رستے کی لمبائی اور علوم حقیقت کو علوم تربیت کے ساتھ مطابق کرنے کے بیان میں اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے:۔
کمترین بنده احمد عرض کرتا ہے۔ افسوس ہزار افسوس! یہ راستہ کس قدر نہایت اور لمبا ہے – سیراسں جلدی سے اور واردات و عنایات اس کثرت سے اسی وجہ سے مشائخ عظام نے فرمایا ہے کہ سیرا اللہ پنجاه ہزار سال کا رستہ ہے۔ تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (چڑھیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح اس دن میں جس کا طول پچاس ہزار برس ہے) اس میں شاید انہی معنوں کی طرف اشارہ ہے۔ جب کام نا امیدی تک گیا اور امید میں منقطع ہو گئیں۔ وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ (خدا تعالی وہ ذات پاک ہے جو نا امیدی کے بعد بارش نازل فرماتا اور رحمت عام پھیلاتا ہے) یعنی خداوند تعالی مدد گار ہوا۔
چند روز ہوئے ہیں کہ اشیاء میں سیر واقع ہوا ہے اور طالبوں اور مریدوں نے پھر ہجوم کیا ہے۔ ان کا کام شروع کیا گیا ہے لیکن ابھی اپنے آپ کو اس مقام کے قابل نہیں پاتا ۔ لیکن لوگوں کے اصرار سے مروت و حیات کے باعث کچھ نہیں کہتا اور مسئلہ توحید میں جو پہلے متردد تھا۔ جیسا کے کئی دفعہ عرض کیا گیا تھا اور افعال و صفات کو اصل سے جانتا تھا جب اصل حقیقت معلوم ہوئی وہ تر دد دور ہو گیا اور ہمہ از دوست(ہر شے کا وجود حق(اللہ) سے ہے) والا پلہ ہمہ اوست(سب کچھ وہی ہے) کے مقولہ سے غالب معلوم کیا اور اس میں کمال زیادہ دیکھا اور افعال و صفات کو بھی اور ہی رنگ میں معلوم کیا ۔ سب کو ایک ایک کر کے دکھایا اور اوپر کوگزر کرایا اور شک وشبہ بالکل دور ہو گیا اور تمام کشفی علوم ظاہر شریعت کے مطابق ہوگئے اور ظاہر شریعت سے سرمو مخالفت نہ دیکھی اور یہ جو بعض صوفیہ کشفوں کو ظاہر شریعت کے مخالف بیان کرتے ہیں ۔ یا سہو سے ہے یا سکر کی وجہ سے ۔ باطن ظاہر کے کچھ مخالف نہیں ہے۔ اثنائے راہ میں سالک کو مخالفت نظر آتی ہے اور تو جیہ اور جمع کی طرف محتاج ہوتا ہے لیکن منتہی حقیقی باطن کو ظاہر شریعت کے موافق معلوم کرتا ہے۔
علماء اور ان بزرگواروں کے درمیان اس قدر فرق ہے کہ علماء از روئے دلیل اور علم کے جان لیتے ہیں اور یہ بزرگوار روئے کشف اور ذوق کے پا لیتے ہیں اور ان کی صحت حال پر اس مطابقت سے بڑھ کر مدلل دلیل اور کونسی ہے ۔ يَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيشامل حال ہے۔ میں نہیں جانتا کیا عرض کروں ۔ بعض احوال کے لکھنے کی توفیق نہیں رکھتا اور خطوں میں بھی ان کے لکھنے کی گنجائش نہیں۔ شاید اس میں کوئی حکمت ہوگی۔ اس ہجر کے مارے مرحوم کو غریب پروری کی توجہ سے محروم نہ رکھیں اور راہ میں نہ چھوڑیں ۔
این سخن را چوں تو مبدابودہ گرفزوں گردو تواش افزودہ
ترجمہ: اس سخن کی جب ہے تجھ سے ابتداء گر زیادہ ہو تو پھر ڈر کیا
زیادہ گستاخی معاف نہیں۔ ع بنده باید کہ حد خودداند
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ32 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی