عیدالفطر کے فضائل و آداب

رمضان المُبارک میں بندوں نے جو مشقتیں جھیلی ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ عید الفطر کی شب  اور اُس  کے دن میں بندوں کو  اُس کا صلہ عطاء فرماتے ہیں، اِسی لئے عید الفطر کی شب کو ” لَيْلَةُ الْجَائِزَةِ “یعنی انعام ملنے والی رات اور اُس کے دن کو ” يَوْمُ الْجَوَائِزِ “ یعنی انعام ملنے والا دن کہا جاتا ہے ۔اور اِسی انعام کے ملنے پر بندوں کے لئے یہ خوشی کا دن ٹہرا تاکہ بندےاللہ تعالیٰ کی جانب سے ملنے والے عظیم صلے پر خوشی منائیں ، اور یہ خوشی کا دن ”مذہبی تہوار“ کی حیثیت رکھتا ہے ، چنانچہ آپﷺنے اِس دن کے بارے میں اِرشاد فرمایا:هَذَا عِيْدُنَا۔یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری:952)

عید الفطر کے فضائل :

 پہلی فضیلت :عید الفطر کا دن انعام ملنے والا دن ہے :

جس طرح عید الفطر کی رات کو ”لیلۃ الجائزہ“ کہا جاتا ہے اِسی طرح عید الفطر کے دن کو ”یوم الجوائز“ ”انعامات ملنے والا دن“ کہا جاتا ہے ، کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ پورے مہینے کا انعام دے رہے ہوتے ہیں، حضرت ابن عباس﷜سے موقوفاً مَروی ہے :

 عید کا دن ”یوم الجَوَائِز“ یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔يَوْمُ الْفِطْرِ يَوْمُ الْجَوَائِزِ۔(کنز العمال :24540)

دوسری  فضیلت :عید الفطر مسلمانوں کا مذہبی  طور پر خوشی کا دن ہے : 

نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے : بے شک ہر قوم کے لئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا۔(بخاری:952)

تیسری  فضیلت :عید الفطر کا دن اللہ تعالیٰ کی رضاء و مغفرت اور دعاء کی قبولیت کا دن ہے:  ایک طویل حدیث میں عید کے دن کا بڑا پیارا نقشہ کھینچا گیا ہے جسے پڑھ کر کسی قدر محسوس کیا جاسکتا ہے ہے کہ عید کے دن  اللہ تعالیٰ رحمت  کس قدر جوش میں ہوتی ہے ، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اِس انعام والے دن کیا کچھ نوازتے ہیں ،چنانچہ فرمایا: جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہر وں بھیجتے ہیں، وہ زمین میں اُتر کر تمام گلیوں ، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور آخرت کے بارے میں جو سوال کروگےوہ میں عطاء کروں گااور جو اپنی دنیا کے بارے میں سوال کروگے اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا ، میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا خیال رکھوگےمیں تمہاری لغزشوں پر ستاری (یعنی پردہ پوشی کا معاملہ)کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا رہوں گا )میری عزّت کی قسم! اور میرے جلال کی قسم!میں تمہیں مجرموں (اور کافروں)کے سامنے رسوا اور ذلیل نہ کروں گا ، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا ، پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر جو امّت کو افطار کے دن( رمضان کے ختم ہونے کے دن )ملتا ہے ،خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ (شعب الایمان : 3421)

شبِ عید میں عبادت کا اہتمام  :

ایک عظیم اور قیمتی عمل جس سے اکثر لوگ غافل اور بے فکر نظر آتے ہیں ، وہ ”عید ین(عید الفطر اور عید الاضحی) کی شب  کی عبادت“ ہے ، عید کی تیاریوں کے نام پر بکثرت لوگ شاپنگ مال اور مارکیٹس میں یا عید الاضحیٰ میں جانور کی خریداری ،اُس کی پرورش اور دیگر تفریحات و مشغولیات میں لگ کر یہ عظیم اور بابرکت رات گنوادیتے ہیں  حالآنکہ یہی تو وہ رات ہے جس میں تمام رمضان بھر کے اعمال کی مزدوری دی جاتی ہے ، اجر و ثواب کے خزانے اور مغفرت و رحمت کی بیش بہا دولت بکھیری جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندوں پر خاص لطف و کرم اور احسانِ عمیم کا معاملہ کیا جارہا ہوتا ہے۔

کس قدر محرومی اور خسارے کی بات ہے کہ سارے دن کام کرنے کے بعد  شام کو جب مالک کی جانب سے اجرت ملنے کا وقت ہو تو انسان اُس سے اعراض کرتے ہوئے رو گردانی کرکے بیٹھ جائے ۔  اِس لئے اِس انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے،پکارتے ہیں کہ اے محمد (ﷺ)کی امّت !اس کریم رب  کی (درگاہ)کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطاء فرمانے والا ہے اور بڑے بڑے قصور کو معاف فرمانےوالا ہے ، پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں : کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو ، وہ عرض کرتے ہیں : ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اُس کا بدلہ یہی ہےکہ اُس کی مزدوری پوری پوری دیدی جائے، تو اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں : اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے اُن کو رمضان کے روزوں اورتراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطاء کردی اور بندوں سے خطاب فرماکر اِرشاد ہوتا ہے:اے میرے بندو! مجھ سے مانگو ، میری عزّت کی قسم ، میرے جلال کی قسم !آج کے دن اپنے اس اجتماع میں اپنی رات کی قدر دانی کرتے ہوئےاِس شب کو قیمتی بنانا چاہیئے اور اُس اجر و ثواب کے حصول کے لئے مُشتاق ہونا چاہیئے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندوں کو دیا جاتا ہے ۔ذیل میں اِس شب کے فضائل ذکر کیے جارہے ہیں : 

شبِ عید کے فضائل :

عیدین کی شب میں عبادت کی بڑی فضیلت منقول ہے ، چند ملاحظہ فرمائیں :

پہلی فضیلت :عید الفطر کی رات انعام والی رات  ہے :

رمضان المُبارک کے اختتام پر آنے والی شب یعنی عید الفطر کی رات  یہ ایک بابرکت رات ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے انعام ملنے والی رات ہے ، چنانچہ حدیث میں اس کو ”لیلۃ الجائزہ“یعنی انعام ملنے والی رات کہا گیا ہے ، ، اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس رات میں بندوں کو پورے رمضان کی مشقتوں اور قربانیوں کا بہترین صلہ ملتا ہے۔سُمِّيَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةُ لَيْلَةَ الْجَائِزَةِ.(شعب الایمان : 3421)

دوسری  فضیلت :عیدین کی شب میں عبادت کرنے والے کا دل قیامت کے دن مردہ نہیں ہوگا :

حضرت ابوامامہ ﷜فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا : جس عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی)کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مُردہ ہوجائیں گے۔مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ.(ابن ماجہ:1782)مَنْ صَلَّى لَيْلَةَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ.(طبرانی اوسط:159)

تیسری فضیلت :عیدین کی  شب میں  عبادت کرنے والے کے لئے جنت کا  واجب ہونا:

حضرت معاذ بن جبل﷜ نبی کریمﷺسے نقل فرماتے ہیں : جو چار راتوں  کو عبادت کے ذریعہ زندہ کرےاُس کے لئے جنّت واجب ہوجاتی ہے :  لیلۃ الترویۃ یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات، عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کی رات ، لیلۃ النحر یعنی دس ذی الحجہ کی رات اور لیلۃ الفطر یعنی عید الفطر کی شب ۔مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِيَ الْأَرْبَعَ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ:لَيْلَةُ التَّرْوِيَةِ وَلَيْلَةُ عَرَفَةَ وَلَيْلَةُ النَّحْرِ وَلَيْلَةُ الْفِطْرِ۔(أخرجہ ابن عساکر فی تاریخہ :43/93)

الترغیب و الترھیب کی روایت میں پانچ راتیں ذکر کی گئی ہیں ، جن میں سے چار تو وہی ہیں اور پانچویں شعبان کی پندرہویں شب یعنی شبِ براءت ہے۔من أَحْيَا اللَّيَالِيَ الْخَمْسَ وَجَبت لَهُ الْجنَّة لَيْلَة التَّرويَة وَلَيْلَة عَرَفَة وَلَيْلَة النَّحْر وَلَيْلَة الْفطر وَلَيْلَة النّصْف من شعْبَان۔(الترغیب و الترھیب: 1656)

چوتھی  فضیلت :عیدین  کی شب میں کی جانے والی دعاء رد نہیں ہوتی:

حضرت عبد اللہ بن عمر﷠سے موقوفاً مروی ہے کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعاء کو ردّ نہیں کیا جاتا : جمعہ کی شب ، رجب کی پہلی شب ، شعبان کی پندرہویں شب ، اور دونوں عیدوں(یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی راتیں۔خَمْسُ لَيَالٍ لَا تُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءَ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ۔(مصنف عبد الرزاق :7927)

عید ین کے سنن و مستحبات:

عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن مندرجہ ذیل  چند  چیزیں مسنون اور مستحب ہیں اُن کا اہتمام کرنا چاہیئے :

(1)عید کے دن جلدی جاگنا ،تاکہ جلدی تیاری کرکے عید گاہ پہنچا جاسکے۔

(2)غسل  کرنا ۔

(3)مسواک کرنا ۔

(4)اپنے کپڑوں میں سے عُمدہ اور اچھے کپڑے پہننا،خواہ نئے ہوں یا دھلے ہوئے ،البتہ سفید کپڑے بہتر ہیں ۔

(5)خوشبو لگانا۔

(6)عید گاہ میں نمازِ عید اداء کرنا ۔

(7)عید گاہ جلدی جانا ۔

(8)صدقہ فطر نماز سے پہلے اداء کردینا ۔

(9)عید گاہ پیدل جانا ۔

(10)آنے جانے کا راستہ بدلنا ۔

(11)عید گاہ جانے سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں کھانا، کھجور نہ ہوتو کوئی بھی میٹھی چیز کھائی جاسکتی ہے۔

(12)عید الاضحیٰ میں عید گاہ جانے سے پہلے کچھ نہ کھانا،بلکہ بہتر ہے کہ اگر ممکن  ہو تو عید کی نماز کے بعد اپنے قربانی کے گوشت سے کھانے کی ابتداء کرنا ۔

(13)وقار و اطمینان کے ساتھ جانا جن چیزوں کو دیکھنا جائز نہیں ان سے آنکھیں ہٹانا اور نیچی نگاہ رکھنا۔

(14)عیدالفطر کے لئے جاتے ہوئے عید گاہ پہنچنے تک  راستہ میں آہستہ اور عیدالاضحٰی کے لئے جاتے ہوئے بلند آواز سے تکبیر کہتے جانا۔”اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد“۔

(15)عیدین کی نماز سے واپس آنے کے بعد گھر پر چار رکعت یا دو رکعت نفل پڑھنا، چار رکعت افضل ہے۔(عالمگیری:1/149، 150)(شامیہ:2/168)

عید گاہ میں نماز اداء کرنا :

حضرت ابوسعید خدری﷜فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺعید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن(نماز پڑھنے کیلئے)عید گاہ جایا کرتےتھے۔كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الفِطْرِ وَالأَضْحَى إِلَى المُصَلَّى۔(بخاری:956)

عید کی نماز سے پہلےصدقہ فطر نکالنا :

حضرت عبد اللہ بن عمر﷠سے مَروی ہے کہ رسول اللہﷺ عید الفطر کے دن عید کی نماز کیلئے جانے سے پہلےزکوۃ(صدقہ فطر)نکالنےکا حکم دیا کرتے تھے۔كَانَ يَأْمُرُ بِإِخْرَاجِ الزَّكَاةِ قَبْلَ الغُدُوِّ لِلصَّلَاةِ يَوْمَ الفِطْرِ۔(ترمذی:677)

 اچھے سے اچھا کپڑا اور اچھی سی اچھی خوشبو کا اہتمام :

حضرت حسن بن علی﷜ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے ہمیں اس بات کا حکم دیا کہ ہم عیدین میں وہ بہترین کپڑا جو ہم پاسکتے ہیں وہ پہنیں ،اور وہ بہترین خوشبو جو حاصل کرسکتے ہیں وہ لگائیں اور وہ فربہ اور عمدہ جانور جو ہم کرسکتے ہیں اُس کی قربانی کریں۔گائے اور اونٹ کی قربانی  سات افراد کی جانب سےہوسکتی ہے، اور ہمیں اِس بات کا حکم دیا کہ ہم (عید گاہ جاتے ہوئے)تکبیر کو ظاہر کریں  اور(اِس حالت میں عید گاہ جائیں کہ)ہمارے اوپر سکون و وقار ہو۔أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَلْبَسَ أَجْوَدَ مَا نَجِدُ، وَأَنْ نَتَطَيَّبَ بِأَجْوَدَ مَا نَجِدُ، وَأَنْ نُضَحِّيَ بِأَسْمَنِ مَا نَجِدُ، وَالْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْجَزُورُ عَنْ سَبْعَةٍ، وَأَنْ نُظْهِرَ التَّكْبِيرَ، وَعَلَيْنَا السَّكِينَةُ وَالْوَقَارُ۔(شعب الایمان:3442)

عیدین کا وقت :

وقتِ جائز :   

  سورج کے ایک نیزہ بلند ہونے سے زوال  سے پہلےتک عیدین کی نماز کا وقت ہے۔

وقتِ مستحب : 

افضل یہ ہے کہ نمازِ عید الاضحیٰ  میں جلدی کی جائے تاکہ قربانی میں جلدی کریں اور نمازِ عید الفطر میں دیر کی جائے تاکہ صدقہ فطر ادا کر سکیں۔(شامیہ:2/171)(عالمگیری:1/150)

حضرت ابی الحویرث ﷜راوی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے حضرت عمرو بن حزم کو جو نجران میں تھے یہ حکم لکھ کر بھیجا کہ بقر عید کی نماز جلدی اور عید  الفطرکی نماز تاخیر سے ادا کرو نیز (خطبہ میں) لوگوں کو پند و نصیحت کرو۔أَخْبَرَنِي ابْنُ الْحُوَيْرِثِ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺكَتَبَ إِلَى عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَهُوَ بِنَجْرَانَ:أَنْ عَجِّلِ الْأَضْحَى وَأَخِّرِ الْفِطْرَ وَذَكِّرِ النَّاسَ۔(مسند الشافعی:1/74)

عیدین کی نماز میں اذان و اقامت :

حضرت جابر بن سمرہ﷜فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺکےساتھ کئی مرتبہ عیدین کی نماز بغیر اذان و اِقامت کے پڑھی ہے۔صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العِيدَيْنِ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ۔(ترمذی:535)

عیدین میں نماز سے قبل خطبہ دینا :

حضرت عبد اللہ بن عمر﷠سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ،حضرت ابوبکر صدیق اور عمرفاروق﷠ عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھےاُس کے بعد خطبہ دیا کرتے تھے۔عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺوَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ يُصَلُّونَ فِي العِيدَيْنِ قَبْلَ الخُطْبَةِ ثُمَّ يَخْطُبُونَ۔ (ترمذی:531)

صدقۃ الفطر کے فضائل:

رسول الله ﷺ نے صدقہ فطر روزے داروں کو بے کار اور بے ہودہ باتوں سے پاکیزگی اور مساکین کو کھلانے ( یعنی ان کی مدد وغیرہ) کے لیے مقرر فرمایا، پس جس نے اس کو عید کی نماز سے پہلے ادا کر دیا تو یہ مقبول صدقہٴ فطر ہے او رجس نے عید کی نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقہ ہے ( یعنی عید کی نماز سے پہلے ادا کیے گئے صدقہ کے برابر فضیلت نہیں رکھتا)۔فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِطُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ۔ (ابوداؤد:1609)

حضرت جریر ﷜سے نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد منقول ہے:رمضان کے روزے آسمان اورزمین کے درمیان معلق (لٹکے) رہتے ہیں ،جنہیں(الله کی طرف) صدقہٴ فطر کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا۔صَوْم شَهْرِ رَمَضَانَ مُعَلّقٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَايُرفَعُ إِلَّا بِزَكَاةِ الْفِطْرِ۔(الترغیب و الترھیب:1653)

حضرت عبدالله بن عمر ﷠سے روایت ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا: الله کے رسولﷺنے صدقہٴ فطر کو فرض (یعنی واجب) قرار دیا اور فرمایا:” غریبوں کو اس دن غنی کر دو ( یعنی ان کے ساتھ مالی معاونت کرو)۔عَنْ نَافِعٍ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ , وَقَالَ: «أَغْنُوهُمْ فِي هَذَا الْيَوْمِ»۔(دار قطنی:2133)

فقہاء کرام فرماتے ہیں: صدقہٴفطر کی ادائیگی سے روزے قبول ہوتے ہیں ،مشکل آسان ہوتی ہے، کامیابی ملتی ہے او رموت کی سختی اور قبر کے عذاب سے نجات حاصل ہوتی ہے۔فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ ثَلَاثَةُ أَشْيَاءَ: قَبُولُ الصَّوْمِ وَالْفَلَاحُ وَالنَّجَاةُ مِنْ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔(مجمع الانہر:1/226)

عید کے دن سے پہلے بھی صدقہ فطر اداء کیا جاسکتا ہے:

عید کے دن سے پہلے بھی صدقہٴ فطر ادا کرنا جائز ہے،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر﷠کے بارے میں آتا ہے کہ وہ عید سے ایک دو دن پہلے صدقہ فطر نکال دیا کرتے تھے۔فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُؤَدِّيهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِالْيَوْمِ وَالْيَوْمَيْنِ۔(ابوداؤد:1610)

صدقہ فطر کے بارے میں پائی جانے والی چند عمومی کوتاہیاں :

(1)— یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس پر زکوۃ لازم نہیں اُس پر صدقہ فطر بھی نہیں ، حالآنکہ ایسا نہیں،بسا اوقات صدقہ فطر اُس پر بھی لازم ہوتا ہے جس پر زکوۃ لازم نہیں۔

(2)—  یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے روزے نہیں رکھے تو صدقہ فطر بھی لازم نہیں ، حالآنکہ ایسا نہیں ، صدقہ فطر اُس پر بھی لازم ہوتا ہے جس نے روزے نہ رکھے ہوں۔(عالمگیری:1/192)

(3)— بعض لوگ اپنے نابالغ  بچوں کی طرف سےصدقہ فطر اداء نہیں کرتے ، حالانکہ اُن کی جانب سے نکالنا بھی ضروری ہے۔(عالمگیری:1/192)

(4)— بعض حضرات غیر مستحق لوگوں مثلاً: پروفیشنل بھکاریوں کو کو صدقہ فطر اداء کردیتے ہیں اگرچہ وہ مستحق نہ ہوں ، یہ درست نہیں ۔صدقہ فطر کا مصرف زکوۃ کا مصرف ہے ، لہٰذا مستحقینِ زکوۃ ہی کو صدقہ فطر اداء کرنا چاہیئے۔(الدر المختار:2/368)

(5)— بعض لوگ عید کی تیاریوں اور شاپنگ وغیر میں اِس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر اداء کرنا ہی رہ جاتا ہے، یاد رکھیں ! یہ طریقہ درست نہیں ، کیونکہ عید کی نماز کے بعد صدقہ فطر اداء کرنا مکروہ ہے ، لیکن بہر حال پھر بھی اداء کرنا ضروری ہے ۔(طحطاوی علی المراقی، باب صدقۃ الفطر)

صدقہ فطر کا مستحق:

صدقہ فطر کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوۃ کے مستحق ہیں ۔(الدر المختار:2/368)

زکوۃ اور صدقہ فطر میں فرق:

زکوۃ کی ادائیگی فرض ہے ۔ صدقہ فطر کی ادائیگی واجب ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں