قلب مومن کی شان کی بلندی مکتوب نمبر 45دفتر سوم

 قلب مومن کی شان کی بلندی اور اس کی ایذاءسے منع کرنے کے بیان میں مولانا سلطان سرہندی کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على رسوله محمد واله أجمعين حمدوصلوة کے بعد واضح ہو کہ دل اللہ تعالیٰ  کا ہمسایہ ہے۔ جس قدر دل اللہ تعالیٰ  کی بارگاہ کے قریب ہے اس قدر کوئی اور شے قریب نہیں۔ دل خواہ مومن ہو یا گناہ گار اس کی ایذاء سے اپنے آپ کو بچانا چاہیئے، کیونکہ ہمسایہ خواہ عامی اور نافرمان ہو پھر بھی اس کی حمایت اور مدد کی جاتی ہے۔ پس اس کی اذیت سے ڈرنا چاہیئے، کیونکہ کفر کے بعد جو اللہ تعالیٰ  کی ایذا کا باعث ہے، دل کی ایذاء جیسا بڑا گناہ اور کوئی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ  کی طرف پہنچنے والی چیزوں سے زیادہ اقرب دل ہی ہے نیز خلق سب کی سب اللہ تعالیٰ  کے بندے اور اس کے غلام ہیں اور کسی شخص کے غلام کو مارنا یا اس کی اہانت کرنا اس کے مولا و مالک کی ایذاء کا موجب ہے تو پھر اس مولی کا کیا حال ہوگا جو مالک اور خودمختار ہے اس کے خلق میں جتنا کہ اس نے حکم دیا ہے اس سے بڑھ کر تصرف نہ کرنا چاہیئے کیونکہ وہ ایذاء میں داخل ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ  کے حکم کی بجا آوری ہے مثلا بکرزانی کی حد سو کوڑے ہے اگر کوئی سو سے زیادہ کوڑے لگائے تو ظلم ہے اورایذاءمیں داخل ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ قلب تمام مخلوقات میں افضل واشرف ہے جس طرح انسان تمام مخلوقات میں سے افضل اور اشرف ہے اور اس کا فضل و شرف عالم کبیر کی تمام اشیاء کے جامع اور مجمل ہونے کے باعث ہے۔ اسی طرح دل بھی انسان کی تمام چیزوں کے جامع اور کمال بسيط اورمجمل ہونے کے باعث افضل و اشرف ہے اور جس چیز میں اجمال و جمعیت (دل کو طمینان حاصل ہونا) زیادہ ہو وہی چیز الله تعالیٰ  کی بارگاہ کے زیادہ قریب ہوتی ہے نیز جو کچھ انسان میں ہے یا عالم خلق سے ہے یا عالم امر سے اور(قلب) دونوں کے درمیان برزخ ہے انسان مراتب عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ  کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے)  میں پہلے اپنے اصول کی طرف پھر آگ کی طرف اس کے بعدلطائف کے اصول کی طرف بعدازاں اس جزئی اسم کی طرف جو اس کا رب ہے پھرکلی اسم کی طرف جہاں تک کہ الله تعالیٰ  کومنظور ہوتا ہے عروج کرتا ہے برخلاف قلب کے کہ اس کا کوئی اصل نہیں جس کی طرف دہ عروج  کرے بلکہ اس کا عروج  پہلے ہی ذات کی طرف ہوتا ہے نیز قلب غیب ہویت(ذات احدیت) کا دروازہ ہے لیکن اس تفصیل کے تمام ہونے کے بغیر صرف قلب کے طریق سے وہاں تک پہنچنا مشکل ہے۔ ہاں اس تفصیل مذکورہ بالا کے نام ہونے کے بعد وہاں تک پہنچنا آسان ہے، کیونکہ قلب میں جامعیت اور وسعت ان مراتب تفصیلیہ کے طے کرنے کے بعدہی حاصل ہوتی ہے اور اس جگہ قلب سے مراد وہ قلب ہے جو جامع دبسيط( جو اجزاء سے مرکب نہ ہو) وابسط ہے  نہ مضغہ لحمیہ یعنی گوشت کا ٹکڑا۔ والسلام 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ145ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں