فناو بقا کا مقام اور ہر چیز کی خاص وجہ کے ظہور حاصل ہونے اورسیرفی اللہ اور تجلی ذاتی برقی وغیرہ کی حقیقت کے بیان میں اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے:۔
کمترین بند ہ عرض کرتا ہے ۔ اپنی تقصیروں کی نسبت کیا عرض کرے ۔ ماشاء الله كان وما لم يشاء لم يكن ولاحول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم (جو کچھ الله تعالی نے چاہا ہوگیا اور جو نہ چاہانہ ہوا اور نہیں ہے گناہوں سے پھرنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت مگر اللہ تعالی بلندشان کی مددسے) .
وہ علوم جوفنا فی اللہ اور بقا باللہ کے مقام سے تعلق رکھتے تھے۔ خدائے تعالی نے اپنی عنایت سے ظاہر کر دیئے اور ایسا ہی معلوم کیا کہ بارش کی وجہ خاص کیا ہے اور سیر فی اللہ کسی معنی سے ہے اور تجلی ذاتی برقی کیا ہوتی ہے اور محمدی المشرب کون ہے۔ وغیرہ غیرہ۔ اور ہر مقام میں اس کے لوازم اور ضروریات کو دکھاتے اور ان کی سیر کراتے ہیں اور ایسی کوئی چیز نہیں رہی کہ جس کا اولیاء اللہ نے نشان دیا ہے کہ اس کو راستہ چھوڑ جائیں اور نہ دکھائیں۔قبل من قبل بلا علة (جوکوئی خدا کی درگاہ میں قبول ہوا ہے بلا سبب ہی قبول ہواہے)
جس طرح کہ اصل اشیاء کو بھی پیدا کیا ہوا اور اس کا بنایا ہوا جانتا ہے خدا تعالی قابلیتوں کا محکوم نہیں ہے اور نہ ہی کسی چیز کو اس پر حاکم ہونا چاہیئے۔ زیادہ گستاخی مناسب نہیں ۔ع
بنده باید کہ حد خود داند چاہے بندہ کو اپنی حد پہچانے
فنا فی اللہ ، بقا باللہ اور تجلی ذاتی مزید مکتوب 94 دفتر دوم اورمکتوب 64 دفتر سوم ملاحظہ فرمائیں
اقسام سیر کیلئےدفتر اول مکتوب 144 ملاحظہ فرمائیں
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ32 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی