قرب نبوت اور قرب ولایت اور ان راہوں کے بیان میں جو قرب نبوت تک پہنچانے والے ہیں۔ مولانا امان اللہ کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوة کے بعد میرے فرزند مولانا امان اللہ کو واضح ہو کہ نبوت سے مراد وہ قرب الہی ہے جس میں ظلیت کی آمیزش نہ ہو اور اس کا عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) حق تعالیٰ کی طرف میلان رکھتا ہے اور اس کا نزول خلق کی طرف۔ یہ قرب بالاصالت (براہ راست) انبیاءعلیہم الصلوۃ والسلام کے نصیب ہے اور یہ منصب انہی بزرگواروں کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ منصب نبوت حضرت سید البشر علیہ وعلی آلہ الصلوة والسلام پر ختم ہو چکا ہے۔ حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام نزول کے بعد حضرت خاتم الرسل ﷺکی شریعت کی تابع ہوں گے۔
حاصل کلام یہ کہ تابعداروں اور خادموں کو اپنے مالکوں اور صاحبوں کی دولت اور پس خوردہ سے حصہ ہوتا ہے۔ پس انبياءعلیہم الصلوۃ والسلام کےقرب سے ان کے کامل تابعداروں بھی حصہ حاصل ہوتا ہے اور اس مقام کے علوم و معارف اور کمالات بھی بطریق وراثت کامل تابعداروں کو نصیب ہوتے ہیں
خاص کند بنده مصلحت عام را ترجمہ خاص کر لیتا ہے ایک کوتا کہ بھلا ہو عام کا
پس خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد اس کے کامل تابعداروں کو بطریق تبعیت و وراثت کے کمالات نبوت کا حاصل ہونا اس کی خاتمیت کے منافی نہیں ہے۔ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ پس کوئی شک نہ کر۔
اے فرزند! خداتعالیٰ تجھے سعادت بخشے۔ تجھے معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ راستے جو کمالات نبوت کی طرف پہنچانے والے ہیں۔ دو ہیں ایک وہ راستہ ہے جو مقام ولایت کے مفصل کمالات کے طے کرنے پر موقوف ہے اور ان تجلیات ظلیہ اور معارف سکریہ کے حاصل ہونے پروابستہ ہے جو قرب ولایت کے مناسب ہیں ان کمالات کے طے کرنے اور ان تجلیات کے حاصل ہونے کے بعد کمالات نبوت میں قدم رکھا جاتا ہے۔ اس مقام وصول میں ظلیت کی طرف التفات نہیں ہوتی۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ ولایت کے ان کمالات کے حاصل ہونے کے ذریعے کمالات نبوت تک پہنچنا میسر ہوجاتا ہے اور یہ دوسرا راستہ شاهراه ہے اور کمالات نبوت تک پہنچنےکے لئے زیاده قریب راستہ ہے ۔ انبیائے علیہم الصلوة والسلام اور ان کے اصحاب میں سے بہت کم بطریق تبعیت و وراثت اس راستے سے کمالات نبوت تک پہنچے ہیں۔ پہلا راستہ بہت دور دراز ہے اور اس کا حاصل ہونا دشوار اور اس کاوصول ناممکن ہے۔
بعض ان اولیاء نے جو مقام ولایت میں شرف نزول سے مشرف ہوئے ہیں۔ ان کمالات کو جو مقام نزول سے تعلق رکھتے ہیں۔ کمالات نبوت خیال کیا ہے اور خلق کی طرف متوجہ ہونے کو جو مقام دعوت کے مناسب ہے۔ مقام نبوت کی خصوصیتوں میں سے سمجھا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ نزول عروج کی طرح ولایت ہی سے ہے اور وہ عروج و نزول جو مقام نبوت سے تعلق رکھتا ہے، وہ اور ہے جو مقام ولایت سے برتر ہے اور وہ توجہ بخلق جو نبوت کے مناسب ہے اس توجہ بخلق کے ماسوا ہے اور ہر دعوت اس دعوت سے جدا ہے جس کو انہوں نے کمالات نبوت سے سمجھا ہے۔
لوگ کیا کریں۔ انہوں نے دائرہ ولایت سے باہر قدم رکھا ہی نہیں اور کمالات نبوت کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ انہوں نے ولایت کے نصف حصہ کو جو اس کے عروج کے جانب ہے تمام ولایت خیال کیا ہے اور دوسرے نصف حصے کو جو اس کے نزول کی جانب ہے مقام نبوت تصور کیا ہے ۔
چوآں کرمے کہ درسنگ نہاں است زمین و آسمان اوہماں است
ترجمہ: وہ کیڑا جو کہ پتھر میں چھپا ہے اس کا زمین و آسمان وہی پتھر ہے
اورممکن ہے کہ کوئی شخص راه اول سے وصول پیدا کر لے اور ولایت و نبوت کے مفصلہ کمالات کو جمع کر لے اور ان دونوں مقاموں کے کمالات کے درمیان کما حقہ تمیز حاصل کر لے اور ہر ایک کے نزول و عروج کو جدا کر دیا اور اس بات کاحکم کرے کہ نبی کی نبوت اس کی ولایت سے بہتر ہے۔
جاننا چاہیئے کہ راہ دوم کے وصول کے بعد اگرچہ مقام ولایت کے مفصلہ کمالات حاصل نہیں ہوئے لیکن ولایت کاز بده و خلاصه بخوبی میسر ہوا تو اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ اہل ولایت کو کمالات ولایت کی پوست ہاتھ آئی ہے اور اس وصول نے اس کے مغز کو حاصل کیا ہے۔ ہاں بعض ان علوم سکر یہ اور ظہورات ظلیہ سے جو ارباب ولایت کو حاصل ہیں۔ وہ واصل بے نصیب ہے لیکن یہ امر بھی زیادتی با برتری کا باعث نہیں ہے کیونکہ اس واصل کو ان علوم و ظہورات سے ننگ و عار آتی ہے بلکہ مناسب ہے کہ وہ ان کو اپنے حق میں گناہ اور ادب جانے۔ ہاں اصل کا واصل اس کے ظلال سے بھاگتا اور پناہ مانگتا ہے۔ظل کی گرفتاری تب تک ہی ہے جب تک اصل سے واصل نہ ہوں ظل سراسرلا حاصل ہے اورظل کی طرف توجہ کرنا بے ادبی ہے۔
اے فرزند! کمالات نبوت کا حاصل ہونا الله تعالیٰ کی محض بخشش اور اس کے فضل و کرم پر وابستہ ہے۔ کسب و تعمل کو اس دولت کے حاصل ہونے میں کچھ دخل نہیں۔
بھلا وہ کسب و عمل کونسا ہے جس کے کرنے سےیہ دولت عظمی پیدا ہو اور وہ کون سے ریاضت ومجاہدے ہیں، جن سے یہ نعمت اعلی حاصل ہو۔ برخلاف کمالات و ولایت کے کہ جن کے مقدمات کسب ہے اور ان کا حاصل ہونا ، ریاضت و مجاہدہ پرمنحصر ہے۔ اگر چہ ہوسکتا ہے کہ بعض کو کسب وعمل کی تکلیف کے بغیر بھی اس دولت کی طرف رہنمائی کریں اور فنا و بقا بھی کہ جس سے مراد ولایت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بخشش ہے اور مقدمات کے کسب کے بعدمحض فضل و کرم سے جس کو چاہتے ہیں فناو بقا کی دولت سے مشرف کرتے ہیں۔
آنحضرت علیہ وعلى جميع الانبياء والمرسلين وعلى ملائکۃ المقر بین وعلی اہل طاعۃ اجمعین الصلوات والتسلیمات کی ریاضتیں اور مجاہد ے بعثت سے اول یا پیچھے اس دولت کے حاصل کرنے کے لئے نہ تھے۔ بلکہ ان سے اور کئی قسم کے فائدے اور نفعے منظور تھے۔ مثلا نیکیوں کی کمی اور بشریت کی لغزشوں کا کفارہ اور درجات کا بلند ہونا اور فرشتہ مرسل کی صحبت کا مدنظر رکھنا جو کھانے پینے سے پاک ہے اور خوارق کا بکثرت ظاہر ہونا جو مقام نبوت کے مناسب ہے وغیرہ وغیرہ۔
جاننا چاہیئے کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے حق میں اس موہبت و بخشش کا حاصل ہونا ہے تو سط و بے وسیلہ ہے اور انبیائےعلیہم الصلوۃ والسلام کے اصحاب کے حق میں جو تبعیت (اتباع کے طور پر) و وراثت کے طور پر اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں، انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے وسیلہ سے ہے۔
انبیاء علیہم الصلوة والسلام اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد اور لوگ بہت کم اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں۔ اگر چہ جائز ہے کہ تبعیت اور وراثت کے طور پر دوسروں کو بھی اس دولت سے سرفراز فرمائیں۔
فیض روح القدس ار باز مدد فرماید دیگراں ہم بکنند آنچه مسیحا میکرد
ترجمہ: فیض روح القدس کا گردے مددتو اور بھی کر دکھائیں کام وہ جو کچھ مسیحا سے ہوا میں خیال کرتا ہوں کہ اس دولت نے تابعین بزرگواروں پر بھی اپنا پرتو ظاہر کیا ہے اور تبع تابعین بزرگواروں پر بھی اپنا سایہ ڈالا ہے۔ بعد ازاں یہ دولت پوشیدہ ہوگئی ہے حتی کہ آں سرور علیہ الصلوة والسلام کی بعثت سے الف ثانی (دو ہزار سال) تک نوبت آگئی اور اس وقت پھروه دولت تبعیت و وراثت کے طور پر ظاہر ہوگئی اور آخر کو اول کے مشابہ کردیا ۔
اگر پادشہ بردر پیر زن بیاید تو اے خواجہ سبلت مکن
ترجمہ: اگر بڑھیا کے در پر آئے سلطان تو اے خواجہ نہ ہو ہرگز پریشان
وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ اور سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت پر چلا اور حضرت مصطفی ﷺ کی تابعداری کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ463ناشر ادارہ مجددیہ کراچی