اس بیان میں کہ کیا عالم صغیر کیا عالم کبیرواسماء و صفات الہی کے مظہر ہیں اور عالم کو اپنے صانع کے ساتھ مخلوقیت اور مظہریت کے سوا اور کوئی نسبت نہیں ہے اور اس کے مناسب بیان میں میر صالح نیشاپوری کی طرف لکھا ہے: اللهم أرنا حقائق الأشياء كما هي یا اللہ ہم کو اشیاء کی حقیقت دکھا جیسی کہ وہ ہیں۔
جہان کیا چھوٹا کیا بڑا حق تعالیٰ کے اسماء و صفات کے مظہر اور اس کے شیون(اس کا مُفرد شان ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) اور ذاتی کمالات کے آئینے ہیں۔ حق تعالیٰ ایک خزانہ مخفی اور پوشیدہ تھا۔ اس نے چاہا کہ اپنے آپ کو خلوت سے جلوت میں لائے اور اجمال سے تفصیل میں لائے ۔ تو جہان کو اس طرح پیدا کیا کہ اپنی ذات و صفات حق تعالیٰ کی ذات و صفات پر دلالت کرے۔ پس جہان کو اپنے صانع کے ساتھ کوئی نسبت نہیں ہے ۔ مگر یہ کہ اس کی مخلوق ہے اور اس کے اسماء و شیون اور کمالات پر دلالت کرنے والا (امور کا مجموعہ)ہے۔ وہاں اتحاد اور عینیت(حق سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی مخلوق کے ساتھ مل کر مخلوق کوعین حق کر لیا اور مخلوق کا احاطہ کر کے اس میں سرایت ہو کر ذات حق بنا لیا ) اور احاطہ (اللہ تعالیٰ کا ہر چیز پر محیط ہونا)اور سریان (اللہ تعالیٰ کا مومن کے قلب میں سمانا) اور معیت ذاتیہ کا حکم لگانا غلبہ حال اور سکر(مستی) وقت سے ہے۔ مستقيم الاحوال بزرگوار کہ جن کوصحو کا پیالہ پلایا ہوا ہے۔ جہاں کے لئے صانع کے ساتھ کوئی نسبت سوائے مخلوق اور مظہر ہونے کے ثابت نہیں کرتے اور علمائے اہل حق کے مطابق ( کہ الله تعالیٰ ان کی کوشش کو مشکور فرماوے) احاطہ سریان و معیت کوعلمی جانتے ہیں۔
تعجب ہے کہ صوفیہ کی ایک جماعت بعض ذاتی نسبت کومثل احاطہ (گھیر لینا)اور معیت کے ثابت کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کے معترف ہیں کہ ذات سے تمام نسبتیں مسلوب ہیں ۔ حتی کہ صفات ذاتیہ کا بھی سبب ظاہر کرتے ہیں حالانکہ یہ تناقض ہے اور اس تناقض کے دفع کرنے کیلئے ذات میں مراتب کا ثابت کرتافلسفی تحقیقات کی طرح بیجا تکلف ہے۔ صحیح کشف والے لوگ ذات حق کے بسیط(تمام کائنات میں اس ایک ذات کو دیکھنا)حقیقی کے سوا کچھ نہیں جانتے اور اس کے سوائے جو کچھ ہو اسماء(صفات) میں داخل گئے ہیں
فراق دوست اگر اندک است اندک نیست درون دیدہ اگر نیم مواست بسیار است
ترجمہ: فراق دوست تھوڑا بھی بہت ہے حق میں عاشق کے نظر آ تا بہت ہے، ہو اگر چہ نیم موجتنا
اس مضمون کی تحقیق کے لئے ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ مثلا اگر کوئی فاضل عالم بڑے فن جاننے والا چا ہے کہ اپنے پوشیدہ کمالات کو ظاہر کرے اور حرفوں اور آوازوں کو ایجاد کرے تا کہ ان کے پردے میں ان کمالات کو ظاہر کرے تو اس صورت میں دلالت کرنے والے حرفوں اور آوازوں کو ان پوشیده معنوں کے ساتھ کوئی نسبت نہیں ہے۔ سواے اس کے کہ یہ حروف اور آواز ان پر پوشیدہ معنوں کے مظہر اور در پردہ کمالات کے آئینے ہیں ۔ حرفوں اور آواز وں کو ان مخفی معانی کا عین کہنا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ اسی طرح اس صورت میں احاطہ اور معیت کاحکم لگانا نا مناسب ہے۔ معانی اسی طرح اپنی پہلی مخزونہ حالت پر ہیں ۔ ان معانی کی ذات و صفات میں کی قسم کا تغیر و تبدل واقع نہیں ہوا۔ چونکہ معانی اور حروف و اصوات والے کے درمیان ایک قسم کی دالیت اور مدلولیت کی نسبت ثابت ہے تو اس سے کچھ زائد معنی خیال میں آتے ہیں اور جو کچھ اس مسئلہ میں ہمارا اعتقاد ہے وہ یہ ہے کہ مظہر اور آئینہ ہونے کے سوا اور کسی امر زائده مثل اتحاد و عینیت و معیت و احاطہ کا ثابت کرنا سکر کے باعث ہے ۔ حق تعالیٰ کی ذات نسبت و مناسب سے معراومبرا ہے۔
مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبُّ الْاَرْبَابِ(چہ نسبت خاک را با عالم پاک ،خاک کو عالم پاک سے کیا نسبت)
ظاہریت(حق تعالی کا ظاہر ہونا) اور مظہریت(مخلوق کا مظہر ہونا) کی اس قدر مناسبت کے باوجود وحدت وجود کہیں یا نہ کہیں۔ حقیقت میں متعدد وجود ہیں لیکن اصالت وظلیت اور ظاہریت اورمظہر یت کے طور پر نہ یہ کہ ایک موجود ہے اور اس کے سوا باقی سب وہم و خیالات۔ یہ مذہب بعینہ مذہب سوفسطائی(وہم پرستی) ہے۔ حقیقت کا اس میں ثابت کرنا اوہام و خیالات سے سوفسطائی کا مقصود ہے۔ خارج نہیں ہوتا ۔
چوں بدا نستی تو اوراز نخست سوئے آنحضرت نسب کردی درست
وانگہ دانستی که ظل کیتی فارغی گر مردی و گر زیستی
اگر تجھے پہلے سے ہوتی کچھ شناخت اس سے نسبت اپنی کر لیتا درست
جان لے اب بھی کس کا ظل ہے تو پھرتو فارغ کام تیرا ہے چست
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ311ناشر ادارہ مجددیہ کراچی