آیہ کریمہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی تاویل میں سیادت و ارشاد پناه میرمحمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے۔
الله تعالی فرماتا ہے۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (بیشک قرآن کریم ہے پوشیدہ کتاب میں لکھا ہوا ہے اس کو ہاتھ نہیں لگاتے مگر پاک لوگ) آیت کریمہ کی مراد اللہ تعالی جانتا ہے۔ وہ رمز جو اس مقام میں فقیر کے فہم قاصر میں آئی ہے۔ یہ ہے کہ قرآنی پوشیده اسرار کو ہاتھ نہیں لگاتے ۔ مگر وہ لوگ جو تعلقات بشریت کی آلودگی سے پاک ہو گئے ہوں۔ جب قرآنی اسرار کامس کرنا پاک لوگوں کے نصیب ہوتو پھر اوروں کا کیا حال ہے۔
دوسری رمز یہ کہ قرآن کو نہ پڑھیں مگر وہ لوگ جن کے نفوس ہوا وہوس سے پاک ہو گئے ہوں اور شرک جلی خفی اورنفسی، آفاقی خداؤں سے صاف ہو گئے ہوں۔ اس کا بیان یہ ہے کہ مبتدی سلوک کے حال کے مناسب ذکر اور ماسوائے مذکور کی نفی ہے۔ یہاں تک کہ ماسوی کچھ نہ رہے اور حق تعالی کے سوا اس کی کچھ مراد نہ ہو اور اگر تکلف کے ساتھ ہی اس کو اشیاء یاد دلائیں تو اس کو یاد نہ آئیں جب ایسا حال ہو جاتا ہے تو شرک سے پاک اورنفسی اور آفاقی خداؤں سے آزاد ہو جاتا ہے اس وقت لائق ہے کہ ذکر کے بجائے قرآن کی تلاوت کرے اور تلاوت کی بدولت مدارج حاصل کرے۔
اس مذکورہ حالت کے حاصل ہونے سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت ابرار (وہ اَولیائے کرام جو احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے کے علاوہ مجاہداتِ شدیدہ اور ریاضاتِ شاقّہ کے ذریعے مراتب سلوک طے کرکے واصل بحق ہوں ابرار کہلاتے ہیں)کے اعمال میں داخل ہے اور اس حالت کے حاصل ہونے کے بعد تلاوت قرآن مجید مقربین (وہ اولیائے کاملین جو ذکر و فکر، مراقبات، تجرید و تفرید، فنا و بقا اور استہلاک و استغراق کے ذریعے منازلِ سلوک طے کرتے ہوئے واصل باللہ ہوں وہ مقربین کہلاتے ہیں) کے اعمال میں شمار ہوتی ہے۔ جیسے کہ ذکر کرنا اس نسبت کے حاصل ہونے سے پہلے مقربین کے اعمال میں گنا جاتا تھا۔ ابرار کے اعمال عبادات کی قسم سے ہیں اور مقربین کے اعمال تفکرات کی قسم سے آپ نے تفکر ساعة خير من عبادۃ سنة أوسبعين سنة (ایک ساعت کا فکر ایک سال یا ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے) سنا ہوگا۔ تفکر کے معنی باطل سے حق کی طرف جانے کے ہیں۔
جس قدر فرق ابرار ومقربین کے درمیان ہے اسی قدر فرق عبادت و تفکر کے درمیان ہے۔ جاننا چاہے کہ مبتدی کا وہ ذکر جو مقر بین کے اعمال میں شمار ہوتا ہے۔ وہ ہے جو اس نے شیخ کامل مکمل سے حاصل کیا ہو اور اس کا مقصودسلوک طریقت ہو۔ ورنہ ذکر بھی ابرار کے اعمال میں گنا جاتا ہے۔ والله سبحانه الملهم للصواب۔ )الله تعالی ہی بہتری کی طرف الہام کرنے والا ہے ہے (والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعليهم من الصلوة والتسليمات اتمها وادومها
اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ31 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی