مرتبہ وہم کی تحقیق مکتوب نمبر 68دفتر سوم

 اس مرتبہ وہم کی تحقیق میں کہ جسم میں عالم وجود ونمودرکھتا ہے ۔ فقیرمحمد ہاشم کشمی کی طرف صادر فرمایا ہے: 

عالم کو موہوم کہتے ہیں تو اس کےیہ معنی نہیں کہ عالم وہم کا تراشا ہوا اور بنایا ہوا ہے عالم وہم کا بنایا ہوا کس طرح ہوسکتا ہے جبکہ وہم بھی عالم کی قسم سے ہے بلکہ اس کے معنی ہیں کہ  حق تعالیٰ  نے عالم کو مرتبہ وہم میں پیدا کیا ہے۔ اگرچہ وہم اس وقت وجود میں نہ آیا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ  کے علم میں تھا اور مرتبہ وہم نمود بےبود سے مراد ہے جس طرح کہ وہ دائرہ جو نقطہ جوالہ سےوہم میں پیدا ہوا ہے۔ نمود بے بود رکھتا ہے ۔ حکیم مطلق جل شانہ نے عالم کو اس مرتبہ میں پیدا فرما کر محض نمود کو ثبوت وثبات بخشا اور غلط سے صحت(صحیح) میں لایا اور کذب سے صدق میں لاکرنفس الامر بنایا فَأُولَئِكَ ‌يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ( یہ وہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ  نیکیوں سے بدل دیتا ہے)

مرتبہ موہوم ایک عجب مرتبہ ہے جس کو موجود کے ساتھ کچھ مزاحمت نہیں اور کوئی مقابلہ اور مدافعہ نہیں اور نہ جہات میں سے کوئی جہت ثابت کرتا ہے نہ اس کے لیے کوئی حدونہایت پیدا کرتا ہے ۔ دائرہ موہومہ کو نقطہ جوالہ موجودہ کے ساتھ کوئی مخالفت نہیں نہ اس کیلئے جہات میں سے کوئی جہت ثابت ہے نہ اس دائرہ کے حدوث سے اس نقط کی حدو نہایت پیدا ہوگئی ہے نہیں کہہ سکتے کہ نقطہ دائرہ کے دائیں ہے یا بائیں یا آگے ہےپیچھے یا اوپر ہے یانیچے۔ یہ دائرہ ان جہات کو ان اشیاء کے لیے ثابت کرسکتا ہے جو اس کے مرتبہ میں ثبوت رکھتی ہیں لیکن وہ چیز جو دوسرے مرتبہ میں ثابت ہے۔ دائرہ کو اس کے ساتھ کوئی جہت ثابت نہیں ۔ نیز اس دائرہ کے پیدا ہونے سے نقطہ کی کوئی نہایت پیدا نہیں ہوئی۔ وہ اپنی پہلی ہی صرف حالت پر ہے۔ وَلِلَّهِ ‌الْمَثَلُ الْأَعْلَى مثال اعلى الله تعالیٰ  کے لیے ہے )

اس بیان و تمثیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ عالم کوصانع عالم کے ساتھ کیاتعلق ہے۔ اس عالم کے ایجاد سے حق تعالیٰ  کو کوئی حدو نہایت حاصل نہیں ہوئی اور حیات میں سے کوئی جہت ثابت نہیں ہوئی۔ وہاں کی نسبت کس طرح متصور ہو سکے جبکہ اس مرتبہ عالیہ میں ان کا نام ونشان بھی نہیں، جس سے نسبت کا تصور کیا جائے ۔ بعض بدبختوں نے بیوقوفی کے باعث عالم اور صانع عالم کے در میان اس نسبت کا حاصل ہونا اور ان جہات کا ثابت ہونا تصور کر کے حق تعالیٰ  کی رؤیت(دیدار) کی نفی کی ہے اور ان کو محال سمجھا ہے اور اپنی جہل مرکب اور تصدیق کاذب کو کتاب وسنت پر مقدم کیا ہے ۔ ان لوگوں نے گمان کیا ہے کہ اگر حق تعالیٰ  دیکھا جائے تو جہات میں سے کسی جہت میں ہوگا نہ کہ ان کے ماسوا اور اس سےحدو نہایت لازم آتی ہے اور تحقیق سابق سے معلوم ہو چکا ہے کہ حق تعالیٰ  کو عالم کے ساتھ اس قسم کی کچھ نسبت بھی ثابت نہیں ۔ خواہ رؤیت کو ثابت کریں یا نہ کریں کیونکہ رؤیت موجود ہے اور کوئی جہت ثابت نہیں ۔

چنانچہ اس کی تحقیق ابھی کی جائے گی۔ شاید یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ محظور(خطرہ) واعتراض وجود عالم کے وقت بھی ثابت ہے کیونکہ اس وقت صانع عالم کی جہات میں سے کسی جہت میں ہوگا اور عالم کے ماوراء بھی ہوگا۔ اس سے بھی حد و نہایت لازم آتی ہے اور اگر عالم کے تمام جہات میں کہیں تو پھر حد ونہایت کی نسبت کیا کہیں گے جو ورائیت کو لازم ہے نیز جہت کا فساد نہایت کے استلزام کے باعث ہے اور وہ خود لازم ہے۔ اس تنگی سے خلاصی تب ہوتی ہے جب صوفیہ کے قول کو اختیار کریں جو عالم کو موہوم کہتے ہیں اور جہت و نہایت کے اشکال سے چھوٹ جاتے ہیں ۔ موہوم کہنے میں کوئی محظور محال لازم نہیں آتا کیونکہ وہ موجود کی طرح احکام صادقہ رکھتا ہے اور ابدی معاملہ اور دائمی رنج و راحت اس پر وابستہ کیا ہے۔ وہ موہوم اور بے حس کے سوفسطائی بے وقوف وقائل ہیں جو وہم کا اختراع اور خیال کا تراش خراش ہے۔ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں کہ دائرہ  موہومہ کو جو نقطہ جوالہ سے پیدا ہوا ہے اس نقطہ کے ساتھ کوئی جہت ثابت نہیں وہ نقطہ اس دائرہ کی جہات سے باہر ہے۔ اگر بالفرض وہ دائرہ  بتمامہ بصر ہو جائے تو اس نقطہ کو بے جہت رکھے گا کیونکہ جہت ان کے درمیان مفقود ہے۔ صورت مذکورہ بالا میں بھی اگر دیکھنے والا ہمہ  تن بصر ہو جائے اور حق تعالیٰ  کو بے جہت دیکھے تو اس سے کیامحظور(خطرہ)و محال لازم آتا ہے مومن بہشت میں ہمہ تن بصر ہو کر حق تعالیٰ  کو دیکھیں گے اور کوئی جہت ثابت نہ ہوگی۔ کہ تَخَلَّقُوا ‌بِأَخْلَاقِ ‌اللَّهِ تَعَالَى ( اللہ تعالیٰ  کے اخلاق سے تخلق ہو) کے بموجب یہ دولت دنیا میں حاصل ہو جاتی ہے اور ہمہ تن بصر ہو جاتے ہیں ۔ اگرچہ وہ رؤیت نہیں ہوتی جو آخرت پرمخصوص ہے لیکن رؤیت کاحکم رکھتی ہے اور یہ جو کہا کہ تَخَلَّقُوا ‌بِأَخْلَاقِ ‌اللَّهِ تَعَالَى کے موافق وہ اس لیے کہا ہے کہ واجب تعالیٰ  کے بارے میں صوفیہ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ  کی ذات کلہ بصر اور کلہ سمع اور کلہ علم ہے اور متخلقین با اخلاق اللہ کو ان صفات سے حصہ حاصل ہوتا ہے۔ اس مقام میں ان کی ہر ایک  صفت  بھی ان کی کلیت کے رنگ میں ظہور کرتی ہے۔ مثلا ہمہ تن بصر ہو جاتے ہیں ۔ آخرت میں تمام مومنوں کو یہ نسبت عطا فرما کر رؤیت کی دولت سے مشرف فرمائیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ  اس صورت میں کوئی محظور و اشتباه لازم نہیں آتا۔ وَاللَّهُ  سُبحَانَه أَعْلَمُ ‌بِحَقِيقَةِ ‌الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ  ہی جانتا ہے

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ195ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں