اس بیان میں کہ ابتداء میں قلب حس(ادراک) کے تابع ہے اور انتہا میں ہی تابعداری نہیں رہتی ملا یا رمحمد بدخشی قدیم کی طرف لکھا ہے۔
مولانا یارمحمد کو واضح ہو کہ کچھ مدت تک قلب حس کا تابع ہے پس نا چار جو چیز حس سے دور ہے وہ قلب سے بھی دور ہے۔ حدیث من لم يملك عينه في القلب عنده یعنی جس نے اپنی آنکھ پر قابو نہ پایا دل بھی اس کے قابو میں نہیں ہے۔ اس مرتبہ کی تائید کرتی ہے نہایت کار (سلوک کی انتہا)میں جب دل کو اس کی تابعداری نہیں رہتی۔ حس سے دور ہونا دلی قرب میں اثر نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ مشائخ طریقت نے بلندی اور متوسط کے لئے شیخ کامل مکمل کی صحبت سے الگ ہونا جائز نہیں فرمایا۔
غرض مَا لَا يُدْرَكُ كُلُّهُ لَا يُتْرَكُ كُلُّهُ جو چیز ساری حاصل نہ ہو اس کو بالکل ہی ترک نہ کرنا چاہیئے )کے موافق اسی طریق پر ہیں اور ناجنس(غیر مشرب لوگوں) کی صحبت سے پوری طرح بچیں۔
میاں شیخ مزمل کا آنا موجب سعادت سمجھ کر ان کی صحبت کوغنیمت جانیں اور اکثر اوقات ان سےصحبت رکھیں کہ بہت عزیز الوجود ہے۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ303ناشر ادارہ مجددیہ کراچی