عالم کے حادث ہونے اورعقل فعال کے ردمیں مکتوب نمبر 57دفتر سوم

 عالم کے حادث ہونے اورعقل فعال کے رد کرنے میں مولانا حمید احمدی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ (اللہ رب العالمین کی حمد ہے اور مرسلین کے سردار پرصلوۃ وسلام ہو) حق تعالیٰ  اپنی ذات اقدس کے ساتھ موجود ہے اور اس کی ہستی(بخودئ خود)اپنی خودکے ساتھ قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ  جس طرح اب ہے پہلے بھی ایسا ہی تھا اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ عدم سابق اور عدم لاحق کو اس کی طرف راہ نہیں، کیونکہ وجوب وجود اس درگاه مقدس کاکمینہ خادم ہے اور سلب عدم (عدم کی نفی)اس بارگاه بزرگ کا ادنی خاکروب ہے اور حق تعالیٰ  کے ماسوا جس کو عالم کہتے ہیں یعنی عناصر و افلاک وعقول ونفوس اور بسائط(وسعتیں) ومرکبات(دو یا زیادہ چیزوں سے ترکیب پائی ہوئی چیزیں) سب حق تعالیٰ  کی ایجاد سے موجود ہوئے ہیں اور عدم سے وجود میں آئے ہیں۔ قدم ذاتی و زمانی اسی کی جناب پاک کے لیے ثابت ہے اور حدوث ذاتی و زمانی حق تعالیٰ  کے ماسوا کے لیے ثابت ہے۔ حق تعالیٰ  نے جس طرح زمین  کو دو روز میں پیدا فرمایا ہے اسی طرح انسانوں اور ستاروں کو زمین  کے پیدا کرنے کے بعد دو روز میں عدم سے وجود میں لایا ہے۔ آیت کریمہ خَلَقَ الْأَرْضَ فِي ‌يَوْمَيْنِ (زمین  کو دو دن میں پیدا کیا( اور آیت کریمہ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي ‌يَوْمَيْنِ (سات آسمانوں کو دو دن میں پورا کیا) اسی بات کی مصداق ہیں۔ وہ شخص بہت ہی بے وقوف ہے جو نص قرآنی کا منکر ہو کر ماسوا میں سے بعض کا قائل ہے اور آسمانوں اور ستاروں کے قدم حکم کرتا ہے اور عناصر بسیط کو قدیم جانتا ہے اورعقول ونفوس کو ازلی و قدیم تصور کرتا ہے۔ تمام اہل ملت کا اجماع ماسوائے اللہ کے حدوث پر قائم ہے اور بالاتفاق سب سے عدم سابق کے بعد ماسوی کے وجود حکم کیا ہے جیسے کہ امام حجۃ الاسلام غزا لی نے رسالہ المنقذعن الضلال میں اس مضمون کو واضح کیا ہے اور لوگ جو عالم کے بعض اجزاء کے قدیم ہونے کے قائل ہیں۔ اس سبب سے ان کی تکفیر فرمائی ہے۔ پس ممکن کی اشیاء میں سے کیسی شے کے قدم کا حکم کرنا ملت سے نکلنا اور فلسفہ میں داخل ہونا ہے اور جس طرح ماسوائے  حق تعالیٰ  کے لیے عدم سابق ثابت ہے۔ اسی طرح عدم لاحق بھی اس کو دامن گیر ہے۔ آسمانوں کے ستارے گر جائیں گے۔ آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے اور زمین  و پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر عدم سے مل جائیں گے۔ جیسے کہ قرآن مجید فرماتا ہے۔ فَإِذَا نُفِخَ فِي ٱلصُّورِ نَفۡخَة  وَٰحِدَة  وَحُمِلَتِ ٱلۡأَرۡضُ وَٱلۡجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةٗ وَٰحِدَةٗ   فَيَوۡمَئِذٖ وَقَعَتِ ٱلۡوَاقِعَةُ  وَٱنشَقَّتِ ٱلسَّمَآءُ فَهِيَ يَوۡمَئِذٖ وَاهِيَة  (پس جب پہلی دفعہ کرناپھونکی جائے گی اور پہاڑ اپنی جگہ سے اڑ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے پس اس دن واقع ہونے والی یعنی قیامت واقع ہوگی اور اس دن آسمان پھٹ کر نابود ہو جائیں گے اور فرماتا ہے۔ إِذَا ٱلشَّمۡسُ كُوِّرَتۡ  وَإِذَا ٱلنُّجُومُ ٱنكَدَرَتۡ  وَإِذَا ٱلۡجِبَالُ سُيِّرَتۡ جب سورج لپیٹا جائے گا اور ستارے سیاہ ہوجائیں گے اور پہاڑ اڑائے جائیں گے اور فرماتا ہے إِذَا ٱلسَّمَآءُ ٱنفَطَرَتۡ ١ وَإِذَا ٱلۡكَوَاكِبُ ٱنتَثَرَتۡ (جب آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے پراگندہ ہوجائیں گے اور فرماتا ہے إِذَا ٱلسَّمَآءُ ٱنشَقَّتۡ آسمان پھٹ جائے گا  كُلُّ شَيْءٍ ‌هالِكٌ ‌إِلَاّ وَجْهَهُ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ  سوائے اس کی ذات کے سب کچھ ہلاک ہونے والا ہے۔ اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم سب کا رجوع ہے) اس قسم کی آیات قرآن مجید میں بہت ہیں ۔ وہ بہت ہی جاہل ہے۔ جو ان کے فانی ہونے کا انکار کرتا ہے اور قرآن پر ایمان نہیں رکھتا اور فلسفہ کی ملمع باتوں پرمفتون ہے۔ غرض ممکنات میں عدم سابق (زمانہ سابق معدوم  ہونا)کی طرح عدم لاحق (آنے والے زمانے میں معدوم ہونا)کا ثابت کرنا بھی دین کی  ضروریات میں سے ہے اور اس پر ایمان لانا لازم ہے اور یہ جوبعض علماء نے کہا ہے کہ سات چیزیں یعنی عرش و کرسی ولوح قلم و بہشت و دوزخ وروح فانی نہ ہوں گے تو اس کے یہ معنی ہیں۔ کہ یہ فنا قبول نہیں کرتے اور زوال کی قابلیت نہیں رکھتےحاشا وكلا بلکہ قادرمختار جل شانہ کااختیار ہے جس کو چاہے وجود کے بعد فانی کرے اور جس کو چاہے خاص مصلحتوں اورحکمتوں کے لیے باقی رکھے۔وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُإِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ (جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہےفرماتا ہے) اس بیان سےواضح ہوا کہ عالم بمعہ اپنے تمام اجزا کے اپنے وجود و بقاء میں واجب تعالی کی طرف منسوب ہے اور اس کامحتاج ہے کیونکہ بقا سے مراد دوسرے اور تیسرے زمانہ میں جہاں تک اللہ تعالیٰ  کو منظور ہواسی وجود کے نفس کا استقرار ہے اور کوئی امرزائد اس وجود پر نہیں جوبقا سےمسمی ہو پس نفس وجود اور استقرار وجود دونوں حق تعالیٰ  کے ارادہ پر موقوف ہیں۔ عقل فعال کیا ہے جو اشیاء کا سرانجام کر سکے اور حوادث اس کی طرف منسوب ہوسکیں۔ عقل فعال کے اپنے نفس وجود اور ثبوت میں ہزاروں اعتراض ہیں کیونکہ اس کا ثبوت اور حصول فلسفہ کے چندطمع اور جھوٹے مقدمات پر مبنی ہے جو سب کے سب اسلام حقہ کے مقابلہ میں ناتمام و نافرجام ہیں۔ وہ بڑاہی بے وقوف ہے جو اشیاء کو قادر مختار کی طرف سے ہٹا کر ایسے امر موہوم کی طرف منسوب کرے بلکہ اشیاء کے لیے ننگ و عار ہے کہ فلسفہ کے تراشیدہ اور خود ساختہ امر کی طرف منسوب ہوں بلکہ اشیاء کے لیے بہتر ہے کہ اپنے عدم پر راضی اور خوش رہیں اور ہر گز وجود کی خواہش نہ کریں بنسبت اس کے کہ ان کے وجود کو سفطہ کے اپنے بنائے ہوئےوہمی امر کی طرف منسوب کیا جائے اور قادر مختارجل شانہ کی طرف منسوب ہونے کی سعادت سے محروم رہیں۔ كَبُرَتۡ كَلِمَةٗ تَخۡرُجُ مِنۡ أَفۡوَٰهِهِمۡۚ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبٗا بہت بڑی بات ہے جوان کے مونہوں سے نکلتی ہے وہ نہیں کہتے مگر جھوٹ)

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ168ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں