قبورصالحین کی زیارت

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔

 کیا عجب کہ تیرادل زندہ کر دیا جاۓ:

تو علماء کی مجلس میں بکثرت جایا کر، اور قبروں اور صالحوں کی زیارت بکثرت کیا کر، کیا عجب تیرا دل زندہ کر دیا جائے ، اولیاء کرام نے احکام کی تعمیل کی اور ممنوعات سے منع رہنے کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا، اس لئے تقدیریں بھی ان کی موافقت کرتی رہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہفتے میں ایک لقمہ کھایا کرتے تھے ،۔ تیری حالت درست نہیں ہوسکتی جب تک کہ: تو سوراخ والے برتن کی طرح نہ بن جائے جس میں بہنے والی چیز نہ ٹھہر سکے۔ تواس کشتی کے مسکینوں کی طرح نہ ہو جائے جس میں کہ خضر علیہ السلام سوار ہوئے تھے، اور اسے عیب دار کر دیا تھا،پھر تجھ پر ایک حالت طاری ہوگی ، ایک حالت وہ جس میں جمعیت ہوتی ہے، ایک حالت وہ جس میں تفرقہ وانتشار ہوتا ہے۔ ایک حالت میں قلت اور ایک میں کثرت ہوگی ، ثابت قدمی کی ضرورت ہے، جو کوئی میرے سامنے سے دوزخ کی طرف چلا گیا اللہ تعالی اس پر رحم نہ فرمائے گا ۔ اللهم عفوا ، اللهم سترا اللهم ثباتا اللهم رضا ده ای! معاف فرما! -الہی پردہ پوشی فرما، الہی! ثابت قدمی فرما! الہٰی! اپنی رضامندی عطا فرما! — آمین!‘‘

جب تو اللہ تک پہنچ جائے گا ، وہ صرف فرض ادا کرنے پر اکتفا کر لے گا نوافل کی ضرورت مند رہے گی ۔ بادشاہ کا باورچی بوڑھا ہو گیا ، اس کی عقل ونظر ، سننے اور ہاتھوں میں حرکت کی طاقت باقی نہ رہی، بادشاہ نے اسے جو وظیفہ اس کی تندرست حالت میں دیتا تھا ، اس حالت کے طاری ہونے پر وہی وظیفہ برقرار رکھا۔ اے اپنے گمان پر سچے مرید! – تجھے اللہ کی قسم ہے یہ بتا کہ تو اپنی روزی میں اپنے پڑوسی کو کب ترجیح دے گا ، اپنی قمیص اور عمامے اورمصلے کے ساتھ دوسروں پر کب ایثار کرے گا ، قمیص عمانے اور مصلے پر کب ایثار گا۔ اپنے مال کا دوسروں پر کب ایثار کرے گا،

اولیاء اللہ نے اپنے نفسوں اور طبیعتوں اور خواہشوں کو پگھلا دیا ، اور اپنے کھانے پینے کو بھلا دیا حتی کہ وہ معنوی طور پر مر گئے اور فنا ہو گئے ، قدرت کا ہاتھ ان کا متولی بنا، اور وہ اصحاب کہف کی مانند ہو گئے، تقدیر کا غسل دینے والا ہاتھ انہیں دائیں بائیں کروٹیں بدلوا تا رہتا ہے، اور ان کا کتا چوکھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے پڑا رہتا ہے، اور آستانہ قدر کے نیچے بازو پھیلائے پڑا رہتا ہے۔

اعضاء کی دوا گناہوں سے بچنا ہے، برے کاموں کا لغزش ، اور مصیبتوں میں سے اختیار کرنے کا نام گناہ ہے، تو اپنے ہاتھ کو چوری اور مار پیٹ سے روک لے، اپنے پاؤں کو گناہوں کی طرف اور بادشاہوں اور کسی بنی آدم کی طرف چلنے سے روک دے، اور آنکھ کو اچھی چیزوں کی طرف پڑنے سے روک لے،  نفس شریعت کے آگے سر جھکائے اور سو جائے ، دل محبوب کی صحبت میں پرواز کر جائے ،

ولی اللہ جب حسن ادب برتتا ہے تو نبوت کی صفات سے متصف ہو جا تا ہے، حکم طبیعت اور علم کے درمیان متحیر رہتا ہے کبھی وہ طبیعت کو رد کردیتا ہےاور کبھی و ہ علم کورد کر دیتاہے اور کہہ دیتا ہے۔ ”رسول اللہ ﷺ جو کچھ تمہیں دیں ،اسے قبول کرلو۔۔۔ حکم قلب سے کہتا ہے:

تیرے لیے یہ کافی نہیں کہ میں تیرے لئے خادم کی طرح کھڑا ہوں تو خود کو بادشاہ کی معیت میں چھوڑ دے۔ رات اولیاء اللہ کے لئے شاہی تخت ہے اور تنہائی ان کی دلہنوں کا چھپر کھٹ،  بعض اسباب میں مشغولیت کی وجہ سے دن انہیں پریشان رکھتا ہے ،مصیبتیں چھپائی جاتی ہیں ، ۔

اے بچے ! تو اپنا خواب اپنے بھائیوں سے نہ بیان کرنا (قصہ یوسف علیہ السلام کی طرح ) ،لوگوں کے درمیان میں مسافر بنارہ، موت آنے تک گونگے اور خاموش بنے رہو، جب منکر نکیر تیری قبر میں آئیں تو میرا حال ان سے پوچھ لینا، وہ تجھے بتادیں گے کہ میں کون ہوں ۔

آج تیرا نام مذنب ( گناہ گار) ہے۔ کل تیرا نام محاسب ( جس سے حساب لیا گیا )اور مناقش( جھگڑا کیا گیا )ہوگا ۔ قبر میں تیراحال نا معلوم ہے، کیا خبر کہ تو دوزخیوں میں سے ہے کہ جنتیوں میں سے ہے، تیرا انجام واضح نہیں، تو اپنے حال کی صفائی پر دھوکہ نہ کھا، کیا خبر آنے والے کل میں تجھے کیالاحق ہوگا اور تیرا نام کیا ہوگا۔ اے بچے! جب تو صبح کرے تو اپنے نفس سے شام کی بات نہ کر ، اور جب تو شام کرے تو صبح کی بات نہ کر ، کیا پتہ کیا ہوتا ہے!۔ گزرے کل میں جو کچھ بھی ہوا وہ تیری بھلائی اور برائی کا گواہ بن کے چل دیا، نہ معلوم آ نے والاکل تجھے ملتا ہے یا نہیں، چنانچہ تیرے لئے فقط آج ہی کا دن ہے، تو کس قدر غافل ہے، تیراغافلوں کی صحبت اختیار کرنا تیری غفلت کی پہچان ہے۔

کندھے ہلانے اور آنکھوں میں سرمہ لگانے سے ولایت نہیں ملتی :

 اے احمق! جس پر حق کی نشانی ظاہرنہیں ، تیرا اس سے ملنا جلنا کیوں ہے، تو اس کی محبت کیوں اختیار کرتا ہے جس کی بنیاد ہی کمزور ہے ۔ اس کا ظاہر نفسانیت آمیز ہے، جبکہ باطنی طور پر سخت اور اللہ کے سامنے بےحیا ہے، کندھوں کے جمع کرنے اور ہلانے اور آنکھوں میں سرمہ لگانے سے ولایت حاصل نہیں ہوتی ، بلکہ اس کے لئے شب بیداری کی ضرورت ہے۔

 ساری مخلوق کا کچھ اختیار نہیں۔ سب تکلفات قابل اعتبار نہیں۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 698،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں