طلاق سنت اور طلاق بدعت

عورت کو نکاح سے الگ کرنے کو طلاق کہتے ہیں۔ شریعت نے طلاق کے آداب و احکام بھی بتائے ہیں کہ طلاق کس وقت دی جائے اور کتنی دی جائیں؟شریعت کے مطابق طلاق دینے کوطلاق سنت اور خلاف کرنے کو طلاق بدعت کہتے ہیں۔ عام لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ نکاح کے بندھن کو ختم کرنے کے لیے تین طلاق دینا ہی ضروری ہے اور جب تک تین طلاقیں نہیں دی جائیں گی نکاح ختم نہیں ہوگا، اس کی وجہ احکامِ شرعیہ سے ناواقفیت ہے ۔ایک طلاق دے کر بھی نکاح ختم کیا جاسکتاہے ، نیز طلاق ضرورتاً مباح ہے اور جو چیز ضرورتاً مباح ہوتی ہے وہ بقدرِ ضرورت ہی مباح ہوتی ہے اورضرورت ایک طلاق سے پوری ہوجاتی ہے ، فقہ کا قاعدہ ہے: ” مَا ‌أُبِيحَ ‌لِلضَّرُورَةِ يُقَدَّرُ بِقَدْرِهَا “۔ (الأشباہ والنظائر:308-307)جو چیز ضرورت کی بناپر جائز ہوئی ہے اس کو ضرورت کے بقدر کیا جائے گا، اس لیے زائد طلاقیں دینے سے پرہیز کیا جائے ، تاکہ گنا ہ لازم نہ آئے۔

طلاق کا واقع ہونا
واضح رہے کہ از روئے قرآن وحدیث وجمہور صحابہ کرام، تابعین، وتبع تابعین، ائمہ مجتہدین بالخصوص چاروں ائمہ کرام امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل،ان تمام حضرات کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
” الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ “ (البقرہ:229)
طلاق (زیادہ سے زیادہ) دو بار ہونی چاہیے، اس کے بعد ( شوہر کے لیے دو ہی راستے ہیں) یا تو قاعدے کے مطابق ( بیوی کو) روک رکھے (یعنی طلاق سے رجوع کرلے) یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے (یعنی رجوع کے بغیر عدت گزر جانے دے)

طلاق کہہ دینے سے واقع ہو جاتی ہے طلاق میں نیت کا ہونا نہ ہونا ،غصہ میں طلاق دینایا عورت کا حاملہ ہونا  یا مزاق میں طلاق دینا ہر صورت میں طلاق ہو جائیگی۔فتاوی رضویہ میں ہے
طلاق بخوشی دی جائے خواہ بجبر واقع ہوجائے گی۔ نکاح شیشہ ہے اور طلاق سنگ، شیشہ پر پتّھر خوشی سے پھینکے یا جبر سے یا خود ہاتھ سے چھٹ پڑے شیشہ ہرطرح ٹوٹ جائے گا

طلاق کی قسمیں
طلاق دینے کے طریقوں کے اعتبار سے طلاق کی اصلاً دو قسمیں ہیں :
( 1 ) طلاق سنت : – یعنی شریعت میں طلاق دینے میں جن باتوں کی رعایت رکھنے کا حکم دیا ہے ، اُن کی رعایت رکھتے ہوئے طلاق دینا ، اِس کے دو طریقے ہیں :
الف : – طلاقِ احسن ( سب سے اچھی طلاق (
طلاقِ احسن یہ ہے کہ صریح لفظوں میں صرف ایک طلاق ایسے پاکی کے زمانہ میں دی جائے جس میں جماع نہ کیا گیا ہو ، پھر اُسے چھوڑدیا جائے ( مزید طلاق نہ دی جائے ) اور عدت ( تین حیض یا وضع حمل ) گذر جائے ۔ رجوع نہ کرنے پر عورت نکاح سے نکل جاتی ہے طلاق دینے کا یہ طریقہ سب سے بہتر ہے عدت کے اندر رجوع کرسکتا ہے ، اور اگر عدت گزرگئی اور دوبارہ نکاح کرنا چاہے، تو بغیر حلالہ نکاحِ جدید کرسکتا ہے۔ آئندہ دو طلاقوں کا حق باقی رہےگا۔ یہ طریقہ شرمندگی سے زیادہ دور ہے ، اور عورت کو نقصان کم ہے ، اور کراہیت کے نہ ہو نے میں کسی کا اختلاف بھی نہیں ہے ۔
ب : – طلاقِ حسن ( اچھی طلاق)
طلاقِ حسن کا مطلب یہ ہے کہ تین ایسے طہروں میں جن میں بیوی سے جماع نہ کیا ہو ، بالترتیب تین طلاقیں دی جائیں ( یعنی ہر طہرمیں ایک ایک طلاق دی جائے ) پہلی دو طلاق تک رجوع کر سکتا ہے اور پھر قولا یا عملا رجوع نہ کیا جائے تو تین طلاق ملا کر مغلظہ ہو جائے گی اور عورت نکاح سے جدا ہو جائے گی۔
( 2 ) طلاقِ بدعت ( ممنوع طلاق ) پھر اِس کی دو صورتیں ہیں :
الف : – طلاقِ بدعت باعتبار عدد ( ایک ساتھ یا ایک طہر میں تین طلاق دینا )
تعداد کے اعتبار سے طلاقِ بدعت کی صورت یہ ہے کہ بیک لفظ دو یاتین طلاق دے یا ایک ہی طہر میں وقفہ وقفہ سے تین طلاق دے ، پس جو شخص ایسا کرے گا تو وہ اگرچہ گنہگار ہوگا ؛ لیکن اُس کی دی ہوئی سب طلاقیں واقع ہوجائیں گی ۔تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا ۔
ب : – طلاقِ بدعت باعتبار وقت ( یعنی حالتِ حیض یا اس طہر میں طلاق دینا جس میں جماع کرچکا ہو )
وقت کے اعتبار سے طلاقِ بدعت یہ ہے کہ عورت کو حالتِ حیض میں طلاق دی جائے یا ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں جماع کرچکا ہو ، ایسا کرنا گناہ ہے ، اور واجب یہ ہے کہ اِس طرح طلاق کے بعد ( اگر گنجائش ہو ) تو فوری طور پر رجعت کرلی جائے ۔

طلاق بدعت

حالتِ حیض میں طلاق دینا۔ ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں عورت کے ساتھ صحبت کرچکا۔   ایک طہر میں ایک سے زائد (دو یاتین ) طلاق دینا۔ غیر مدخولہ کو بیک وقت ایک سے زائد طلاق دینا۔ نابالغہ یا آئسہ (جس عورت کو حیض آنا بند ہوچکاہو)کو ایک مہینہ میں ایک سے زائد طلاق دینا، یہ سب طلاقِ بدعت ہے، اس طرح طلاق دینے سے آدمی گناہ گار ہوتا ہے ،اگرچہ طلاق بہر صورت واقع ہوجاتی ہے۔

البتہ تعداد کی وجہ سے حکم مختلف ہوگا ۔  ایک طلاق کا الگ  حکم ہے(رجوع ہو سکتا ہے) دو کا الگ (دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے)اور تین کا الگ(بغیر حلالہ نکاح نہیں ہوسکتا)

طلاق رجعی یہ ہے کہ صاف اورصریح لفظوں میں ایک یا دو مرتبہ طلاق دی جائے۔
اس میں دوران عدت رجوع ممکن ہوتا ہے،
طلاقِ بائن وہ طلاق ہے جس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ،عدت کے درمیان بھی آپسی رضامندی ،نئے مہراورنکاح کے بغیرلوٹانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ طلاق رجعی دی اور عدت کے دوران رجوع نہ کی جائے تو یہ طلاق رجعی بائن بن جاتی ہے۔
طلاق مغلظہ جب طلاقوں کا عدد تین تک پہنچ جائے تو اسے طلاق مغلظہ کہتے ہیں۔

مزید دیکھیں

حلالہ کی اصطلاح اور شرعی احکام


ٹیگز

طلاق سنت اور طلاق بدعت” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں