محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔
اے بیٹا! تو فقیراورصبر اور سلامتی کے ساتھ کسی شے کو برابر نہ کیا کر ۔تو اپنے فقر میں اللہ کے قرب سے غنی بن فقیر بن کے بے نیاز ہو جا،غنی کیونکہ سرکشی کرتا ہےاور اللہ کو بھلا ڈالتا ہے اس لئے وہ دنیا کی زندگی کو اختیار کرتا ہے، امرالہٰی کے مقابلے میں اپنی خواہش کو اختیار کرتا ہے، نفس اور طبیعت کو امرالہٰی پرترجیح دیتا ہے، روزے پر غفلت کو اختیار کرتا ہے،حرام کو حلال پرترجیح دیتا ہے، تجھ پر افسوس ہے، تیری شرم گاہ کھلی ہوئی ہے، تجھے ذرا حیا نہیں تو رسول اللہ ﷺ سے شرم کر، آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
“تو کسی شخص کے حال کوسن لے، اس سے بہتر ہوگا کہ تو اس کے پاس جائے ، اور تیرا آ نا اس سے بہتر ہوگا کہ تو اسے آزمائے ، پس جب تو اسے آزمائے گا تو تو اس کے عمل کو مبغوض رکھے گا۔ یہ ز مانہ ایسا ہے کہ تو مخلوق میں اکثر کو اپنے اوپر لعنت کرنے والا پائے گا ، بغیر باطن کے ظاہری حرف ہیں ، ویرانے پرقفل لگا ہے ،ٹیک کی گھنی ہوئی لکڑی ہے جو جلانے کے سوا کسی کام کی نہیں ہے، مؤمن دنیا میں بھی بادشاہ ہے اور آخرت میں بھی بادشاہ ہے، اس نے طاعت الہٰی کی ہے، اس کی معصیت کو چھوڑ دیا ہے، اس نے اپنی خلوت اور جلوت میں اسے ایک جانا اور مانا ہے، دنیا کو برا سمجھ کر اسے طلاق دے دی ہے، حالانکہ وہ قسمیں دیتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہتی ہے اور کہتی ہے: اے بیٹا! اپنا کھانا اور پینالیتا جا؟‘‘
وہ کہتا ہے: میں نہ کھاؤں گا جب تک کہ آخرت کے دروازے پر نہ پہنچ جاؤں، کچھ کھانے پینے کا نہیں ، اس میں زہر ملا ہوا ہے، اے ماں! جو کچھ تیرے پاس تیرے حصے کا ہے تو اسے ڈالتی جا، یہاں تک کہ آخرت کا داروغہ آ جائے اور وہ آ کر تیرے کھانے کی تفتیش کرے اور لوٹ پوٹ کرے، اور سونگھ لے، اس وقت میں اس کے ہاتھ سے کھاؤں گا‘‘ ۔
اس حالت میں آخرت تجھے دنیا کی طرف لے جائے گی ، اس کا کھانا کھلائے گی اور پانی پلائے گی ، اور دنیا اور تیرے درمیان میں قفل لگا دے گی ، تو ایسی حالت میں ہوگا کہ غیرت الہٰی کا ہاتھ عزت کے پاک ہاتھ میں تجھے پکڑ لے گا، تجھے کہاجائے گا۔
“میرے غیر کی طرف مائل ہونا کیا چیز ہے، آخرت یا تو مخلوق ہے یا کوئی مصنوعی چیز ہے تو قبل گھر کے ہمارے پاس کیوں نہ آ گیا تھا۔
یہاں تک کہ جب وہ تجھے تعلیم دے دے گا اور لباس پہنا دے گا ، اور مجھے اپنے سے مانوس کر لے گا ، اور تجھے تریاق معرفت کھلا دے گا ، اور توفیق اور تقوی و پرہیز گاری اور حفاظت کی زرہ پہنا دے گا، اس وقت تو دنیا کی طرف اس کی مصاحبت میں آئے گا، وہ تیرے لئے ایک مخصوص جگہ بنا دے گا ، اور تو د نیا اور آخرت والوں سے خطاب کیا کرے گا۔
تو اپنے مال کا کیا کرے گا، کیا وہ ایک لحظہ کے لئے تجھ سے بخار کو دفع کر سکتا ہے؟ اور ہوسکتا ہے کہ اس کے ایک لحظہ کے بعد ہی تجھے موت آ جائے ، تو اللہ والوں کے دامن سے لپٹ جا، ان کے پاس مجنون ، دنیا کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہر طرح کے لوگ ہیں ، وہ بیماروں کی دوا کرتے ہیں۔ ڈوبنے والوں کو نجات دیتے ہیں۔اہل عذاب پر رحم کیا کرتے ہیں۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 761،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور