محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔
اے راستے کی عمارتوں کے بچو! (راہ طریقت کے چلنے والو! ) ۔ ظاہر تو دایہ ہے جبکہ باطن کی طرف نظر کر نا دودھ کا چھوڑ نا ہے، جب تک تیری ماسوا اللہ سے پہچان رہے گی ، تب تک انہیں تیری پہچان رہے گی تو سراپا ہوس ہے، کبھی تو ان کی اتباع کرے گا اور کبھی ان کے سامنے جھکے گا۔ اس گھر (ولایت) کی طرف دو راستے ہیں ( شریعت اور طریقت) ولایت کی تین علامتیں ہیں:
اللہ کے بھروسے پر ہر چیز سے بے نیازی کرنا ہر چیز کو ترک کر کے اللہ تعالی پر قناعت کرنا، ہر چیز میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا ، اگر تیرانفس ولایت کے ہزار دعوے کرے، تو اس کی ان خصلتوں کے ساتھ پکڑ کر اگر تو ایسا نہ کر سکے تو تو ولی نہیں، کسی عالم کے لئے اس کے بغیر بادشاہوں پر داخل ہونا زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے ایمان وایقان کو مضبوط کر لے، ہ اللہ کے ساتھ اس کے عمل اور زہد کی قوت پوری ہو جائے ،
اللہ کی معرفت اور اس کا انس اس میں راسخ ہو جائے ، ایسی حالت میں عالم بادشاہوں کے ہاں قوتوں کے ساتھ جائیں گے اورقوتوں کے ساتھ باہرآ ئیں گے ۔ سید ناغوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ میں ایک بزرگ کی خدمت میں رہا کرتا تھا، وہ میرے بارے میں گزرے ہوئے اور آئندہ کے واقعات بتا دیا کرتے تھے، ان کے پاس ایک خوبصورت لڑکا رہتا تھا ، ان کا بادشاہوں کے پاس آنا جانا رہتا تھا، اس وجہ سے میرے دل میں یہ خطرہ خیال آیا کہ اللہ کے ولی کی یہ شان نہیں ، اس بزرگ نے میرے دل کے اس خطرے پر ارشادفرمایا: یہ لڑ کا خانقاہ میں رہتا ہے اور مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اگر اسے خانقاہ میں چھوڑ جاؤں تو لوگ اس کی وجہ سے ہلاکت میں نہ پڑ جائیں، لیکن بادشاہوں کے پاس جانے کا مقصد میری کوئی حاجت نہیں ہے بلکہ انہیں نصیحت کرنا ہے اور انہیں عدل وانصاف کی راہ بتانا ہے‘‘۔ بزرگوں کے ساتھ تمہاری صحبت میں خلل ہے، جبکہ ہم ان کی صحبت میں ادب کے ساتھ رہتے ہیں۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 728،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور