عالم ارواح ( تنزلات ستہ کا مرتبہ رابعہ)

عالم ارواح ( تنزلات ستہ کا مرتبہ رابعہ)

تنزل ثالث

یہ مرتبہ چہارم اور تعین سوم ہے۔ اس مرتبہ کو عالم ارواح یا جبروت کہتے ہیں اور یہ فَأَرَدْتُ ( پس میں نے چاہا) کا مقام ہے۔ روح قدسی جو غیر مخلوق نورالہی ، نور محمدی ہے، اس غیر مخلوق روح قدسی کو جبروتی لباس پہنا کر روح سلطانی کے پردے کی صورت میں عالم جبروت میں اتارا گیا اور روح سلطانی نے روح قدسی کو خود میں چھپا لیا جیسے درخت تخلیق بھی بیج سے ہوتا ہے اور پیج کو اپنے اندر چھپائے بھی رکھتا ہے۔ روح سلطانی روح قدسی کا پہلا لباس ہے۔

اسی مقام پر فرشتوں کی تخلیق بھی ہوئی ۔ عالم جبروت میں انسان کی روح کی تمام صفات، احوال اور افعال وہی ہیں جو فرشتوں کے ہیں اور اسکی نورانیت بھی ویسی ہے۔ عالم ارواح الوہیت کی تفصیل ہے اور اس کے اسماء و صفات کا مرتبہ ہے ۔

جبروت عربی میں جوڑنے اور ملانے کو بھی کہتے ہیں۔ یہ مرتبہ مراتب الہیہ، مراتب حقی یا حقائق الہیہ (احدیت، وحدت، واحدیت ) اور مراتب کونیہ یا مراتب خلقی ( جبروت ملکوت اور ناسوت ) کے درمیان بمنزلہ پل ، سیڑھی اور واسطے کے ہے یعنی عالم امر کو عالم خلق سے جوڑتا ہے اس لیے اس کو جبروت کہتے ہیں۔ یہی مقام جبرائیل علیہ السلام  کاہے جو اللہ تعالیٰ اور انبیا کے درمیان وسیلہ رہے ہیں اور عبد و معبود اور خالق مخلوق کے درمیان تعلق جوڑنے پر معمور ہیں ۔ یہ مقام عالم غیب اور عالم کثیف کے درمیان گویا ایک برزخ ( پردہ ) اور سیڑھی ہے۔

(ارواح یہ وجود کا چوتھا مرتبہ اور تیسرا تنزل ہے ۔ پہلے تین  مراتب  مراتب الہیہ تھےوہ مراتب جو امر کن سے پہلے کے مراتب تھے۔ یہ مراتب علمی اور داخلی تھے ۔ ان میں کوئی شے بھی موجود فی الخارج نہیں۔ مرتبہ احدیث میں اسماء وصفات کی تفصیل تھی ، جہاں اعیان ثابتہ بھی علمی اور ان کے اقتضاءات بھی علمی ۔ ان میں کوئی شے بھی موجود فی الخارج نہیں بلکہ یوں کہنا زیادہ موزوں ہو گا کہ کوئی شے ہی نہیں ۔ اشیاء کا وجود صرف مراتب کونیہ میں ہے۔)

تیسرا تنزل یعنی تیسرا تعین مظہر ارواح کا ہے ۔ ارواح ، اجسام کے مادے ہیں اورعوارض سے پاک، اورالوان و اشکال نہیں رکھتے۔( عالم ارواح ، شکل ، وزن اور زمان و مکان سے پاک ہے۔ ارواح کا پیدا ہونا اور کمال کو پہنچتا تدریجا نہیں بلکہ دفعہ امرکن سے ہوتا ہے۔ وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةُ كَلَمَ بِالْبَصَرِ اور ہمارا حکم بس ایسا یک بیک ہے جیسے آنکھ کا جھپکا) ان کے عالم کو عالم افعالی عالم انوار، عالم مجردات، عالم مفارق ، عالم ملکوت ( اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ملائکہ کی تخلیق اسی عالم میں ہوئی ہے ۔ صوفیہ کرام ” جب مُلک” اور “ملکوت ” کے الفاظ استعمال کرتے ہیں توملک سے ان کی مراد عالم شہادت اور ملکوت سے عالم ارواح ہوتی ہے ۔)،عالم علوی ، عالم غیب، عالم امر(عالم امر : اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ عالم بلامدت و مادہ ، حق تعالیٰ کے امر کن سے وجود میں آیا ہے ۔)،عالم غیرمرئی(یہ عالم چشم سر سے دکھائی نہیں دیتا) ہے عالم غیر محسوس(حواس خمسہ ظاہری کی گرفت میں نہیں آتا)، عالم ربانی ، عالم لطیف ، عالم بے رنگ ، کہتے ہیں ۔

(عالم کہتے ہیں ماسوی اللہ کو ، اس لیے مراتب الہیہ کے بعد وجود کے جتنے بھی مراتب ہیں، ان کو عالم کہا جاتا ہے، چنانچہ عالم ارواح ، عالم امثال ، عالم اجسام اور عالم صغیر (انسان) تو کہتے ہیں لیکن عالم احدیت ، عالم وحدت اور عالم واحدیت کہنا غلط ہے ۔ یہ مراتب الہیہ ہیں ، ان کے ساتھ عالم کا لفظ قطعا استعمال نہیں ہو گا۔)

اس عالم میں ملائکہ دو قسم کے ہیں

1: ایک قسم تو ان فرشتوں کی ہے جو عالم اجسام سے تدبیر و تصرف کا تعلق نہیں رکھتےان کو کروبیاں(فرشتوں کی بنیادی تقسیم) کہتے ہیں ۔

2۔ دوسری قسم ان فرشتوں کی ہے جو عالم اجسام سے تدبیر و تصرف کا تعلق رکھتے ہیں، ان کو روحانیاں(فرشتوں کی بنیادی تقسیم) کہتے ہیں

کروبیوں کی پھر دو قسمیں ہیں :

1۔ ایک قسم تو وہ ہے جو اپنی اور عالم کی خبر نہیں رکھتے اور جب سے پیدا ہوئے ہیں ، اللہ تعالی کے جلال و جمال میں گم ہیں ان کو ملائکہ مہیمین( یہ فرشتوں کی ایک خاص نوع ہے ، جنہیں نہ اپنی خبر ہے نہ غیر کی۔ یہ جب سے پیدا ہوتے ہیں ، اس وقت سے جلال و جمال الہی کے مشاہدے میں مستغرق ہیں۔ گویا ملائکہ میں یہ طبقہ مجاذیب ہے ۔) کہتے ہیں اور شریعت میں ملااعلی اور ملائکہ عالیہ ” کہا جاتا ہے ۔ اولا عماء (مراد لا مکان جب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : این کان ربنا ؟ کہ حضور ! ہمارا رب کہاں تھا تو آپ نے فرمایا : فی عماء یعنی عماء میں تھا۔  مکانیت ذات حق سے وابستہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اس سے تقید لازم آتا ہے۔ لہذا عما  آپؐ نے لامکان ہی کو فرمایا یعنی وہ قبل تخلیق خلق بھی مکان سے منزہ تھا جیسا کہ اب منزہ ہے ۔ الآن کما کان ۔)میں اللہ تعالٰی نے ملائکہ مہیمیین کو پیدا فرمایا ۔ ان کے بعد اسی صفت پر ایک اور فرشتے کو پیدا کر کے اس کو ابد الآباد تک کی تمام چیزوں کا علم عطاکیا، اس فرشتے کا نام عقل کل(روح اعظم کو باعتبار عالم ، فاعل اور موثر ہونے کے عقل کل کہتے ہیں۔ یہ ایک مدرکہ نوریہ ہے جس سے ان علوم کی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں، جو عقل اول میں ہیں ۔) ہے عقل اول اور قلم اعلیٰ ہے(عقل اول ، علم الہی کی شکل کا وجود میں محل ہے۔ علم الہی کا نور جو تنزلات تعینہ خلقیہ میں سب سے پہلے ظاہر ہوا۔ علم الہی قلم اعلی کے ذریعہ سے لوح محفوظ کی طرف نازل ہوا۔ یہ لوح اس کے تعین نتزل کا محل ہے ۔ علم الہی ام الکتاب ، ہے اور عقل اول امام مبین ۔ عقل اول میں وہ اسرار الہیہ ہیں جو لوح محفوظ میں نہیں سما سکے اور علم الہی میں وہ سب کچھ ہے جس کا محل عقل اول نہیں بن سکتی ۔عقل اول اور قلم اعلیٰ در حقیقت ایک ہی نور کے دو نام ہیں ۔ اس نور کی نسبت عبد کی طرف کی جاتی ہے تو اسے عقل اول کہتے ہیں اور جب اس کی نسبت حق تعالیٰ کی جانب کی جاتی ہے تو اسے قلم اعلیٰ کہتے ہیں ۔ پھر عقل اول سے جو در حقیقت نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، ازل میں جبرئیل علیہ السلام پیدا کیے گئے اور ان کا نام روح الامین رکھا گیا کیونکہ وہ ایک ایسی روح ہیں جن کے پاس اللہ تعالیٰ کے علم کا خزانہ بطور امانت سپرد کیا گیا ہے۔ اسی وجہ حضرت جبرئیل علیہ سلام مرکز علم قرار پائے ۔ اس نور کو جب انسان کامل کی طرف نسبت دی جائے تو وہ روح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے ملقب ہوتا ہے ۔ عقل اول ، قلم اعلی اور روح محمدی ان تینوں کی تعبیر جوہر فرد سے کی جاتی ہے ۔)۔ پھر اس کے نیچے ایک اور فرشتے کو پیدا فرمایا تاکہ قلم اعلیٰ اس کو سارا علم تفصیلی پہنچا دے ، اس کو نفس کل اور لوح محفوظ (نفس کل اور لوح محفوظ روح اعظم کو بہ اعتبار معلوم یا منفعل یا متاثر ہونے کے نفس کل اور لوح محفوظ کہتے ہیں۔ نفس عالم بھی اسی کا نام ہے ۔)” کہتے ہیں۔ اس میں جو کچھ ہے وہ غیر مبدل ہے۔ اور دیگر فرشتے بھی ہیں۔ جن کو کائنات کا تھوڑا بہت علم عطا کیا گیا ہے ۔ یہ فرشتے بھی اقلام “ ہیں جو اپنے اوپر والے فرشتوں سے علم حاصل کر کے نیچے والے فرشتوں کو بہم پہنچاتے ہیں۔ ان نیچے والے فرشتوں کو الواح (تقدیر الہی میں جو کچھ مقدر ہو چکا ہے ، اس کے نوشته ازلی کو ” لوح کہتے ہیں۔ اسی کو کتاب مبین بھی کہتے ہیں۔ بعض صوفیہ کے نزدیک یہ الواح چار ہیں ۔

1 لوح قضا: اس میں ہر قسم کے محوواثبات ازلا درج ہیں ۔ یہ لوح عقل اول ہے

2لوح قدر : لوح نفس ناطقہ کلیہ جس میں لوح اول کا اجمال تفصیل میں آیا اور مقدرات کو اسباب سے متعلق کر دیا گیا ۔ اسی کولوح محفوظ بھی کہتے ہیں۔

3لوح نفس جزیہ سماویہ : اس میں وہ سب کچھ ہے جو اس عالم میں ہے یہ بشکل ہیئت و مقدار خود منقش ہے ۔ ان نقوش کو اسمائے دنیا بھی کہتے ہیں

4 لوح ہیولی : اس میں وہ تمام صورتیں ، کیفیات اور واردات شامل ہیں جو عالم شہادت میں پائی جاتی ہیں۔

لوح اول یعنی لوح قضا ، روح کے مشابہ ہے ۔

لوح ثانی یعنی لوح قدر ، قلب کے مشابہ ہے ۔

لوح ثالث یعنی لوح جزئیہ سماویہ ، خیال کی مشابہ ہے ۔)۔ کہا جاتا ہے ۔ یہ الواح محو و اثبات کے محل ہیں ان الواح پر وہ اقلام ہر وقت لکھتے رہتے ہیں۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے معراج میں جو آواز سماعت فرمائی تھی۔ وہ ان ہی اقلام کی تھی۔ قلم اعلی لکھ کر فارغ ہو چکا۔

2۔ دوسرے وہ فرشتے ہیں جو برائے فیض ربوبیت ہیں ، ان کو حُجّاب الوہیت” کہتے ہیں ۔ عما میں سب فرشتے صف بہ صف کھڑے ہیں اور اپنی اپنی خدمتوں پر مامور ہیں۔ اپنے مقام سے سرمو تجاوز نہیں کر سکتے ۔ عقل کل اور نفس کل کے بعد صف اعلیٰ میں ملائکہ مقربین ( انہیں  اولو العزم بھی کہا جاتا ہے اور ان کے تابع ، معین اور مددگار فرشتوں کو اتباع اولوا العزم کہا جاتا ہے، جو بہ کثرت ہیں۔) مثلا حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام اور سب فرشتے حکم الہی کے منتظر ہیں ۔ یہ نافرمانی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی تخلیق ہی اس طرح ہوئی ہےکہ یہ گناہ سے پاک (معصوم) ہیں ۔

اقلام اور الواح

ان ملائکہ کے بعد ملائکہ طبعیہ ہیں جو موکل ہیں ، جن میں سے بعض افزائش نسل پر اوربعض رزق رسانی پر اور بعض جسم انسانی سے متعلق دیگر امور پر مامور ہیں۔ اور بعض اعمال کی کتابت کے لئے ہیں، یہ اقلام اور الواح کی قسم سے ہیں۔ پھر یہ الواح بھی محو و ثبات کے محل ہیں ۔ ان میں جو گناہ لکھے جاتے ہیں ، رحمت الہی انہیں مٹادیتی ہے ۔ اور ہر فرشتہ اللہ تعالی کے اس نام کی تسبیح کرتا ہے، جس کا وہ خود مظہر ہے اور ان کی تسبیح اسمائے تنزیہ کے ساتھ ہوتی ہے ۔

روحانیوں کی دو قسمیں ہیں

: 1۔ ایک وہ روحانی ہیں جو سماویات میں تصرف کر تے ہیں، ان کو اہل ملکوت اعلی ” کہا جاتا ہے۔

2دوسرے وہ روحانی ہیں جو ارضیات میں تصرف کرتے ہیں ، ان کو اہل ملکوت اسفل کہا جاتا ہے۔

لاکھوں فرشتے نوع انسانی کے مؤکل ہیں اور لاکھوں معدنیات کے ، لاکھوں نباتات کے اور لاکھوں حیوانات کے ، بلکہ یوں کہو کہ ہر چیز پر ایک فرشتہ موکل ہے، حتی کہ بارش کے ہر قطرے کے ساتھ ایک فرشتہ نازل ہوتا ہے۔ اہل کشف نے کہا ہے کہ جب تک فرشتہ ساتھ نہ ہو ایک پتہ بھی درخت سے گر نہیں سکتا ہے احادیث میں ملک الجبال ، ملک الریح ، ملک الرعد ، ملک البرق اور ملک السحاب ( کا ذکر آیا ہے ۔

روحانیوں سے روح انسانی ہے ، جو ایک تعین مجرد ہے مادے سے اور لطیفہ ہے لطائف الہیہ سے ، جو لوح و قلم کے بالمقابل ہے بلکہ یہ دونوں اسمیں داخل ہیں ، کیونکہ روح انسانی عالم امکان میں تمام اشیائے کو نیہ اور اسمائے الہیہ کی مظہر جامع ہے اور اس کو ہر چیز کا تفصیلی علم بالفعل ہے۔ روح انسانی ہے کھٹکے عقل کل اور نفس کل سے جو علم چاہے حاصل کر لیتی ہے اگر چہ وہ ان سے افضل ہے ۔

روح انسانی

روج انسانی ایک ہے لیکن متعدد تعینات میں متعین بھی ہوتی ہے اور متعدد صورتوں میں متشکل بھی۔ ان صورتوں کو ارواح حیوانی ، کہتے ہیں۔ ہر انسان میں ایک روح حیوانی داخل ہے روح حیوانی جو ایک جسم لطیف ہے ، عالم ارواح اور عالم اجسام کے درمیان برزخ ہے۔  یہ بہ تبدیلی شکل سارے جسم میں اس طرح در آتی ہے کہ اس کا ہر جزء جسم کے ہر جزء میں در آیا ہوا ہے۔ بلکہ اس کا ہر جزء، بدن کے ہر جزء کے ساتھ مل کر ایک ہو گیا ہے ، اب محسوس ہی نہیں ہوتا کہ روح حیوانی جسم کے علاوہ بھی کچھ اور ہے۔ فلاسفہ جس کو روح حیوانی کہتے ہیں وہ قابل فناجسم بخاری ہے(وہ ہوائے لطیف جو عناصر لطیف کے بخارات  سے جسم میں حیات کی صلاحیت پیدا کر کے اس میں حس و حرکت پیدا جرتی ہے اسے روح طبعی اور بدن ہوائی بھی کہتے ہیں)

عقل کل کے ہر پرتو سے صاحب القویٰ کی روح حیوانی ایک قوت ہے، یہ عقل جزئی ہے ، روح حیوانی جس کے تعاون سے نیک  وید اور نفع و ضرر میں فرق کرتی ہے اور نفس کل کے پرتو سے ایک دوسری قوت ہے ، یہ نفس جزئی ہے ، جو بقائے جسم کے مصالح بدینیہ علی وجہ الکمال بدن کو مہیا کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے بدن اور حیوانیت کے مقتضیات کی تکمیل کے لیے نفس جزئی ، روح کو مسخر کرتا ہے، لیکن نفس کی یہ ساری کوشش صرف حظوظ نفسانی کے لیے ہوتی ہے ۔

روح حیوانی کی ایک قوت ” قوت شیطانی(قوت شر) ہے ، جو نفس کو ارتکاب حرام پر اکساتی رہتی ہے تاکہ حظ بدن حاصل ہو سکے ۔ اور روح حیوانی کی ایک قوت ، قوت ملکی” (قوت خیر ،ضمیر)ہے جو اصلاح آخرت کے اعمال کا تقاضا کرتی ہے ، اسی کا حکم دیتی ہے اور روح کے تابع رہتی ہے ۔

غرض روح حیوانی کی طرف روح انسانی کی نسبت، مقید کی نسبت ہے مطلق کیے سا تھ اور جزئی کی نسبت ہے کلی کے ساتھ ۔ روح حیوانی کو ممکن ، کہا گیا ہے ۔ روح حیوانی، روح انسانی کا جسد ہے۔ اسی کے ساتھ متحد ہے اور اسی کے ساتھ مرکب ، اور صرف اپنے متعین ہی میں مطلق کا ظہور و نمود ہے ۔ روح حیوانی اگرچہ اپنے مرتبہ اطلاق میں کل اشیاء کی عالم ہے اور تلذذ و تا لم سے پاک ہے، لیکن جب متشکل ہو کر روح حیوانی ہوئی تو اس مرتبہ میں علوم سے خالی ہے ۔ بدن سے تعلق کے بعد علم سے بہرہ ور ہوتی ہے اور تلذذ و تالم سے متصف – روح حیوانی بھی جو ہر لطیف اورابدی ہے موت کے بعد فنا نہیں ہوتی بلکہ بدن سے روح حیوانی کی علیحدگی کا نام ” موت ہے۔ یہ روح بدن سے خارج ہو کر جسم پرزخی اختیار کر لیتی ہے یعنی صور مثالیہ میں سے کسی صورت سے متشکل ہو جاتی ہے اور پھر کبھی دنیا میں جسم سے متعلق نہیں ہوتی قبر میں جسم برزخی کے ساتھ روح حیوانی سے ہی سوال کیا جاتا ہے کیونکہ یہی ابدی (غیر فانی ہے۔

روح حیوانی

یہ روح حیوانی نیند کی حالت میں بدن سے الگ ہوکر سیر کرتی ہے اور کبھی یہ روح بیداری کی حالت میں دیکھنے والے کے جسم سے نکل کر سیر کرتی ہے اور اس کا جسم سونے والے کی مانند نظر آتا ہے اور جب دوبارہ بدن میں آتی ہے تو اس کا ہر جزء ، جسم کے ہر جزء پر منطبق ہو کر داخل ہوتا ہے۔  روح حیوانی اگرچہ جسم ہے لیکن ایسی لطیف ہے کہ ارواح میں داخل ہو سکتی ہے اور صور مثالیہ سے بھی الطف ہے۔  روح انسانی کے تعدد کے باوجود اس کی وحدت اور اجسام انسانی میں اس کا جاری وساری ہونا عارف پر منکشف ہوتا ہے لیکن مہجور اس سے ناواقف اور شک میں گرفتار رہتا ہے اور اس صورت میں روح حیوانی کو شخص انسانی ” اور ” مکلف بالشرع ” کہتے ہیں ۔ چنانچہ بعض کی فضیلت بعض پر اسی روح حیوانی کے اعتبار سے ہے ۔

روح  حیوانی ایک مرتبہ اپنے وجود کے بعد کبھی فنا نہیں ہوتی ۔ دنیا میں  بہ شکل جسم عنصری برزخ میں بہ شکل جسم برزخی اور آخرت میں بہ شکل جسم محشور” رہتی ہے۔ روح حیوانی روح انسانی کا ظرف ہے کیونکہ مقید مطلق کا ظرف ہوتا ہے چنانچہ انسان کامل اس روح کو لذائذ نفسانی سے باز رکھ کر روح انسانی کے مشاہدے میں اس  کے تعین کو فنا کرتا ہے اور روح انسانی کے اطلاق وکلیت کا مشاہدہ کرتا ہے۔

اختلاف معرفت

روح کی معرفت میں اولیاء مختلف ہیں، ان کو روح کی معرفت ان کے مراتب کے مطابق ہوتی ہے ۔ راز اس میں یہ ہے کہ روح انسانی ایک اور کامل ہے لیکن تعینات کے ساتھ متعدد ہے اور ہر تعیین کی مخصوص خصوصیات ہوتی ہیں اور مخصوس لوازم بھی ، جو دوسرے تعین کے نہیں ہوتے ۔ لہذاروح انسانی بعض تعینات میں گرفتار جہل ہو کر تحت الثری میں جا گرتی ہے۔ اور بعض تعینات میں معرفت الہی میں کامل ہوکر علیین میں پہنچ جاتی ہے ۔ اختلاف معرفت ، استعداد تعینات کے اختلاف کے سبب ہوتا ہے ۔

میثاق رسالت

غرض روح حیوانی کامل بھی ہے اور ناقص بھی۔ متلذذ بھی اور متالم بھی لیکن متعینات میں شرط تعین کے ساتھ ۔ قلم اعلیٰ اور لوح محفوظ ، روح انسانی میں مزدوج اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وصحبہ وسلم کی روح مبارک ، روح اعظم( یہ روح محمدی ﷺ ہے ۔ تمام ارواح اسی کے مظاہر ہیں ۔ اس کو روح کل ، روح عالم ، جان عالم اور اضافتاً انانیت عظمی اور انانیت کبری بھی کہتے ہیں ) ہے، جوہر وقت علم و کمال سے متصف ہے۔ آپ عالم ارواح میں ، تمام ارواح کی طرف بھی نبی تھے ۔ سب کے سب خواہ کامل ہوں یا ناقص ، روح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں اور سب نے اقرار کیا ہے کہ جسم میں آنے کے بعد بھی ہم سب آپ کے مطیع و منقاد رہیں گے ۔ یہ میثاق رسالت میثاق ربوبیت کے بعد ہوا تھا ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں