ان سوالوں کے جواب میں جو اس طرح لکھے ہوئے تھے جن سے طعن و تعصب کی بو آتی تھی اور یہ مکتوب ان ضروری فوائد پرمشتمل ہیں جو اس طائفہ علیہ کے ایمان میں فائدہ مند ہیں محمد صادق کشمیری کی طرف لکھا ہے۔
حق تعالی اس طائفہ علیہ کے ایمان کی سعادت نصیب کرے۔ خط مرسلہ جو چند سوالوں مشتمل تھا پہنچا اگر چہ اس قسم کے سوال جن میں طعن وتعصب کی ملاوٹ ہو۔ جواب کے لائق نہیں ہیں لیکن فقیر اس سے قطع نظر کر کے جواب دینے میں پیش دستی کرتا ہے۔ اگر ایک کونفع نه دیں تو شاید کسی اور ہی کوفائده بخشیں۔
پہلا سوال یہ تھا کہ کیا باعث ہے کہ اولیائے متقدمین سے کرامات اور خرق عادات بہت ظاہر ہوتے تھے اور اس زمانہ کے بزرگوں سے کم ظاہر ہوتے ہیں اگر اس سوال سے مقصود خرق عادات کے کم ہونے کے باعث اس وقت کے بزرگوں کی نفی ہے جیسا کہ عبارت کے مضمون سے صاف ظاہر ہے تو اس قسم کے شیطانی ڈھکوسلوں سے اللہ تعالی کی پناہ۔
خرق عادات کا ظاہر ہونا ولایت کے ارکان میں سےنہیں اور نہ ہی اس کے شرائط میں سے ہے۔ برخلاف معجزہ نبی ﷺکے کہ مقام نبوت کی شرائط میں سے ہے۔ لیکن خوارق کا ظہور جو اولیاء اللہ سے شائع وظاہر ہے، بہت کم ہے جو خلاف واقع ہو۔ لیکن خوارق کا کثرت سے ظاہر ہونا افضل ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ وہاں قرب الہی کے درجات کے اعتبار سے فضیلت ہے ممکن ہے کہ ولی اقرب سے بہت کم خوارق ظاہر ہوں اور ولی ابعد سے بہت زیادہ۔
وہ خوارق جو اس امت کے بعض اولیاء سے ظاہر ہوئے ہیں ۔ اصحاب کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے ان کا سوواں حصہ بھی ظہور میں نہیں آیا ۔ حالانکہ اولیاء میں سے افضل ولی ایک ادنی اصحابی کے در جے کونہیں پہنچتا۔
خوارق کے ظہور پر نظر رکھنا کوتاه نظری ہے اور تقلید استعداد کے کم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ نبوت و ولایت کے فیض قبول کرنے کے لئے لائق وہ لوگ ہیں جن میں تقلیدی استعداد ان کی قوت نظری پر غالب ہو۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تقلیدی استعداد کے قوی ہونے کے باعث نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی تصدیق میں ہرگز دلیل کےمحتاج نہ ہوئے اور ابوجہل لعین اسی استعداد کےکم ہونے کے باعث اس قدر کثرت سے آیات ظاہری اور معجزات غالبہ ظاہر ہونے کے باوجود نبوت کی دولت کے اقرار سے مشرف نہ ہوا۔
حضرت حق سبحانہ تعالی ان بدنصیبوں کے حق میں فرماتا ہے۔ وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا حَتَّى إِذَا جَاءُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَاور اگر دیکھیں سب نشانیاں نہ ایمان لائیں ساتھ ان کے ، یہاں تک کہ جب آویں تیرے پاس جھگڑتے تجھ سے کہتے ہیں وہ لوگ جو کافر ہوئے نہیں یہ مگر کہانیاں پہلوں کی۔
باوجود اس کے ہم کہتے ہیں کہ اکثر متقدمین میں سے ساری عمر میں پانچ یا چھ خوارق سے زیادہ نقل نہیں کئے ۔ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ جو سید الطائفہ ہیں معلوم نہیں کہ ان سے دس خوارق بھی سرزد ہوئے ہوں اور حضرت حق تعالی اپنے کلیم علیہ الصلوة والسلام کے حال سے ایسی خبر دیتا ہے۔ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ہم نے موسی علیہ السلام کو نو روشن معجزے دیئے اور یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ اس وقت کے مشائخ سے اس قسم کےخوارق ظہور میں نہیں آتے بلکہ اولیاء اللہ سے خواہ متقدم ہوں خواہ متاخر ہر گھڑی خوارق ظہور میں آتے رہتے ہیں ۔مدعی ان کو جانے یا نہ جانے۔ع
خورشید نہ مجرم ار کسے بینا نیست ترجمہ: اگر کوئی ہے خوداندها گناه خورشید کا کیا ہے ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ صادق طالبوں کے کشف شہود(مشاہدہ) میں القائے شیطانی کو دخل ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کشف شیطانی کی کیفیت کو واضح کریں کہ کس طرح ہے اور اگر دخل نہیں تو کیا وجہ ہے کہ بعض امور الہامی میں خلل پڑ جاتا ہے۔ اس کا جواب اس طرح پر ہے۔ والله اعلم بالصواب کہ کوئی شخض القاے شیطانی سے محفوظ نہیں ہے جبکہ انبیاء میں متصور بلکہ محقق ہے تو اولیاء میں بطریق اولی ہوگا۔ تو پھر طالب صادق کسی گنتی میں ہے۔
حاصل کلام یہ کہ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کو اس القاء(اللہ کی طرف سے علم غیب) پر آگاہ کر دیتے ہیں اور باطل کو حق سے جدا کر دکھاتے ہیں فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ پس جو کچھ شیطان القاء کرتا ہے اللہ تعالی اس کو مٹا دیتا ہے پھر اپنی آیات کو محکم و اٹل کر دیتاہے۔) اسی مضمون پردلالت کرتی ہے اور اولیاء میں یہ بات لازم نہیں کیونکہ وہ نبی کے تابع ہے جو کچھ نبی کے مخالف پائے گا اس کو رد کر دے گا اور باطل جانے گا لیکن جس صورت میں کہ نبی کی شریعت اس سے خاموش ہے اور اس کے اثبات اورنفی پرحکم نہیں کرتی ۔ قطعی طور سے حق و باطل کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہے کیونکہ الہا م ظنی ہے لیکن اس امتیاز کے نہ ہونے میں کوئی قصور ولایت میں نہیں پایا جاتا ۔ کیونکہ احکام شریعت کا بجا لانا اور نبی علیہ السلام کی تابعداری دونوں جہان کی نجات کومتکفل ہے اور وہ امور جن سے شریعت نے سکوت کیا ہے و ہ شر یعت پر زائد ہیں اور ہم ان زائدہ امور پر مکلف نہیں ہیں۔
اور جاننا چا ہئیے کہ کشف کا غلط ہو جانا القائے شیطانی پر ہی منحصر نہیں ہے۔ یہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قوت متخیلہ میں احکام غیر صادقہ ایک صورت پیدا کر لیتے ہیں جس میں شیطان کا کچھ دخل نہیں ہوتا۔
اسی قسم سے ہے۔ یہ بات کہ بعض خوابوں میں حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھتے ہیں اور بعض ایسے احکام اخذ کرتے ہیں، جن کا حقیقت میں خلاف ثابت ہے۔ اس صورت میں القائے شیطانی متصورنہیں کیونکہ علماء کے نزدیک مختار ومقرر ہے کہ شیطان حضرت خیر البشر علیہ وآلہ الصلوة والسلام کی کسی صورت میں متمثل نہیں ہوسکتا۔ پس اس صورت میں صرف قوت متخیلہ کا تصرف ہے جس نے غیر واقع کو واقع ظاہر کیا ہے۔
تیسرا سوال یہ تھا کہ جب کرامات کا تصرف اور استدراج کی تاثیر نمائش اور ظہور میں برابر و یکساں ہیں تو مبتدی کس طرح پہچان سکتا ہے کہ یہ ولی صاحب کرامت ہے۔ یا یہ مدعی صاحب استدراج ہے۔ اس کا جواب یہ ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ کہ طالب مبتدی کے لئے اس تفرقہ (انتشار و پراگندگی) میں ایک دلیل روشن ہے اور وہ اس کا وجدان صحیح ہے اگر اپنے دل کو اس کی صحبت میں حق تعالی کے ساتھ جمع پائے گا تو اس کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ ولی صاحب کرامت ہے اور اگر اس کے برخلاف پائے گا تو وہ سمجھ لے گا کہ یہ مدعی صاحب استدراج ہے اور اگر اس بات میں کچھ پوشیدگی ہے تو عوام کالانعام کے لئے ہے نہ طالبوں کے لئے اور عوام کی پوشیدگی خواص کے نزدیک کچھ اعتبارنہیں رکھتی۔ کیونکہ اس کا منشادلی مرض اور آنکھ کا پردہ ہے بہت سی ایسی چیزیں عوام پر مخفی ہیں جن کا جاننا اس تفرقہ (انتشار و پراگندگی) کے جاننے سے ضروری ہے اور ہم اس مکتوب کوبعض ایسے معارف کے بیان کرنے سے ختم کرتے ہیں تو جو آپ کو اس قسم کے شک و شبہ کے دور کرنے میں نفع دیں۔ جاننا چاہیئے کہ تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللَّهِ تَعَالَى کے معنی جس سے ولایت اخذ کی گئی ہے۔ یہ ہیں کہ اولیاء اللہ کووہ صفات حاصل ہو جاتے ہیں جو واجب تعالی کی صفات کے مناسب ہیں لیکن یہ مناسبت اور مشارکت اسم اور عام صفات میں ہوتی ہے نہ کہ خاص معانی میں کہ وہ محال ہے اور اس میں حقائق کا انقلاب وتغير لازم آتا ہے۔
خواجہ محمد پارسا قدس سرہ تحقیقات میں جس مقام پر تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللَّهِ تَعَالَى کے معنی بیان کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ اور صفت مَلِك (بادشاہ)ہے اور مَلِك کے معنی سب پر تصرف کے ہیں جب سالک طریقت اپنے نفس پر قابو پالیتا ہے اور اس کو مغلوب کر لیتا ہے اور اس کا تصرف دلوں میں جاری ہو جاتا ہے تو اس صفت سے موصوف ہو جاتا ہے۔
اور صفت بَصِيرٌ ہے اور بَصِيرٌ کے معنی دیکھنے والے کے ہیں جب سالک طریقت کی بینائی کی آنکھ بینا ہو جاتی ہے اور نور فراست سے اپنے تمام عیب دیکھ لیتا ہے اور دوسروں کے حال کا کمال معلوم کر لیتا ہے یعنی سب کو اپنے آپ سے بہتر دیکھتا ہے اور نیز حق تعالی کی بصیرت اس کی نظر کے منظور ہو جاتی ہے تا کہ جو کچھ وہ کرتا ہے حق تعالی کی رضامندی کے موافق کرتا ہے تو اس صفت سے موصوف ہو جاتا ہے۔
اور صفت سَمِيعٌ ہے اورسَمِيعٌ کے معنی سننے والا جب سالک طریقت حق تعالی کی بات کو خواہ وہ کسی سے سننے بلاتكلف قبول کر لیتا ہے اور غیبی اسرار اور لا ریبی حقائق کو جان کے کانوں سے سن لیتا ہے تو اس صفت سے موصوف ہوجاتا ہے۔
اور صفت مُحْيِي ہے اور مُحْيِي کے معنی زندہ کرنے والا ہے جب سالک طریقت متروکہ سنت کے زندہ کرنے میں قیام کرتا ہے تو اس صفت سے موصوف ہو جاتا ہے۔
اور صفت مُمِيْتٌ ہے اور مُمِيْتٌ کے معنی مارنے والا ہے جب سالک بدعتوں کو جو سنتوں کی بجائے ظاہر ہوئی ہوتی ہیں ۔ دور کرتا ہے تو اس صفت سے موصوف ہوتا ہے۔ علی ہذا القيا س اور عوام نے تخلقوا کے معانی اور طرح سمجھے ہیں ۔ اس لئے گمراہی کے جنگل میں جا پڑے ہیں اور انہوں نے خیال کیا ہے کہ ولی کے لئے جم کا زندہ کرنا درکار ہے اور اشیائے غیبی کا اس پر منکشف ہونا ضروری ہے اور اس قسم کے کئی بے ہودہ اور فاسدظن ان کے دلوں میں جمے ہوئے ہیں۔ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ بعض ظن گناہ ہیں اور نیز خوارق صرف زندہ کرنے اور مارنے پر ہی منحصر نہیں ہیں۔
الہامی علوم اور معارف بڑے بھاری نشان اور بلند خوارق میں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنی معجزات سب معجزوں سے زیادہ قوی اور دیر پا ہیں۔ ذرا آنکھ کھول کر دیکھیں کہ یہ سب علوم و معارف جو بہاری بادل کی طرح برس رہے ہیں، کہاں سے ہیں۔ یہ علوم باوجود اس قدر کثرت سب کے علوم شرعیہ کے موافق ہیں ۔ بال بھر بھی مخالفت کی گنجائش نہیں ہے۔ یہی خصوصیت ان علوم کے صحیح و درست ہونے کی علامت ہے۔
ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ فرمایا کرتے تھے اور لکھا کرتے تھے کہ تمہارے علوم سب صحیح ہیں لیکن کیا فائدہ کہ حضرت خواجہ قدس سرہ کی بات آپ پر حجت نہیں ہے اگر چہ آپ نے اپنے آپ کو پیر پرست ظاہر کیا ہوا ہے اس سے زیادہ کیا لکھا جائے۔
آپ کے یہ سوال پہلے تو گراں معلوم ہوئے لیکن جب بہت سے علوم و معارف کے باعث ہوئے اور یہ سب با تیں اسی مناسبت کے لحاظ سے بیان کی گئی ہیں اس لئے نیک ہیں
ہیچ زشتے نیست کو را خوبئے ہمراہ نیست زنگئے شب رنگ را وندان چو درو گوہر است
ترجمہ گرنہیں زنگی میں کچھ خوبی تو کوئی ڈر نہیں دانت ہی اس کے ہیں کافی مثل گوہرآب دار
عجب معاملہ ہے کہ پہلے مکتوب میں بڑا اخلاص ظاہر کیا ہوا تھا اور اس کا باعث دو متواتر واقعات کا ظہور بیان کیا تھا اور لکھا تھا کہ اس کا اثر بیداری میں بھی معلوم کیا ہے۔ یہاں تک کہ پہلی وضع سے بڑی ندامت حاصل ہوئی اور توبہ و انابت کی طرف رجوع کر کے از سرنو ایمان سے مشرف ہوئے ابھی ایک مہینہ گزرنے نہیں پایا کہ اس وضع میں تغیر معلوم ہوگیا اور پھر پہلی وضع پر بدل گئے اور اس بات کے در پے ہوئے کہ ان دو واقعات کے لئے کوئی ایسی وجہ پیدا ہو جائے جوان کو القائے شیطانی سے ملا دے یا غلط کشف تک پہنچا دے وہ کیا تھا اور یہ کیا ہے۔
بگفتا فلا نے چوبدمے کند نه با من که بانفس خود مے کند
ترجمہ: کہاکسی نے فلاں کر رہا ہے بہت بدی بگاڑ ہوگا اس کا نہ ہوگا میراذری
والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعلى اله الصلوت والتسليمات اور سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت پر چلا اور حضرت مصطفی ﷺ کی تابعداری کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ286ناشر ادارہ مجددیہ کراچی