عالم اجسام ( تنزلات ستہ کا مرتبہ سادسہ)

عالم اجسام ( تنزلات ستہ کا مرتبہ سادسہ)

تنزل خامس

پانچواں تنزل عالم اجسام(ناسوت) ہے، اس کو عالم شہادت بھی کہتے ہیں

مرتبہ ششم اور تعین پنجم پر مثالی صورتوں نے اجسام حاصل کیے اور مخلوق کے مختلف جسم ظاہر ہوئے۔ ان اجسام میں ذات روح سیرانی پر روح جسمانی یا حیوانی کا پرت ڈال کر عصری جسمانی صورت میں مخلوق میں ظاہر ہوگئی۔ یوں اللہ تعالیٰ عالم احدیت سے نزول کر کے عالم ناسوت میں ظاہر ہو گیا۔ اجسام کا یہ عالم عرش سے فرش تک پھیلا ہوا ہے اور اسے عالم ناسوت کہتے ہیں۔

اور چھٹا مرتبہ عالم اجسام کا ہے۔ اس سے مراد اشیائے کونیہ کثیفہ ہیں   جو ٹکڑے ٹکڑے ہونے اور جدا جدا ہونے کو قبول کرتی ہیں اور پکڑی جاسکتی ہیں ۔  حق تعالی مرتبہ احدیت سے تنزل فرماتے ہوئے عالم اجسام میں آگیا لیکن یہ مت سمجھیں کہ یہاں آگیا تو وہاں نہیں ہے بلکہ یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ، اور ہر جگہ بے تغیر و تبدل واحد ویکتا ہے۔

(اجسام : وہ عالم ہے جس کی تخلیق مادے سے ہوئی ۔ اسی عالم کو عالم خلق بھی کہتے ہیں کیونکہ خلق کے معنیٰ ہیں ایک شے کے واسطے سے دوسری شے بنانا ۔وہ عالم برزخ یا عالم مثال جہاں ارواح، دنیا میں آنے سے پہلے رہتی ہیں جابلقا ” کہلاتا ہے اور وہ عالم برزخ یا عالم مثال جہاں ارواح ، اجسام سے مفارقت کے بعد جارہتی ہیں ” جابلسا ” کہلاتا ہے۔ اس میں روحیں اعمال کی مثالی صورتیں اختیارکرلیتی ہیں ۔ یہ دونوں عالم ، روحانی، نورانی اور غیر مادی ہیں ۔)

(عالم شہادت : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ یہ چشم سرمشاہدے میں آتا ہے ۔ یہ ایک ایسا عالم ہے جس کو حواس خمسہ ظاہری سے ہرشخص دیکھ رہا ہے اور اسی وجہ سے اس کو عالم مخسوس، عالم مرئی، عالم کثیف اور عالم رنگ و بو ، عالم آب و گل وغیرہ بھی کہتے ہیں اور اسی کو عالم ناسوت ، عالم خلق اور عالم ملک بھی کہا جاتا ہے ۔ اس میں اجسام و اشیاء شکل و صورت ، رنگ و وزن رکھتے ہیں ۔ طول و عرض بھی ہوتا ہے ۔ اس میں اشیاء بتدریج کمال کو پہنچتے ہیں ، انہیں ارواح کی طرح دفعتا کمال حاصل نہیں ہوتا  )

اجسام دو قسم کے ہیں :

1 علویات ، مثلا عرش و کرسی ، سبع سموات ، ثوابت و سیارے ، اور آثار علوی مثلا رعد و برق اور ابر و باراں ۔

2- سفلیات ، مثلا غیر مرکب عنصریات اور مرکبات مثلاً معدنیات ، نباتات حیوانات اور جسم انسانی ۔

اسی طرح دوسرے عوالم میں جو عالم اقسام کے تابع ہیں مثلاً حرکت و سکون عقل و خفت ، لطافت و کثافت، رنگ و نور اور آواز و بو –

دیکھو، عماء(مراد لا مکان جب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : این کان ربنا ؟ کہ حضور ! ہمارا رب کہاں تھا تو آپ نے فرمایا : فی عماء یعنی عماء میں تھا۔  مکانیت ذات حق سے وابستہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اس سے تقید لازم آتا ہے۔ لہذا عما  آپؐ نے لامکان ہی کو فرمایا یعنی وہ قبل تخلیق خلق بھی مکان سے منزہ تھا جیسا کہ اب منزہ ہے ۔ الآن کما کان ۔) میں عقل کل(روح اعظم کو باعتبار عالم ، فاعل اور موثر ہونے کے عقل کل کہتے ہیں۔ یہ ایک مدرکہ نوریہ ہے جس سے ان علوم کی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں، جو عقل اول میں ہیں ۔) اور نفس کل(نفس کل اور لوح محفوظ روج اعظم کو بہ اعتبار معلوم یا منفعل یا متاثر ہونے کے نفس کل اور لوح محفوظ کہتے ہیں۔ نفس عالم بھی اسی کا نام ہے ۔) کے بعد ہیولائے کلی اور طبیعت(طبیعت : وہ قوت ہے جس کی تخلیق تو ہیولی کے بعد ہوئی لیکن اس کو بیولی پرمسلط کر دیا گیا اور جس نے بیولی کو اس صورت سے آراستہ کیا جس کے وہ لائق ہے مثلاً آسمان کے ہیولی کو آسمان کی صورت ، گھوڑے کے ہیولیٰ کو گھوڑے کی صورت اور انسان کے ہیولی کو انسان کی صورت عطا کی ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :ن الله ملكا يسوق الاهل الى الاهل اللہ کا ایک فرشتہ ہے جو اہل کو اہل کی جانب چلاتا ہے یہاں فرشتہ سے مراد یہی قوت طبعی ہے جو ہر صورت کو اس کے مناسب مادے کی جانب لے جاتی ہے ۔) کی تخلیق ہوئی۔ ہیولائے کلی ( وہ چیز جس میں اشیاء کی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں اور وہ  نفس رحمانی ہے ۔ ہر وہ باطن بھی ہیولی ہے جو صورت ظاہر رکھتا ہو) جس کو ہباء ( جوہر ہباء : وہ باریک باریک اجزاء یا ذرات یا جزء یا دقائق جن کے اجتماع و اتصال سے تمام اجسام بنے اور ان سے عالم اجسام بنا۔ ہباء  ہی در اصل ہیولی کی اصل ہے )” کہتے ہیں ، اجسام کا مادہ ہے جس میں اللہ تعالٰی نے عالم کی صورتیں اور اجسام کھولے ہیں ۔ اس کو عنقاء “ بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ معلوم تو ہوتا ہے لیکن ظاہر نہیں ہوتا، کیونکہ ظہور صورت کو ہوتا ہے ، مادے کو نہیں۔ اور طبیعت لوح محفوظ سے موافقت کی دریافت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اجسام میں اثر کرتی ہے۔ وہ بیولی پہلے کشادگی قبول کیے جیسا ہو۔

رحمن کا استواء

وہ کرہ جو سارے عالم اجسام کو محیط ہے، کرہ عرش عظیم  ہے(سب سے اونچا آسمان جو تمام افلاک صوریہ و معنویہ کا احاطہ کیئے ہوئے ہے۔ اس آسمان کی سطح مکانیت رحمانیہ ہے۔ اس کی ہویت مطلقہ وجود ہے خواہ عینی ہو یا حکمی ۔ اس آسمان کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ۔ اس کا باطن عالم قدس ہے جو اسماء وصفات کا عالم ہے ۔ اس کا ظاہر عالم انس ہے جو تشبیہ و تقسیم و تصویر کا محل ہے اور جو جنت کی چھت ہے ۔ یہ مکان جہت ستہ سے منزہ ہے۔ منظر اعلیٰ ہے۔ تمام اقسام موجودات کو گھیرے ہوئے ہے جس طرح جسم ہیکل انسانی جمیع متفرقات انفس کا جامع ہے۔ اسی طرح عرش جسم کلی ہے جو جمیع متفرقات آفاق کا جامع ہے۔ اس میں اسماء وصفات کے مجلا کو کثیب کہتے ہیں جس کے معنی ریت کے بلند تو دے کے ہیں۔ اہل جنت مشاہدہ حق کے لیے اسی کی جانب جائیں گے اور اس پر کھڑے ہوں گے ۔ جب مطلقاً ” عرش کہا جاتا ہے تو یہی آسمان مراد ہوتی ہے ۔ جب صفات کےساتھ اسے مقید کیا جاتا ہے تو کشیب کہتے ہیں۔ عرش مجید سے عالم قدس مراد ہوتا ہے، جو مرتبہ رحمانیت ہے۔ عرش عظیم سےحقائق ذاتیہ اورمقتضیات  نفسانیہ مراد ہوتے ہیں جن کی مکانت اور عظمت بھی عالم قدس ہی ہے۔ عالم قدس سے معانی الہیہ مراد ہیں جو احکام خلقیہ اور نقائص کو نیہ سے مقدس و منزہ ہیں ) ، عماء میں چار فرشتوں نے موجود ہو کر اس کو اٹھایا ، اس عرش پر کوئی مادی جسم نہیں بلکہ رحمن کا استواء ہے۔

استواء سے مراد عرش پر اس کا ظہور ہے ۔ اس لیے تمام عالم پر اس کی رحمت عام ہوئی کہ کوئی چیز اس کی رحمت سے خالی نہیں، کیونکہ رحمن کی رحمت کے مقابل بندوں کا کوئی عمل نہیں بلکہ محض منت (احسان)ہے ، اسی لیے اس رحمت کو رحمت امتنانیہ ” کہتے ہیں، وہ کسی قید کے ساتھ مقید نہیں، اسی لیے اس کو رحمت مطلقہ ” بھی کہتے ہیں۔ یہ رحمت وجودی ہے یہاں تک کہ غضب میں بھی رحمت ہے کیونکہ مغضوب علیہ کو جب تکلیف پہنچتی ہے تو یہ تکلیف بھی حقائق سے ایک حقیقت ہے۔ جب رحمت کا اس سے تعلق ہوا تو الم موجود ہوا اور یہی غضب اس شخص پر رحمت ہے، مثلا گناہ کا زنگ دور کرنے کے لئے گنہ گار کو آگ کی تکلیف پہنچتی ہے یا سونے کو آگ میں جلا کر اس کا کھوٹ دور کرتے ہیں یا فصد لگانے والے کی سوئی سے تکلیف ہوتی ہے لیکن جب مرض دور ہو جاتا ہے اور صحت ہو جاتی ہے تو یہ تکلیف عین راحت بن جاتی ہے۔ اسی طرح حدود شرعیہ مثلاً شُرب، خمر یا زنا یا قذف کے حدود ہیں۔ اگر چہ نفاذ حدود کے وقت تکلیف ہوتی ہے لیکن ان حدود سے گناہوں کا ازالہ ہوتا ہے ، اس لیے یہ عین رحمت ہیں

عرش عظیم کے جوف میں ایک اور جسم مجوف ہے۔ یہ کرسی کریم ہے (کرسی سے مراد جملہ صفات فعلیہ کی تجلی ہے۔ یہ اقتدار الہی کی مظہر ہے اور امر و نہی کے جاری ہونے کا محل حقائق کو نیہ کے ظہور کے لیے لطائف الہیہ کی پہلی توجہ کرسی میں ہوتی ہے اور حق تعالیٰ نے اپنے قدمین اس پر لٹکائے ہوئے ہیں۔ اس میں صفات اضداد یہ کے آثار کا ظہور تفصیل وار ہے۔ وسع كرسيه السموات والارض میں وسعت کے دو معنیٰ ہیں۔

(1) وسعت علمی و حکمی

(۲) وسعت وجودی و عینی

اور یہاں دونوں ہی وسعتیں مراد ہیں۔)اس کرسی پر رحمن کے دو قدم دراز ہیں ، ایک قدم غضب ہے اور دوسرا قدم رحمت سے اور کرسی میں فرشتے ہیں جو رحمت و غضب کو بندوں تک پہنچانے پر مامور ہیں ۔ اسی کرسی کے جوف میں ایک اور کرہ ہے، جس کو فلک اطلس کہتے ہیں، یہ عرش تکوین ہے ، اس سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ عالم میں چار طبیعتوں کے لیے کون و فساد ہوتا ہے۔ پھر اس کے جوف میں ایک اور کرہ ہے جس کو فلک منازل اور ” فلک ثوابت، کہتے ہیں، جس میں ثابت ستارے اور ستاروں کی منزلیں مقرر ہیں ۔ یہ چاروں مرکب نہیں ہیں بلکہ ہر دو کے درمیان خلا ہے، جس میں جنت پیدا کی گئی ہے۔ یہ شیخ اکبر کے کشف کے مطابق ہے کیونکہ انھوں نے گیارہ آسمان ثابت کیے ہیں،

سات افلاک

فلک شمس کے نیچے سات افلاک ہیں اور اوپر سات اور خود فلک شمس پند رھواں ہے چنانچہ فلک شمس کے اوپر جو سات افلاک ہیں، وہ یہ ہیں ۔

1۔ فلک احمر جو مریخ کا فلک ہے، جس کو قتال و سفاک ، خوں ریز اور “نحس اصغر” کہتے ہیں ۔

2۔ فلک مشتری، جو” سعد اکبر” ہے۔

3 فلک کیوان ، جو زحل کا فلک ہے اور جس کو” نحس اکبر” کہتے ہیں ۔

4 – فلک منازل ، جس کو” فلک ثوابت ” کہتے ہیں ۔

5- “فلک اطلس ، جو صاف ہے اور اس میں ستارے نہیں ہیں ، اس کو “فلک بروج کہتے ہیں کیونکہ اس میں ہروج مقرر ہوئے ہیں ۔

6 – فلک کرسی کریم ہے ،جو اسم رحیم کا مظہر ہے

7- فلک عرش عظیم ہے ، جو اسم رحمن کا مظہر ہے ۔

اور وہ افلاک جو فلک شمس کے نیچے ہیں ، یہ ہیں :

1فلک زہرہ ، جو سعد اصغر ہے ۔

-2 فلک عطارد یا فلک الکاتب ،جس کو دبیر ” کہتے ہیں۔

3۔فلک قمر

-4- فلک کره آتش

5فلک کره باد

6- فلک کره آب –

7فلک کره خاک

مشہور یہ ہے کہ فلک اطلس ، عرش اور فلک ثوابت ، کرسی ہے ۔

شیخ کمال الدین عبد الرزاق کہتے ہیں : فلک عرش سے مراد نفس کل اور فلک کرسی سے مراد عقل کل ہے یہ دونوں مرتبے وجود میں مراتب افلاک سے اعظم ہیں اور ان کی روح کو بر سبیل مجازفلک کہا جاتا ہے جیسا کہ عناصر کے کروں کو افلاک کہتے ہیں ۔

افلاک اور کُرے

شیخ رکن الدین شیرازی فرماتے ہیں : اگر چہ یہ توجیه خوب اور اچھی ہے لیکن نفس اور عقل دو امر معنوی معقول ہیں نہ جسم و جوہر، جبکہ افلاک اور کُرے مُدرَک محسوس اور مکانی ہیں ،یہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ دونوں فلک ہیں نہ کہ نفس و روح ۔ الغرض، اللہ تعالیٰ نے دو عرش اور دوکرسی کے بعد چار عناصر پیدا فرمائے ، ان کے بخارات جو اوپر چڑھے اور جم گئے وہ آسمان بن گئے ۔ ہر آسمان میں فرشتے ہیں جو اپنی اپنی تفویض کردہ خدمات کے انجام دینے میں مصروف ہیں اور اللہ تعالیٰ نے زمین کے نیچے دوزخ کو پیدا فرمایا ہے۔ کیمیائے خواص میں ہے

ظهور الوجود في الارواح أتم من ظهوره في عالم المعاني وظهوره في المثال أكمل من ظهوره في الارواح فظهوره في الأجسام اكثر و اتم من ظهوره في المثال ” ارواح میں وجود کا ظہور اتم ہے ، اُس کے اُس ظہور سے جو عالم معانی میں ہے اور امثال میں اُس کا ظہورمکمل ہے، اُس کے اُس ظہور سے جو ارواح میں ہے۔ پھر اجسام میں اُس کا ظہور زیادہ اور اتم ہے، اس کے اُس ظہور سے جو امثال میں ہے ”

مرتبہ اخیرہ میں ظہور وجود کے اتمام و اکمال سے  مراد یہ ہے کہ اجمالاً اصل حقیقت مدرک ہو جائے اور تفصیل عقل میں آجائے اور حواس ظاہری سے متخیل  موہوم اور موسوم ہو جائے  تاکہ وجود کے خواص اور اس کےآثار  اس میں بیشتر اور مکمل ہو جائیں


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں