مشائخ کرام کے تین گروہوں کے احوال مکتوب نمبر160دفتر اول

اس بیان میں کہ مشائخ قدس سرہم تین گروہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے احوال اور کمال و نقصان کو شرح مفصل طور پر بیان کرنے میں اس کم ترین غلام یعنی بارمحمد جدید بدخشی طالقانی کے نام لکھا ہے۔ مشائخ طریقت قدس سرہم تین گروہ ہیں :

پہلا گروہ: اس بات کا قائل ہے کہ عالم حق تعالیٰ کی ایجاد سے موجود ہے اور جو کچھ اس میں اوصاف و کمال ہیں سب حق  تعالیٰ کی ایجاد سے ہیں اور اپنے آپ کوشج(اور مثال کے درجے) یعنی ظاہری صورت اور سانچہ سے زیادہ کچھ نہیں جانتے بلکہ شجیت بھی اسی کی طرف سےسمجھتے ہیں اور بحرنیستی میں ایسے گم ہوتے ہیں کہ نہ عالم کی خبر رکھتے ہیں نہ اپنی ۔ اس ننگے شخص کی طرح جس نے جامہ عاریت پہنا ہوا ہو اور وہ جانتا ہے کہ یہ جامہ عاریت ہے اور یہ عاریت کا دیکھنا اس پر ایسا غالب ہو کہ سارے کپڑے کو اپنے اصل کی طرف منسوب کرے اور اپنے آپ کو برہنہ پائے اور اگر ایسے شخص کو بے شعوری اور سکر(مستی) سے شعور اورصحو میں لائیں اورفنا کے بعد بقاء سے مشرف کریں تو اس وقت بھی اگر چہ جامہ کو اپنے اوپر پاتا ہے لیکن یقینا جانتا ہے کہ یہ اور کی طرف سے ہے کیونکہ وہ فنااب علم میں مندرج ہے اور گرفتاری  وتعلق جو اس جامہ کے ساتھ رکھتا تھا۔ کچھ نہیں رہتا۔ ایسے ہی اس شخص کا حال ہے جو اپنے اوصاف و کمالات کو جامہ عاریت کی طرح خیال کرتا ہے لیکن یہ جانتا ہے کہ یہ جامہ و ہم میں ہے۔ خارجہ میں کوئی جامہ نہیں اور میں بالکل ننگا ہوں اور یہ دید یہاں تک غالب آ جائے کہ اس لباس وہمیہ کو بھی سارے کا سارا اتار دے اور اپنے آپ کو بالکل بر ہنہ معلوم کرے اور ہوش وصحو کے بعد اس جامہ وہمی کوبھی اپنے ہمراہ پائے لیکن اول شخص کی فنااتم (کامل)ہے اور بقا جو اس پر مترتب ہے،زیادہ اکمل ہے جیسا کہ عنقریب اس کا بیان آئے گا۔ انشاء اللہ تعالی۔ 

یہ بزرگوار تمام معتقدات کلا میہ میں جو کتاب و سنت و اجماع کے موافق ثابت ہوئے ہیں ۔ علمائے اہلسنت و جماعت کے ساتھ متفق ہیں اور متکلمین اور ان کے درمیان سوائے اس کے اور کچھ فرق نہیں ہے کہ متکلمین اس مطلب کو علمی اور استدلالی (دلیل سے حاصل ہو)طور پر سے حاصل کرتے ہیں اور یہ لوگ کشف وذوق کے طور پر اور نیز بزرگوار حق تعالیٰ کے ساتھ نہایت تنزیہ کے باعث عالم کی کوئی نسبت ثابت نہیں کرتے اور تمام نسبتوں کو سلب کرتے ہیں تو پھر عینیت اور جزئیت یعنی ایک دوسرے کاعین  اور جزو ہونے کا کیا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے لیکن مولی اور عبد اور صانع ومصنوع ہونے کی نسبت ثابت کرتے ہیں اس وقت فنا حقیقی سے مشرف ہو کر تجلیات ذاتیہ کی قابلیت پیدا کرتے ہیں اور بے اندازہ تجلیات کا مظہر ہو جاتے ہیں۔ 

دوسرا گروہ: عالم کوحق تعالیٰ کاظل جانتا ہے لیکن اس بات کے قائل ہیں کہ عالم خارج میں موجود ہے لیکن بطریق ظلیت نہ بطریق اصالت اور ان کا وجود حق تعالیٰ کے وجود سے قائم ہے نہ جیسا کہ سایہ اپنے اصل سے قائم ہوتا ہے۔ 

مثلا ایک شخص کا سایہ دراز ہوا اور اس شخص نے اپنی کمال قدرت سے اپنی صفات ازقسم علم و قدرت و اراده و غیرہ  حتی کہ لذت و الم کوبھی منعکس کردیا۔ پس اگر بالفرض وہ سایہ آگ پر پڑے اور اس سے دردناک ہو جائے تو ازروئے عقل اور عرف کے یہ نہ کہیں گے کہ وہ شخص دردناک ہوا ہے جیسا کہ تیسرا گروہ اس کا قائل ہے ۔ علی ہذالقیاس تمام برے افعال جومخلوقات سے صادر ہوتے ہیں نہیں کہہ سکتے کہ حق تعالیٰ کافعل ہیں جیسا کہ سایہ اپنے ارادہ سے حرکت کرتا ہے تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص متحرک ہے۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی قدرت و ارادات کا اثر ہے یعنی اس کی مخلوق ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ برے کا پیدا کرنا برا نہیں ہے بلکہ برے کا فعل و کسب براہے۔ 

تیسرا گروہ: وحدت وجود کا قائل ہے ۔ یعنی خارج میں فقط ایک ہی (ذات میں)موجود ہے اور وہ حق تعالیٰ کی ذات ہے اور عالم کا خارج میں علمی ثبوت کے سوا ہرگز کوئی ثبوت ثابت نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ اَلْأَعْیَانُ مَا شَمَّتْ رَائِحَةُ الْوُجُوْدِاعیان ثابتہ نے وجود کی بو ہی نہیں سونگھی) اور اگر چہ  یہ لوگ بھی عالم کو حق تعالیٰ کاظل کہتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ان کا ظلی و جودوصرف مرتبہ حس میں ہے۔ مرتبہ نفس الامر اور خارج میں عدم محض ہے اور حق تعالیٰ کی ذات کو صفات و جو بیہ اور امکانیہ سے متصف جانتے ہیں اور مراتب تنزلات ثابت کرتے ہیں اور ہر مرتبہ میں ذات احد کو اس مرتبہ کے لائق احکام سے متصف کرتے ہیں اور متلذ ذ اور متالم اسی ذات کو جانتے ہیں لیکن اس محسوسہ متوہمہ ظلال کے پردہ اور عقلی اور شرعی طور پر بہت سے محظورات یعنی اشکال ان پر وارد ہوتے ہیں جن کے جواب میں بہت سے حیلے اور تکلف کرتے ہیں ۔ اگر چہ یہ لوگ وصل و کمال کے درجات کی تفاوت کے موافق واصل وکامل ہیں لیکن ان کی باتیں خلقت کو گمراہی اور الحاد کی طرف رہنمائی کر کے زندقہ تک پہنچا دیتی ہیں۔ 

پہلے گروہ کے لوگ اتم و اکمل ہیں اور کتاب وسنت کے ساتھ اسلم  و اوفق ہیں لیکن ان کا اسلم اور وافق ہونا خود ظاہر ہے اور اکمل واتم ہونا اس وجہ سے ہے کہ وجود انسانی کے بعض مراتب نہایت لطافت اور تجرد(جو مادہ سے پاک ہوں)کے باعث مبدء کے ساتھ پوری پوری مشابہت اور مناسبت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ خفی اور اخفی۔ . 

پس وہ لوگ جو باوجودفنائے سری کے ان مرتبوں کو مبدء سے جدا نہیں کر سکتے تا کہ لا کے نیچے لا کر ان کی نفی نہ کر سکیں بلکہ مبدء ان کے نزدیک باہم ملے ہوئے اور ایک دوسرے کی مانند رہتے ہیں اور اپنے آپ کوعین حق پاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خارج میں فقط حق سبحانہ ہی موجود ہے اور ہمارا ہرگز وجودنہیں ہے لیکن جب آ ثار خار جیہ کا بیشمار ہونا ثابت ہوتا ہے تو ناچار ثبوت علمی کے قائل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اعیان(علمی صورتوں کا نام) کو وجود اور عدم کے درمیان برزخ کہتے ہیں اور چونکہ مخلوقات کے وجودوں کے بعض مراتب کو مبدأ سے جدا نہ کر سکے اس لئے اس کے وجود کے وجوب کے قائل نہ ہو کر برزخ ہونے کے قائل ہوئے اور وجوب کے رنگ کوممکن میں ثابت کر دیا اور یہ نہ جانا کہ وہ رنگ بھی ممکن ہی کا رنگ ہے جو واجب کے مشابہ ہے اگرچہ صورت اور اسم میں ہے اور اگر اس رنگ کو جدا کرتے اور ممکن کو کلی طور پر واجب سے الگ کرتے ہرگز ہرگز اپنے آپ کو حق تعالیٰ نہ دیکھتے بلکہ عالم کو حق سے جدا کرتے اور ایک وجود کے قائل نہ ہوتے اور جب تک انسان سے کچھ اثر باقی رہے اپنے آپ کوحق نہیں جانتا۔ اگر چہ جانتا ہے کہ مجھ سے اثر باقی نہیں رہا۔ یہ بھی اس کی کوتاه نظری کے باعث ہے۔ 

اور دوسرے گروہ نے بھی اگر چہ ان مرتبوں کو مبدأ سے جدا دیکھا اور کلمہ لا میں لا کر ان کی نفی کر دی لیکن ایک دوسرے کےظل اور اصل ہونے کے باعث ان کے وجود کے بقیوں میں سے ایک چیز ثابت رہی کیونکہ ظل کا اصل کے ساتھ تعلق کا رشتہ بہت قوی ہے۔ یہ نسبت ان کی نظر سے محونہ ہوئی۔ 

لیکن پہلے گروہ نے حضرت رسالت خاتمیت ﷺکی کامل مناسبت و متابعت کے باعث ممکن کے تمام مراتب کو واجب سے جدا کیا اور سب کو کلمہ لا کے نیچے لا کر ان کی نفی کر دی اور ممکن کی واجب کے ساتھ کچھ مناسبت نہ دیکھی اور کسی نسبت کو اس کے ساتھ ثابت نہ کیا اور اپنے آ پ کو بندہ مخلوق غیر مقدور یعنی عاجز کے سوا کچھ نہ پہچانا اور حق تعالیٰ کو اپنا مولی اور خالق جانا۔ 

اپنے آپ کو مولی جاننا یا اس کا سایہ خیال کرنا ۔ ان بزرگواروں پر بہت بھاری اور دشوار ہے۔ ۔

مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبُّ الْاَرْبَابِ(چہ نسبت خاک را با عالم پاک ،خاک کو عالم پاک سے کیا نسبت)

یہ بزرگوار اشیاء کو اس سبب سے کہ حق تعالیٰ کی مخلوق ہیں، دوست رکھتے ہیں اور ان کی نظر میں محبوب دکھائی دیتی ہیں اور اس سبب سے کہ حق تعالیٰ کی مصنوع ہیں اور ان کے افعال بھی اسی کے مصنوع ہیں،اشیاء کے پورے پورے تابعدار اور فرمانبردار ہوتے ہیں اور افعال پر سوائے انکار شریعت کے کچھ انکار نہیں کرتے اور جیسا کہ ارباب توحید کو اشیاء کے ساتھ ان کے مظہر ہونے کے باعث بلکہ حق سبحانہ کی نسبت اشیاء کے عین ہونے کی وجہ سے اس قسم کی محبت و تابعداری حاصل ہوتی ہے ان لوگوں کو صرف ان کے مصنوع ومخلوق ہونے سے حاصل ہوجاتی ہے۔

بہ بیں تفاوت رو از کجاست تا یکجا ترجمہ: دیکھ دونوں میں کس قدر ہے فرق 

محبوب کےعین کو تھوڑی سی محبت سے بھی دوست رکھ سکتے ہیں لیکن اس کے ممنوع اور مخلوق اور بندوں کو جب تک محبوب کی کامل محبت حاصل نہ ہو۔ دوست نہیں رکھتے اورمحبوب خیال نہیں کرتے۔ 

اک طائفہ علیہ کو مقام عبدیت(ولایت کے مراتب میں آخری مرتبہ اسے وحدۃ الشہود بھی کہتے ہیں) سے جو تمام مقامات ولایت کی نہایت ہے۔ کامل حصہ حاصل ہوتا ہے اور ان بزرگواروں کے صحت حال پر اس سے بڑھ کر اور کونسی دلیل ہے کہ ان کے تمام کشف کتاب و سنت اور ظاہر شریعت کے موافق ہیں اور ظاہر شریعت سے سرمومخالف نہیں ہیں۔ اللهم اجعلنا من محبيهم ومتابعيهم بحرمة محمد ن المصطفى صلى الله تعالى عليه وآله وسلم یا اللہ تو اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ  کے طفیل ان لوگوں کےمحبوں اور تابعداروں میں سے بنا۔ 

یہ درویش(مرادحضرت مجدد صاحب رحمتہ اللہ علیہ) جس سے ان سطروں کا استفاد ہ ہواہے پہلے توحید کا معتقد تھا اور بچپن کے زمانہ سے اس توحید کا علم رکھتا تھا اور یہ علم یقین تک پہنچ چکا تھا۔ ہر چند حال نہ رکھتا تھا اور جب اس راہ میں آیا پہلے توحید کا راہ منکشف ہوا اور کچھ مدت تک اس مقام کے مرتبوں میں جولان کرتا رہا اور بہت سے علوم جواس مقام کے مناسب تھے، فائز ہوئے اور وہ مشکلات و واردات جو توحید والوں پر وارد ہوتی ہیں ۔ کشوف اور علوم فائضہ کے ساتھ سب حل ہوگئیں کچھ مدت کے بعد ایک اور نسبت نے اس درویش پر غلبہ کیا اور اس کے غلبہ میں توحید میں توقف کیا لیکن یہ توقف حسن ظن سے تھا، نہ انکار سے کچھ مدت تک تو انکار میں متوقف رہا۔ آخر کار انکار تک نوبت بن گئی اور ظاہر ہوا کہ یہ مرتب نہایت ہی پست ہے۔ مقام ظلیت(ولایت کے بلند مقام عبدیت سے نیچے مقام ظلیت ہے) میں اسباب پہنچانا چاہیئے لیکن فقیر اس انکار میں بے اختیار تھانہیں چاہتا تھا کہ اس مقام سے نکلے کیونکہ بڑے بڑے مشائخ اس مقام میں اقامت رکھتے تھے اور جب مقام ظلیت میں پہنچا اور اپنے آپ کو اور عالم کوظل معلوم کیا جیسا کہ دوسرے گروہ کے لوگ قائل ہیں ۔ تب یہ آرزو ہوئی کہ کاش فقیر کو اس مقام سے  نہ نکالیں کیونکہ فقیر وحدت وجود کو کمال جانتا تھا اور یہ مقام کچھ کچھ اس سے مناسبت رکھتا تھا۔ اتفاقا کمال عنایت اور غریب نوازی سے اس مقام سے بھی اوپر لے گئے اور مقام عبدیت تک پہنچا دیا اس وقت اس مقام کا کمال نظر آیا اور اس کی بلندی ظاہر ہوئی اور گزشتہ مقامات سے توبہ و استغفار کی اور اگر اس درویش کو اس طریق پر اوپر نہ لے جاتے اور بعض سے بعض کی بلندی و فوقیت ظاہر نہ کرتے تو اپنے تنزل کو اس مقام میں جانتا کیونکہ اس کے نزدیک توحید وجودی سے بڑھ کر کوئی اور بلند مقام نہ تھا وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ ‌يَهْدِي ‌السَّبِيلَ  الله تعالیٰ حق ثابت کرتا ہے اور سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ علوم و معارف کی تفاوت کا منشا مکتوب اور رسالوں میں جو اس درویش سے بلکہ ہر سالک سے جو بیان ہوا ہے۔ یہی مقامات متفاوت کے حاصل ہونے کا تفادت ہے کیونکہ ہر مقام کے لئے علوم و معارف جدا ہیں اور ہر حال کے لئے قال علیحدہ ہے۔ 

پس در حقیقت علوم میں کوئی تدافع اور تناقض نہیں ہے بلکہ احکام شرعیہ کےنسخ کی طرح ہے۔ فَلَا تَكُنْ مِنَ ‌الْمُمْتَرِينَ پس کوئی  شک نہ کر۔

وصلى الله تعالى سيدنا محمد واله وسلم۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ351ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں