مریدوں کے آداب ضروری اور ایک شبہ کے دفع کرنے کے بیان میں شیخ حمید کی طرف صادر فرمایا ہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُلِلّٰهِ الَّذِيْ أَدَّبَنَا بِالْآدَابِ النَّبَوِيَّةِ وھَدَانَا بِالْأَخْلَاقِ الْمُصْطَفْوِيَّةِ عَلَيْهِ وَعَلىٰ اٰلِهٖ الصَّلَوَاتِ وَالتَّسْلِيْمَاتِ اَتَمُّهَا وَاَکْمَلُھَا الله تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو آداب نبوی کے ساتھ مؤدب بنایا اور اخلاق مصطفوی ﷺکے ساتھ ہم کو ہدایت دی۔
جاننا چاہیئے کہ اس راہ کے سا لک دوحال سے خالی نہیں یا مرید ہیں یا مراد۔ اگر مراد ہیں تو ان کے لئے مبارکباد دی ہے۔(کارکنان قضا وقدر) محبت و انجذاب کی راہ سے ان کو کھینچ کھینچ کے لے آئیں گئے اور مطلب اعلی تک پہنچا دیں گے اور جو ادب ان کے لئے درکار ہوگا بوسیلہ یا بوسیلہ ان کو سکھا دیں گے اور اگر ان سے کوئی لغزش ہو جائے گی ، تو ان کو جلدی سے اس سے آگاہ کر دیں گے اور ان پر ان کا مواخذہ نہ کریں گے اور اگر پیر ظاہر کی ان کو حاجت ہوگی تو ان کی کوشش کے بغیر اس دولت کی طرف ان کی رہنمائی کریں گے ۔ غرض حق تعالیٰ کی عنایت ازلی ان بزرگواروں کے شامل حال ہوتی ہے۔ بہ سبب یا بے سبب ان کام بنادیتے ہیں۔ وَاللهُ يَجْتَبِىْ مَنْ يَشَآءُ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے، برگزیدہ کر لیتا ہے اور اگر مرید ہیں تو کامل مکمل پیر کے وسیلہ کے بغیر ان کا کام دشوار ہے۔ پیر ایسا ہونا چاہیئے جو جذبہ اور سلوک کی دولت سے مشرف ہوا ہو اور فنا و بقاء کی سعادت سے بہرہ ور ہو اور سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ اور سیرعن الله بالله اورسیر فی الاشياء باللہ کو انجام تک پہنچایا ہو اور اس کا جذبہ اس کے سلوک پر مقدم ہے اور مرادوں کی تربیت سے تربیت یافتہ ہے تو اس(مرشد) کا وجودکبریت احمر (سرخ گندهک یعنی اکسیر) کی طرح ہے۔ اس کا کلام دوا اور اس کی نظر شفا ہے۔ مردہ دل اس کی توجہ شریف سے زندہ ہوتے ہیں اور مرجھائی ہوئی جانیں اس کے لطيف التفات سے تازہ ہوتی ہیں اور اگر اس قسم کا صاحب دولت نہ ملے تو سالک مجذوب (سالک مجذوب وہ ہے جس کو سلوک کی انتہاء میں جذبہ نصیب ہو)بھی غنیمت ہے۔ وہ بھی ناقصوں کی تربیت کرسکتا ہے اور فنا و بقاء کی دولت تک پہنچا سکتا ہے۔
آسماں نسبت بعرش آمد فرود ورنہ بس عالی است پیش خاک تود ترجمہ: عرش سے نیچے ہے گر چہ آسماں لیکن اونچا ہے زمین سے اے جواں
اگر الله تعالیٰ کی عنایت سے کسی طالب کواس قسم کا کامل مکمل پیرمل جائے تو چاہے کہ اس کے وجودشریف کوغنیمت جانے اور اپنے آپ کو ہمہ تن اس کے حوالہ کر دے اور اپنی سعادت اس کی رضامندی میں اور اپنی بدبختی اس کی نارضامندی میں جانے ۔ غرض اپنی خواہش کو اس کی رضا کے تابع بنادے۔
حدیث نبوی ﷺمیں ہے۔ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لَمَّا جِئْتُ بِهِتم میں سے کوئی ایماندار نہ ہوگا جب تک اس کی خواہش اس امر کے تابع نہ ہو جائے جس کو میں لایا ہوں۔
جاننا چاہیئے کہ صحبت(شیخ) کے آداب اور شرائط کو مدنظر رکھنا اس راہ کی ضروریات میں سے ہے تا کہ افادہ (فائدہ پہنچانا ) اور استفادہ(فائدہ حاصل کرنا) کا راستہ کھل جائے ور نہ(آداب کی رعایت کے بغیر) صحبت سے کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوگا اور مجلس سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ بعض ضروری آداب و شرائط لکھے جاتے ہیں۔ گوش ہوش سے سننے چاہئیں۔
طالب کو چاہیئے کہ اپنے دل کو تمام اطراف سے پھیر کر اپنے پیر کی طرف متوجہ کرے اور پیر کی خدمت میں اس کے اذن کے بغیر نوافل و اذکار میں مشغول نہ ہو اور اس کے حضور میں اس کے سوا کسی اور کی طرف توجہ نہ کرے اور بالکل اسی کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھا رہے حتی کہ جب تک وہ امر نہ کرے ذکر میں بھی مشغول نہ ہو اور اس کے حضور میں نماز فرض وسنت کے سوا کچھ ادا نہ کرے ۔ کسی بادشاہ(جہانگیر) کی نقل کرتے ہیں کہ اس کا وزیر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اتفا قا وزیر کی نظر اس کے اپنے کپڑے پر جاپڑی اور اس کے بند کو اپنے ہاتھ سے درست کرنے لگا۔ اس حال میں جب بادشاہ نے اس کو دیکھا کہ میرے سوا غیر کی طرف متوجہ ہے تو جھڑک کر فرمایا کہ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تو میرا وزیر ہو کر میرے حضور میں اپنے کپڑے کے بند کی طرف توجہ کرے تو سوچنا چاہیئے کہ جب دنیا کمینی کے وسائل کے لئے چھوٹے چھوٹے آداب ضروری ہیں تو وصول الى اللہ کے وسائل کے لئے ان آداب کی رعایت نہایت ہی کامل طور پر ضروری ہوگی اور جہاں تک ہو سکے ایسی جگہ بھی کھڑا نہ ہو کہ اس کا سایہ پیر کے کپڑے یا سایہ پر پڑتا ہو اور اس کے مصلے پر پاؤں نہ رکھے اور اس کے وضو کی جگہ میں طہارت نہ کرے اس کے خاص برتنوں کو استعمال نہ کرے اور اس کے حضور میں پانی نہ پئے۔ کھانا نہ کھائے اور کسی سے گفتگونہ کرے بلکہ کسی اور کی طرف متوجہ نہ ہو اور پیر کی غیبت یعنی عدم موجودگی میں جہاں کہ وہ رہتا ہے۔ اس طرف پاؤں دراز نہ کرے ۔اور تھوک بھی اس طرف نہ پھینکے اور جو کچھ پیر سے صادر ہو۔ اس کو صواب و بہتر جانے۔ اگرچہ بظاہر بہتر معلوم نہ ہو کیونکہ جو کچھ وہ کرتا ہے، الہام سے کرتا ہے اور الله تعالیٰ کے اذن سے کام کرتا ہے اس تقدیر پراعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اگرچہ بعض صورتوں میں اس کا الہام میں خطا کا ہونا ممکن ہے لیکن خطائے الہامی خطائے اجتہادی کی طرح ہے اور ملامت و اعتراض اس پر جائز نہیں اور نیز جب اس کو اپنے پیر سے محبت ہے تو جو کچھ محبوب (مرشد)سے صادر ہوتا ہے محب(مرید) کی نظروں میں محبوب ہی دکھائی دیتا ہے۔ پھر اعتراض کی کیا مجال ہے اور کھانے پینے پہنے اور طاعت کے چھوٹے بڑے کاموں میں پیرہی کی اقتداء کرنی چاہیئے اور نماز کوبھی اسی طرز پر ادا کرنا چاہیئے اور فقہ بھی اسی کے طریق عمل سے سیکھنی چاہیئے ۔
آن را که در سرائے نگاریست فارغ است از باغ و بوستان و تماشائے لالہ زار
ترجمہ: وہ شخص جس کے گھر میں گلزار خودلگاہو غیروں کے باغ دیکھے حاجت نہیں ہے اس کو ۔
اور اس کے حرکات و سکنات میں کسی قسم کا اعتراض نہ کرے۔ اگرچہ وہ اعتراض رائی کے دانہ جتنا ہو کیونکہ اعتراض سے ماسوائےمایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور تما م مخلوقات میں سے بد بخت وہ شخص ہے جو اس بزرگ کا عیب بین(عیب دیکھنے والا) ہے الله تعالیٰ ہم کو اس بلائےعظیم سے بچائے اور اپنے پیر سے خوارق و کرامات طلب نہ کرے اگر چہ وہ طلب خطرات اور وساوس کے طریق پر ہو۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ کسی مومن نے پیغمبر سے معجزہ طلب نہیں کیا۔ معجزہ طلب کرنا کافروں اور منکروں کا کام ہے۔
معجزات از بہر قہر دشمن است بوے جنسيت پے دل بردن است
موجب ایمان نباشد معجذات پوے جنسيت کند جذب صفات
ترجمہ: قہر دشمن کے لئے ہیں معجزے بوئے جنسيت دلوں کو کھینچ لے
موجب ایماں نہیں ہیں معجزے بوئے جنسیت صفت کو کھینچ لے
اگر دل میں کوئی شبہ پیدا ہو، بے توقف عرض کر دے۔ اگر حل نہ ہو۔ اپنی تقصیر سمجھے اور پیر کی طرف کسی قسم کی کوتاہی یا عیب نہ کرے اور جو واقع ظاہر ہو، پیر سے پوشیدہ نہ رکھے اور واقعات تعبیر اس سے دریافت کرے اور جو تعبیر طالب پر ظاہر ہو، وہ بھی عرض کر دے اور صواب و خطا کو اس سے طلب کرے ،اور اپنے کشف پر ہرگز بھروسہ نہ کرے کیونکہ اس جہان میں حق باطل کے ساتھ اور خطا صواب کے ساتھ ملا جلا ہے اور بے ضرورت و بے اذن اس سے جدانہ ہو کیونکہ اس کے غیر کو اس کے اوپر اختیار کرنا ارادت کے برخلاف ہے اور اپنی آواز کو اس کی آواز سے بلند نہ کرے اور بلند آواز سے اس کے ساتھ گفتگو نہ کرنے کہ بے ادبی میں داخل ہے اور جوفیض وفتوح اس کو پہنچے، اس کو بھی اپنے پیر کے ذریعے سمجھے اور اگر واقع میں دیکھے کہ فیض اور مشائخ سے پہنچا ہے۔ اس کو بھی اپنے پیر ہی سے جانے اور جان لے کہ جب پیر تمام کمالات و فیوض کا جامع ہے۔ پیر کا خاص فیض پیر کی خاص استعداد کے مناسب اس شیخ کے کمال کے موافق جس سے یہ صورت افاضہ (فیض رسانی)ظاہر ہوتی ہے۔ مرید کو پہنچا ہے اور وہ پیر کے لطائف میں سے ایک لطیفہ ہے جس کے مناسب وہ فیض رکھتا ہے اور اس شیخ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ محبت کے غلبہ کے باعث مرید نے اس کو دوسراشیخ خیال کیا ہے اور فیض اس سے جانا ہے۔ یہ بڑا بھاری مغالطہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ لغزش سے نگاہ رکھے اور سید البشر ﷺکے طفیل پیر کے اعتقاد اور محبت پر ثابت قدم رکھے۔ غرض الطَّرِيْقُ کُلُّهٗ أَدَب، (طریقت سراپا ادب ہے)مشہورمثل ہے۔ کوئی بے ادب خدا تک نہیں پہنچا اور اگر مرید بعض آداب کے بجالانے میں اپنے آپ کو قصوروار جانے اور اس کو کما حقہ ادا نہ کر سکے اور کوشش کرنے کے بعد بھی اس سے عہدہ برآنہ ہو سکے تو معاف ہے لیکن اس کو اپنے قصور کا اقرار کرنا ضروری ہے اور اگر نَعُوذُ بِاللَّهِ آداب کی رعایت بھی نہ کرے اور اپنے آپ کو قصور وار بھی نہ جانے تو وہ ان بزرگواروں کی برکات سے محروم رہتا ہے ۔
ہر کہ را روئے بہ بودند اشت دیدن روئےنبی سو دند اشت
ترجمہ: ہدایت نہ تھی جس کی قسمت میں یارو لقائے پیمبر تھا بے سود اس کو
ہاں وہ مرید جو پیر کی برکت سے فناو بقاء کے مرتبہ تک پہنچ جائے اور الہام و فراست کا راستہ اس پرکھل جائے اور پھر اس کو مسلم رکھے اور اس کے کمال کی گواہی دے دے۔ اس مرید کو لائق ہے کہ بعض الہامی امور میں پیر کے برخلاف اپنے الہام کے موافق عمل کرے۔ اگر چہ اس کا خلاف پیر کے نزدیک ثابت ہو کیونکہ وہ مر ید اس وقت تقلید سے نکل چکا ہے۔ اب تقلید اس کے حق میں خطا ہے۔ کیا نہیں جانتے کہ اصحاب کبار رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین نے بعض امور اجتہادیہ اور احکام غیرمنزلہ (بغیر وحی)میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ خلاف کیا ہے اور بعض اوقات حق بجانب اصحاب ظاہر ہوا ہے۔ كَمَا لَا يَخْفىٰ عَلىٰ أَرْبَابِ الْعِلْمِ (جیسا کہ صاحبان علم پرپوشیدہ نہیں ہے۔)
پس معلوم ہوا کہ مرتبہ کمال تک پہنچنے کے بعد مرید کو پیر کے برخلاف کرنا جائز ہے اور بے ادبی سے دور ہے بلکہ یہی ادب ہے ورنہ پیغمبر ﷺکے اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کمال ادب کے ساتھ مودب ہوئے ہیں اور تقلید کے سوا اور کوئی امرنہیں کیا ہے۔ ابو یوسف کے لئے مرتبہ اجتہاد تک پہنچنے کے بعد ابوحنیفہ رحمتہ الله علیہ کی تقلید خطا ہے۔
اس کے لئے بہتری اپنی رائے کی متابعت میں ہے۔ نہ کہ ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی رائے میں ۔ امام یوسف رحمتہ اللہ علیہ کا قول مشہور ہے کہ نَاظَرْت أَبَا حَنِيفَةَ فِي مَسْأَلَةِ خَلْقِ الْقُرْآنِ سِتَّةَ أَشْهُرٍ (میں نے ابوحنیفہ کے ساتھ قرآن کے مخلوق ہونے کے مسئلہ میں چھ مہینے تک جھگڑا کیا)تو نے سنا ہوگا کہ ہر صفت بہت سے فکروں کے ملنے سے کامل ہوتی ہے۔ اگر ایک ہی فکر پر رہتی تو کچھ زیادتی حاصل نہ کرتی ۔ وہ نحو جو سیبویہ(علم نحو کا امام) کے زمانہ میں تھی۔ آج وہ مختلف راویوں اور بہت کی نظروں اور فکروں کے ملنے سے کئی گناہ زیادہ ہو گیا ہے کیونکہ بنیاداسی نے رکھی ہے۔ اس لئے فضیلت اس کے لئے ہے کیونکر فضیلت متقدمیں کے لئے ہے۔
حدیث نبوی میں ہے۔ إِنَّمَا مَثَلُ أُمَّتِي كَمَثَلِ الْمَطَرِ، لَا يُدْرَى أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ
میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے نہیں معلوم کہ اس کا اول اچھا ہے یا اخیر۔
تذییل: بعض مریدوں کے شبہ رفع کرنے کے بیان میں جاننا چاہیئے کہ بزرگوں نے فرمایا ہے۔ اَلشَّيْخُ يُحْيٖ وَيُمِیْتُ(شیخ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے) احیاء اماتت مقام شیخی کے لوازم سے ہے۔ اس احياء واماتت سے مراد روحانی احیاء و اماتت ہے نہ جسمانی اور اس حیات و موت سے مرادفنا و بقاء ہے جو مقام ولایت و کمال تک پہنچاتے ہیں اور شیخ مقتدا اللہ تعالیٰ کے اذن سے ان دو امر کا متکفل (ذمہ دار) ہے۔ پس شیخ کے لئے یہ احیاء واماتت ضروری ہے اور یحی ویمیت کے معنى يبقى ويفنی یعنی باقی رکھنا اور فنا کرنا ہیں۔ جسمانی احیاء و اماتت کو مرتبہ شیخی سے کچھ واسطہ نہیں ۔ مقتدا کہرباء(مقناطیس) کا حکم رکھتا ہے اور جس کسی کو اس سے مناسبت ہوتی ہے۔ خس و خاشاک کی طرح اس کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے اور اپنا حصہ اس سے لے لیتا ہے۔ خوارق و کرامات مریدوں کے جذب کرنے کے لئے نہیں ہیں۔ مرید روحانی اور باطنی مناسبت سے کھچے چلے آتے ہیں اور جوشخص ان بزرگواروں سے نسبت نہیں رکھتا۔ وہ ان کے کمالات کی دولت سے محروم رہتا ہے۔ اگر چہ ہزار ہا معجزے اور خوارق و کرامات دیکھے۔ ابوجہل و ابولہب کا حال اس بات کا شاہد ہے۔
اللہ تعالیٰ کفار کے حق میں فرماتا ہے۔ وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لا يُؤْمِنُوا بِها حَتَّى إِذا جاؤُكَ يُجادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَاّ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ خواہ یہ لوگ کتنے ہی آیات و معجذات دیکھیں ان پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ حتی کہ جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو جھگڑتے ہیں اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ بہت پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ431ناشر ادارہ مجددیہ کراچی