عقائد کو درست کرنے اور احکام فقہیہ مکتوب نمبر193دفتر اول

 فرقہ اہل سنت و جماعت کی آراء کے موافق عقائد کو درست کرنے اور احکام فقہیہ یعنی حلال و حرام و فرض واجب و سنت و مندوب مکروه (جن کا علم فقہ ذمہ دار ہے) کے سیکھنے کی  ترغیب میں اور اسلام کی غربت(بیچارگی) اور اس کی تائید و ترقی کے لئے برانگیختہ کرنے کیلئے بیان میں سیادت پناه شیخ فرید کی طرف لکھا ہے۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَللهُ تَعَالیٰ نَاصِرُكُمْ وَمُعِیْنُکُمْ عَلىٰ كُلِّ مَا يَعِیْبُکُمْ وَ یَشِیْنُکُمْ حق تعالیٰ اس چیز پر جو آپ کو عیب دار اور داغ دار کرے آپ کا مددگار اور معاون رہے۔ 

ارباب تکلیف پر پہلے نہایت ضروری ہے کہ علمائے اہل سنت و جماعت شکر اللہ تعالیٰ سعیہم کی آراء کے موافق اپنے عقائد کو درست کریں کیونکہ عاقبت کی نجات انہی بزرگواروں کی بے خطاآراء کی تابعداری پر موقوف ہے اور فرقہ ناجیہ بھی یہی لوگ اور ان کے تابعدار ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو آنحضرت ﷺاور ان کے اصحاب کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کے طریق پر ہیں اور ان علوم سے جو کتاب وسنت سے حاصل ہوئے ہیں وہی معتبر ہیں جو ان بزرگواروں نے کتاب وسنت سے اخذ کئے ہیں اورسمجھے ہیں کیونکہ ہر بدعت اور گمراہ بھی اپنے فاسد عقائد کو اپنے خیال فاسد میں کتاب و سنت ہی سے اخذ کرتا ہے ۔ پس انکے مفہومہ معانی میں سے ہر معنی پر اعتبارنہ کرنا چاہیئے اور ان عقائد حقہ کی درستی کیلئے امام اجل نور پشتی کا رسالہ بہت مناسب اور آسان فہم ہے۔ اپنی مجلس شریف میں اس کا ذکر کرتے رہا کریں لیکن رسالہ مذکورہ چونکہ استدلال پرمشتمل ہے اور اس میں طول و بسط (طویل و وسیع )بہت ہے اس لئے کوئی ایسا رسالہ جوصرف مسائل کی کو شامل ہو بہتر اور مناسب ہے۔ اسی اثناء میں فقیر کے دل میں گزرا کہ اس باے میں ایک رسالہ لکھے جو اہل سنت و جماعت کے عقائد پرمشتمل ہو۔ اگر ہو سکا تو جلدی ہی لکھ کر خدمت میں بھیج دیا جائے گا۔ 

ان عقائد کو درست کرنے کے بعد حلال و حرام وفرض و واجب و سنت و مندوب ومکروہ( جن علم فقہ ذمہ دار ہے)کا سیکھنا اور اس علم کے مطابق عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔ بعض طالبوں کو فرمائیں کہ فقہ کی کتاب جوفارسی عبارت میں ہو مثل مجموعہ خوانی اور عمدة الاسلام کومجلس میں پڑھتے رہا کریں اور اگر ‌نَعُوذُ ‌بِاللَّهِ ‌ضروری اعتقادی مسائل میں سے کسی مسئلہ میں خلل پڑ گیا تو نجات آخرت کی دولت سے محروم ہوگیا اور اگر عملیات میں سستی واقع ہوجائے تو ہوسکتا ہے کہ توبہ ہی سے معاف کر دیں اور اگر مواخذہ بھی کریں گے تو پھر بھی نجات تو ہوہی جائے گی۔ پس عمدہ کام عقائد کا درست کرنا ہے۔ 

حضرت خواجہ احرار قدس سرہ سے منقول ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر تمام احوال و مواجید ہمیں دے دیں اور ہماری حقیقت کو اہل سنت و جماعت کے عقائد کے ساتھ آراستہ نہ کریں تو سوائے خرابی کے ہم کچھ نہیں جانتے اور تمام خرابیوں کہ ہم پر جمع کر دیں لیکن ہماری حقیقت کو اہل سنت و جماعت کے عقائد سے نوازش فرمائیں تو پھر کچھ خوف نہیں رکھتے

ثَبَّتَنَا اللهُ سُبْحَانَهٗ وَاِيَّاكُمْ عَلىٰ طَرِيْقَتِهِمُ الْمَرْضِيَّةِ بِحُرْمَةِ سَيِّدِ الْبَشَرِ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ اَکْمَلُھَا الله تعالیٰ ہم کو اور آپ کو سید المرسلین علیہ التحیات والتسلیم کے طفیل طریقہ پسندیدہ پر ثابت قدم رکھے۔ 

ایک درویش لاہور کی طرف سے آیا ہوا تھا اس نے بیان کیا کہ جو پانی منڈی کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کیلئے حاضر ہوئے تھے۔ اور میاں رفیع الدین نے آپ کی التفات کے اظہار کے بعد کہا کہ نواب شیخ جیو نے اپنی حویلی میں جامع مسجد بنائی ہے۔ الْحَمْدُ ‌لِلَّهِ ‌عَلَى ذَلِكَ حق تعالیٰ آپ کو زیادہ توفیق عنایت فرمائے ۔مخلصوں اور یاروں کی اس قسم کی باتیں سن کر بہت ہی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ 

میرے سیادت پناه کرم ! آج اسلام بہت غریب ہورہا ہے۔ آج اس کی تقویت میں ایک چیتل(دمڑی)  کا صرف کرنا کروڑ ہا روپوں کے بدلے قبول کرتے ہیں ۔ دیکھیں کون سے بہادر کو اس دولت عظمی سے مشرف فرماتے ہیں ۔ دین کی ترقی اور مذہب کی تقویت ہر وقت خواہ کسی سے وقوع میں آئے بہتر اور زیبا ہے لیکن اس وقت میں کہ اسلام غریب ہوتا جاتا ہے اہل بیت کے آپ جیسے جوانمردوں سے نہایت ہی زیبا اور خوب ہے ۔ کیونکہ یہ دولت آپ جیسے بزرگوں کے خاندان کی خانہ زاد ہے۔ اس کا تعلق آپ سے ذاتی ہے اور دوسروں سے عارضی حقیقت میں نبی علیہ و آلہ والصلوۃ والسلام کی وراثت اس عظیم القدر امر کے حاصل کرنے میں ہے۔ حضرت نبی ﷺ نے اصحاب کومخاطب کرتے کر کے فرمایا کہ تم ایسے زمانہ میں موجود ہوتے ہو کہ اگر اوامر و نواہی میں سے دسویں حصہ کوترک کرو تو ہلاک ہو جاؤ اور تمہارے بعد ایسے لوگ آئیں گے کہ اوامر ونواہی میں سے دسویں حصہ کو بجا لائیں گے تو خلاصی پائیں گے اب یہ وقت وہی وقت ہے اور یہ لوگ وہی لوگ ہیں ۔ 

گوئے توفیق و سعادت در میان افگنده اند کس بمیداں در نمی آید سواراں را چہ شد 

ترجمہ: پڑامیدان میں ہے گیند توفیق و سعادت کا ہوا کیا ہے سواروں کو کوئی آگے نہیں بڑھتا ۔

کافر لعین گوبند(ہندو) اور اس کی اولاد کا مارا جانا بہت خوب ہوا اور ہنود ومردود کی بڑی شکست کا باعث ہوا۔ خواہ کسی نیت سے اس کو کیا ہو اور خواہ کسی غرض سے اس کو ہلاک کیا ہو۔ بہرحال کفار کی خواری اور اہل اسلام کی ترقی ہے۔ 

اس فقیر نے اس کا فر کے قتل ہونے سے پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ بادشاہ وقت نے شرک کے سر کی کھوپڑی کوتوڑا ہے۔ واقعی وہ بہت بت پرست اہل شرک کاررئیس اور اہل کفر کا امام تھا۔ خَذَلَھُمُ اللہ ُسُبْحَانَہٗ ۔ اللہ تعالیٰ ان کو خوار کرے۔ 

اور دین و دنیا کے سردار علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بعض دعاؤں میں اہل شرک کو اس عبارت میں لعنت و نفرین فرمائی ہے۔ 

اَللّٰهُمَّ شَتِّتْ شَمْلَهُمْ وَفَرِّقْ جَمْعَهُمْ وَخَرِّبْ بُنْیَانَهُمْ وَخُذْهُمْ أَخْذَ عَزِيزٍ ‌مُقْتَدِرٍ يا الله تو ان کی جمعیت کو پراگندہ کر اور ان کی جماعت میں تفرقہ (انتشار ) ڈال اور ان کے گھروں کو ویران کر اور ان کو ایسا پکڑ جیسا غالب طاقتور پکڑتا ہے۔ 

اسلام اور اہل اسلام کی عزت کفر اور اہل کفر کی خواری میں ہے۔ جزیہ سے مقصود کفار کی خواری اور ان کی اہانت ہے جس قدر اہل کفر کی عزت ہو اسی قدر اسلام کی ذلت ہے ۔ اس سرشت(خاصیت) کو اچھی طرح نگاہ میں رکھنا چاہیئے ۔ اکثر لوگوں نے اس سرشتہ کوگم کر دیا ہے اور بدبختی سے دین کو برباد کر دیا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ ‌وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (اے نبی کفار اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پرسختی کرو)کفار کے ساتھ جہاد کرنا اور ان پر سختی کرنا دین کی ضروریات میں سے ہے ۔ کفر کی باقی رسمیں جو پہلے زمانہ میں پیدا ہوئی تھیں ۔ اس وقت کے بادشاہ اسلام(جہانگیر) کو اہل کفر کے ساتھ وہ توجہ نہیں رہی۔ مسلمانوں کے دلوں پر بہت گراں اور بھاری معلوم ہوتی ہیں ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ بادشاہ اسلام کو ان بد مذہبوں کی رسموں کی برائی سے اطلاع بخشیں اور ان کے دور کرنے میں کوشش کریں شاید بادشاہ کو ان بقایا رسوم کی برائی کا علم نہ ہو اور اگر وقت کے لحاظ سے مناسب سمجھیں تو بعض علمائے اہل اسلام کو اطلاع دیں تا کہ وہ آکراہل کفر کی برائی ظاہر کریں ۔ کیونکہ احکام شرعی کی تبلیغ کے لئے خوارق و کرامات کا اظہار کرنا کچھ درکار نہیں ۔ قیامت کے دن کوئی عذر نہ سنیں گے کہ تصرف کے بغیر احکام شرعی کی تبلیغ نہیں کی۔ 

انبیا علیہم الصلوۃ والسلام جو بہترین موجودات ہیں جب احکام شرعی کی تبلیغ کرتے تھے اور امت کے لوگ معجزہ طلب کرتے تو فرماتے تھے کہ معجزات خدا کی طرف سے ہیں ہم پر احکام کا پہنچانا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس وقت(تبلیغ کے دوران) شاید حق تعالیٰ ایساامر (کرامت)ظاہر کر دے جو ان لوگوں کے حق ہونے کے اعتقاد کا باعث ہو جائے بہرحال (بادشاہ کو)مسائل شرعیہ کی حقیقت سے اطلاع دینا ضروری ہے۔ جب تک یہ واقع نہ ہو اس امر کی ذمہ داری علماء اور بادشاہ کی بارگاہ کے مقربوں پر ہے۔ یہ کس قدر بڑی سعادت ہے کہ اس گفتگو(احکام شرعیہ پہنچانے میں) میں کسی جماعت کو تکلیف پہنچے۔ 

انبیا علیہم الصلوۃ والسلام نے احکام کی تبلیغ میں کون سی تکلیفیں ہیں جو برداشت نہیں کیں اور کیسی کیسی مصیبتیں ہیں جو ان کے پیش نہیں آئیں۔ 

انبیا علیہم الصلوۃ والسلام میں سے بہتر و مہتر علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مَا ‌أُوذِيَ ‌نَبِيٌّ مِثْلَ مَا أُوذِيتُ (جس قدر مجھے ایذ ادی گئی ہے کسی اور نبی کوو یسی ایذ انہیں دی گئی۔

عمربگذشت وحدیث دردما آخر نشد شب بآ خر شد کنوں کوتاه کنم افسانه را

عمر گزری پر نہ قصہ درد کا آخر ہوا  رات آخر ہوئی کرتا ہوں افسانہ کو بس 

والسلام۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ50ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں