مرادی و مریدی کے اسرار میں مکتوب نمبر 87دفتر سوم

 حضرت ایشان مدظلہ العالی کے مرادی و مریدی کے اسرار میں مولانا محمد صالح کی طرف صادر فرمایا ہے: ۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) میں اللہ تعالیٰ کا مرید بھی ہوں اور مراد بھی میرا سلسلہ ارادت بالواسطہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جاتا ہے اور میرا ہاتھ الله تعالیٰ کے ہاتھ کا قائم مقام ہے اور میری ارادت حضرت محمد رسول الله ﷺکے ساتھ بہت واسطوں سے ہے اور طریقہ نقشبندیہ میں اکیس اور قادریہ میں پچیس اور چشتیہ میں ستائیں واسطے درمیان ہیں لیکن میں حضرت محمد رسول الله ﷺ کا مرید بھی ہوں اور ان کا ہم پیر(پیر بھائی )اور پس رو (متبع و مقتدی)بھی۔ پس آنحضرت ﷺکے نزدیک اس دولت کے دستر خوان پر اگرچہ طفیلی ہوں لیکن بن بلائے نہیں آیا ہوں اور اگرچہ تابع ہوں لیکن اصالت سے بے بہرہ نہیں ہوں اور اگر چہ امتی ہوں لیکن اس دولت میں ان کا شریک ہوں ہاں وہ شرکت نہیں جس سے ہمسری اور برابری کا دوئی پیدا ہوتا ہو کیونکہ وہ کفر ہے بلکہ یہ وہ شرکت ہے جو خادم کو اپنے مخدوم کے ساتھ ہوتی ہے جب تک مجھے نہیں بلایا تب تک اس دولت کے دستر خوان پر حاضر نہیں ہوا اور جب تک انہوں نے نہ چاہا اس دولت کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا اگرچہ اویسی ہوں لیکن مربی حاضر و ناظر رکھتا ہوں ۔ طریق نقشبندیہ میں اگر چہ میرا پیر عبدالباقی ہے لیکن میری تربیت کا متكفل اللہ الباقی جل جلالہ وعم نوالہ ہے۔ میں نے فضل سے تربیت پائی ہے اور اجتباء کے راستہ پر چلا ہوں۔ میرا سلسلہ رحمانی ہے۔ میں عبدالرحمان ہوں میرا رب رحمان جل شانہ ہے اور میرا مربی ارحم الراحمین ہے اور میرا طریقہ طریقہ سُبْحَانِي ہے کیونکہ تنزیہ کے راستہ سے گیا ہوں اور اسم وصفت سے ذات اقدس تعالیٰ کے سوا کچھ نہیں چاہا۔ یہ سُبْحَانِي وہ سُبْحَانِي نہیں ہے جو حضرت بایزید بسطامی نے کہا ہے کہ کیونکہ اس کو اس کے ساتھ کسی قسم کی مساوات نہیں ہے۔ وہ سُبْحَانِي دائرہ نفس سے باہر نہیں اور یہ انفس و آفاق کے ماوراء ہے اور وہ تشبیہ ہے جس نے تنزیہ کا لباس پہنچا ہے اور یہ تنزیہ ہے جس کو تشبیہ کی گرد بھی نہیں لگی۔ اس سبحانی نے چشمہ سکر(مستی) سے جوش مارا اور یہ عین صحو(ہوش)سے نکلا۔ ارحم الراحمین نے میرے حق میں تربیت کے اسباب کومعدات(ذرائع) کے سوا نہ رکھا اور علت فاعلی میری تربیت میں اپنے فضل کے سوا اور کچھ نہ بتائی ۔ حق تعالیٰ کمال کرم سے اس اہتمام وغیرت کے باعث جو میرے حق میں رکھتا ہے پسند نہیں فرماتا کہ میری تربیت میں کسی دوسرے کے فعل کا دخل ہو یا میں اس امر میں کسی دوسرے کی طرف متوجہ ہوں۔ میں حق تعالیٰ کا تربیت یافتہ اور اس کے نامتناہی فضل و کرم کامجتبی اور برگزیدہ ہوں۔ع 

 بر کریمان کارہا دشوار نیست              کریموں پرنہیں مشکل کوئی کام 

 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْمِنَّۃُ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى رَسُولِهٖ وَالتَّحِيَّةُ أَوَّلاً وَّاٰخِرًا(اللہ تعالیٰ کی حمد اور احسان ہے جو بڑے جلال و اکرام والا ہے اور اس کے رسول پر اول آخرصلوۃ وسلام وتحیہ ہو۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ247ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں