اور مناسب ہوگا۔
الله تعالیٰ اپنے نبی ﷺکو امر کرتا ہوا فرماتا ہے۔ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا اپنے رب کا نام یاد کر اور سب سے توڑ کر اس سے جوڑ۔
جاننا چاہیئے کہ بعض اوقات ظاہر کے تفرقہ سے چارہ نہیں ہوتا تا کہ خلق کے حقوق ادا ہوں۔ پس تفرقہ ظاہر بھی بعض اوقات اچھا ہے لیکن تفرقہ (انتشار و پراگندگی) باطن کسی وقت میں جائز نہیں کیونکہ وہ خالص حق تعالیٰ کے لئے ہے۔
پس مسلمان بندوں سے تین حصے خدائے تعالیٰ کے لئے مقرر ہوئے ۔ باطن سب کا سب اور ظاہر سے ایک نصف اور ظاہر کا دوسرا نصف خلق کے حقوق ادا کرنے کے لئے باقی رہا۔ لیکن ان حقوق کے ادا کرنے میں چونکہ حق تعالیٰ کے امر کی بجا آوری ہے اس لئے وہ دوسرا نصف بھی حق تعالیٰ کی طرف راجع ہے . وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ سب امراسی کی طرف لوٹتا ہے پس اسی کی عبادت کر اور اس پر توکل کر اور تیرا رب اس سے جوتم کرتے ہو غافل نہیں۔
اور اس طریق میں جذ بہ سلوک پر مقدم ہے اور سیر کی ابتدا عالم امر سے ہے۔ برخلاف اکثر دوسرے طریقوں کے کہ ان کے سیر کی ابتدا عالم خلق سے ہے اور اس طریق میں سلوک کی منزلیں جذبہ کے مراتب طے کرنے کے ضمن میں قطع ہوجاتی ہیں اور عالم خلق کا سیر عالم امر کے سیر میں میسر ہوجاتا ہے۔ پس اگر اس اعتبار سے بھی کہیں کہ اس طریقت میں انتہا ابتدا میں درج ہے تو گنجائش رکھتا ہے۔
پس معلوم ہوا کہ ابتدا کی سیر اس طریق میں انتہا کے سیر میں مندرج ہے نہ یہ کہ انتہا سے ابتداء کی سیر کے لیے اتر آتے ہیں اور نہایت کی سیر تمام کرنے کے بعدبدایت کی سیر کرتے ہیں اس مضمون سے اس شخص کا خیال باطل ہو گیا جو یہ کہتا ہے کہ اس طریق کی انتہاء دوسرے مشائخ کے طریقوں کی ابتدا ہے۔
اور اگر کوئی کہے کہ اس طریقہ کے بعض مشائخ کی عبارتوں میں واقع ہے کہ اسماء و صفات میں ان کا سیر ان کی نسبت کے تمام ہونے کے بعد واقع ہوتا ہے ۔ پس درست ہوا کہ ان کی نہایت دوسروں کی بدایت ہے۔ کیونکہ اسماء و صفات کی سیرتجلیات ذاتیہ کےسیرکی نسبت ابتدا عین ہے تو ہم جواب میں کہتے ہیں کہ ان کی سیر اسماء و صفات میں تجلیات ذاتیہ کے سیر کے بعد نہیں ہے بلکہ اس سیر کے ضمن میں وہ سیر بھی واقع ہو جاتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جب سیراسمائی و صفاتی کسی عارضہ کے پیش آنے کے باعث ظہور کرتا ہے اور تجلیات ذاتی کا سیر پوشیدہ ہو جاتا ہے تو خیال میں آتا ہے کہ اس سیر کو تمام کر کے عارضہ کے باعث تجلیات اسمائی و صفاتی میں داخل ہوگیا ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ ہاں ولایت کے مدارج میں سیر پورا کرنے کے بعد خلق کو حق تعالیٰ کی طرف دعوت کرنے کیلئے عالم کی طرف جور جوع واقع ہوتا ہے اگر اس رجوع کو ان کی نہایت سمجھ کر اپنی بد ایت تصور کیا ہو تو بعید نہیں لیکن کس طرح کہے جب کہ اس کے مشائخ نہایت میں ہی رجوع رکھتے ہیں اور نیز نہایت و بدایت سے مراد ولایت کا نہایت وبدایت ہے اور یہ رجوع کا سیر ولایت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ مرتبہ دعوت تبلیغ کا ایک حصہ ہے اوریہ طریق سب طریقوں سے اقرب ہے اور بے شک موصل(مقصود تک پہنچانے والا) ہے۔
حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہمارا طریقہ سب طریقوں سے اقرب ہے اور فرمایا حق تعالیٰ سے میں نے ایساطریق طلب کیا ہے جو بے شک موصل ہے اور آپ کی یہ التجاقبول ہوگئی ہوئی ہے۔
چنانچہ رشحات میں حضرت خواجہ احرار قدس سرہ سے منقول ہے کہ کیونکر اقرب اور موصل نہ ہو جب کہ انتہا اس کے ابتدا میں مندرج ہے ۔ وہ بہت ہی بدقسمت ہے جو اس طریق میں داخل ہو اور استقامت اختیار نہ کرے اور بے نصیب چلا جائے
خورشید نہ مجرم ار کسے بینا نیست ترجمہ: اگر کوئی ہے خوداندها گناه خورشید کا کیا ہے ۔
ہاں اگر کوئی طالب کسی ناقص(پیر) کے ہاتھ پڑ جائے تو طریق کا کیا گناہ ہے اور طالب کا کیاقصور ۔ کیونکہ حقیقت میں اس طریق کا رہبر موصل ہےنہ نفس طریق۔ اور اس طریقت میں ابتدا میں حلاوت و وجدان ہے اور انتہا میں بے مزگی اورفقدان ۔ جو نا امیدی کے لوازم سے ہے برخلاف دوسرے طریقوں کے کہ ابتدا میں بے مزگی اور فقدان رکھتے ہیں اور انتہاء میں حلاوت و وجدان اور ایسا ہی اس طریق کے ابتداء میں قرب و شہود(مشاہدہ) ہے اور انتہاء میں بعد وحرمان۔ برخلاف دوسرے مشائخ کرام کے طریقوں کے۔
پس اس مضمون سے طریقوں کے فرق کو قیاس کرنا چاہیئے اور اس بلند طریق کی بزرگی کو معلوم کرنا چاہیئے کیونکہ قرب و شہود اور حلاوت و وجدان دوری اورمہجوری سے خبر دیتے ہیں اور بعد حرمان اور بے حلاوتی اورفقد ان نہایت قرب سے خبر دیتےہیں عقل مند اس بات کو سمجھتے ہیں۔
اس بھید کی شرح میں اس قدر بیان کیا جاتا ہے کہ کسی شخص کو اپنے نفس سے زیادہ تر اپنےنزدیک کوئی چیز نہیں ہے اور قرب وشہوداور حلاوت و وجدان اس کیلئے اپنے نفس کے حق میں مفقود ہیں اور اپنے غیر کی نسبت جس سے بیگانگی رکھتا ہے۔ یہ سب نسبتیں موجود ہیں۔ اَلْعَاقِلُ تَكْفِيْهِ الْإِشَارَةُ عقلمند کے لئے ایک ہی اشارہ کافی ہے۔ اور اس طریقہ علیہ کے بزرگواروں نے احوال و مواجید کو احکام شرعی کے تابع کیا ہے اور ذواق و معارف کو علوم دینیہ کا خادم بنایا ہے۔
احکام شرعیہ کے قیمتی موتیوں کو بچوں کی طرح وجدو حال کے جوز و مویز(اخروٹ و منقی) کے عوض ہاتھ سے نہیں دیتے ۔ اور صوفیاء کی بے ہودہ باتوں پر مغرور ومفتون نہیں ہوتے اور ان کے احوال کو جو شرعی ممنوعات اور سنت سنیہ کے خلاف اختیار کرنے سے حاصل ہوں۔ قبول نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سماع ورقص کو پسند نہیں کرتے اور ذکر جہر کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کا حال دائمی ہے اور اس کا وقت استمراری(دائمی) وہ تجلی ذاتی دوسروں کو برق خاطف کی طرح ہے۔ ان کیلئے دائمی ہے اور وہ حضور جس کے پیچھے غیبت ہو ان بزرگواروں کے نزدیک بے اعتبار ہے بلکہ ان کا معاملہ حضور وتجلی سے بدتر ہے جیسا کہ اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
حضرت خواجہ احرار قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ اس طریقہ علیہ کے خواجگان قدس سرہم ہر ادنی و اعلی کے ساتھ نسبت نہیں رکھتے ان کا کام اس سے بلند تر ہے اور اس طریق میں پیری و مریدی طریقہ کےتعلم تعلیم پر موقوف ہے نہ کلاہ و شجرہ پر جو مشائخ کے اکثر طریقوں میں موسوم ہے حتی کہ ان میں سے متاخرین نے پیری مریدی کو کلاه وشجرہ پرمنحصر کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیر کا تعدد تجویز نہیں کرتے ۔ اور طریق سکھانے والے کو مرشد کہتے ہیں پیر نہیں جانتے اور آداب پیری کو اس کےحق میں مد نظر نہیں رکھتے۔ یہ ان کی بڑی جہالت اور نادانی ہے نہیں جانتے کہ ان کے مشائخ نے پیرتعلیم اور پیرصحبت کو بھی پیر کہا ہے اور پیر کا تعددتجویز فرمایا ہے۔ بلکہ پیر اول کی عین حیات میں اگر طالب اپنی ہدایت کی اور جگہ دیکھے تو اس کو جائز ہے کہ پہلے پیر کے انکار کے بغیر دوسرے پیر کو اختیار کرے ۔
حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے اس بات کی تجویز کیلئے علمائےبخار اسے اس بات کا فتوی درست فرمایا تھا ۔ ہاں اگر ایک پیر سے خرقہ ارادت لیا ہو تو پھر دوسرے سے خرقہ ارادت نہ لے اور اگرلے تبرک کا خرقہ لے ۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسرا پیر ہرگز نہ پکڑے بلکہ روا ہے کہ خرقہ ارادت ایک سےلے اور طریقت کی تعلیم دوسرے سے اورصحبت تیسرے کے ساتھ رکھے اور اگر یہ تینوں دولتیں ایک ہی سے میسر ہو جائیں، توزہے قسمت و نعمت اور جائز ہے کہ مشائخ متعددہ سے تعلیم وصحبت کا استفاده کرے۔
جاننا چا ہیئے کہ پیر وہ ہے جو مرید کوحق سبحانہ کی طرف رہنمائی کرے۔ یہ بات تعلیم طریقت میں زیادہ ملحوظ اور واضح ہے کیونکہ پیر تعلیم شریعت کا استاد بھی ہے اور طریقت کا رہنما بھی ہے۔ برخلاف پیر خرقہ کے پس پیر تعلیم کے آداب کی زیادہ تر رعایت کرنی چاہیئے اور پیر بننے اور کہلانے کا زیادہ مستحق یہی ہے اور اس طریق میں ریاضتیں اور مجاہد ے نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کے ساتھ احکام شرعی کے بجالانے اور سنت سنیہ علی صاحبها الصلوة والسلام کی متابعت کولازم پکڑنے سے ہیں ۔ کیونکہ پیغمبروں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے سے نفس امارہ کی خواہشوں کو دور کرنا مقصود ہے جو اپنے مولا نے جل شانہ کی دشمنی میں قائم ہے۔ پس نفسانی خواہشوں کا دور ہونا احکام شرعی کے بجالانے پر وابستہ ہے۔ جس قدر شریعت میں راسخ اورثا بت قدم ہوگا ۔ اسی قدر ہوائے نفس سے دور تر ہوگا کیونکہ نفس پر شریعت کے اوامر و نواہی کے بجالانے سے زیادہ دشوار کوئی چیز نہیں ہے اور صاحب شریعت کی پیروی کے سوا کسی چیز میں اس کی خرابی متصورنہیں ہے وہ ریاضتیں اور مجاہد ے جوسنت کی تقلید کے سوا اختیار کریں و معتبر نہیں ہیں کیونکہ جوگی اور ہندو بر همن اور یونان کے فلسفی اس امر میں شریک ہیں اور وہ ریاضتیں ان کے میں گمراہی کے سوا کچھ ز یا دہ نہیں کرتیں اور سوائے خسارہ کے کچھ فائدہ نہیں دیتیں اور اس طریقہ میں طالب کا سلوک شیخ مقتدا کی تقلید پر منحصر ہے ۔ اس کے تصرف کے بغیر کچھ کام نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ابتدا میں نہایت کا درج ہونا اس کی شریف توجہ کا اثر ہے اور بیچون وبیچگون(بے مثل و بے کیف) کا حاصل ہونا اس کےکمال تصرف کا نتیجہ ہے۔ بیخودی کی وہ کیفیت جس کیلئے انہوں نے مختص راستہ اختیار کیا ہے اس کا حاصل ہونا مبتدی کے اختیار میں نہیں ہے اور وہ توجہ جوشش جہت سے معرا ہے اس کا وجود طالب کے حوصلہ باہر ہے۔
نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند کہ برند از رہ پنہان بحرم قافلہ را
ترجمہ: نقشبندی عجیب ہی قافلہ سالار ہیں جو قافلے کو خفیہ راستے سے حرم پہنچا دیتے ہیں ۔
یہ بزرگوار جس طرح نسبت کے عطا کرنے پر کامل طاقت رکھتے ہیں اور تھوڑے وقت میں طالب صادق کوحضور و آگاہی بخش دیتے ہیں ۔ اس طرح نسبت کے سلب کرنے میں بھی پوری طاقت رکھتے ہیں اور ایک ہی بے التفاتی سے صاحب نسبت کو مفلس کردیتے ہیں۔ ہاں سچ ہے جو دیتے ہیں وہ لے بھی لیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے غضب اور اپنے اولیائے کرام کے غضب سے بچائے۔
اور اس طریقہ میں زیادہ تر افادہ اور استفاده خاموشی میں ہے۔ ان بزرگواروں نے فرمایا ہے کہ جس کو ہماری خاموشی سے نفع حاصل نہ ہوا۔ وہ ہمارے کلام سے کیا نفع حاصل کرے گا اور اس خاموشی کو انہوں نے تکلف کے ساتھ اختیار نہیں کیا ہے۔ بلکہ ان کے طریق کے لوازم اور ضروریات سے ہے۔ کیونکہ ان بزرگواروں کی توجہ ابتدا ہی سے احدیت مجردہ (غیر مادی) کی طرف ہے اور اسم وصفت سے سوائے ذات کے کچھ نہیں چاہتے اور معلوم ہے کہ اس توجہ کے مناسب اور اس مقام کے موافق خاموشی اور گونگا ہے۔ مَنْ عَرَفَ اللَّهَ كَلَّ لِسَانُهُ (جس نے اللہ کو پہچانا اس کی زبان گنگ ہوگئی اس بات کی مصداق ہے۔ اور اب ہم اس اس گفتگو کواللہ کی حمد اور اس کے حبیب کی صلوۃ پر ختم کرتے ہیں ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاٰلِهِ الطَّاهِرِيْنَ اَجْمَعِیْنَ الله رب العالمین کی حمد اور حضرت سید المرسلین اور آپ کی آل پاک صلوۃ و سلام ہو۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ113ناشر ادارہ مجددیہ کراچی