مقدرات کا اعلیٰ منصف

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

جب اللہ تعالی کسی بندے کی دعا قبول فرمالیتا ہے اور اس کی تمنا پوری کر دیتا ہے تواس سے اللہ تعالی کے ارادے، تقدیر اور علم سابق پر کوئی حرف نہیں آتا۔ بلکہ جب بندے کی دعا الله تعالی کی مراد اور متعینہ وقت کے موافق ہوتی ہے تو الله تعالی دعا قبول فرما لیتا ہے اور مقررہ وقت پر بندے کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کے علم سابق اور تقدیر میں اس ضرورت کے پورا ہونے کا ایک وقت تھا۔ ادھر وقت آپہنچا۔ ادھر بندے نے بارگاہ خداوندی میں دعا کر دی۔ دعا اور قبولیت کے وقت میں موافقت ہو گئی اور بندے کی دعا کو قبول کر لیا گیا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بندے کی دعا سے اللہ تعالی کا ارادہ تبدیل ہو گیا۔ یا تقدیربدل گئی۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ہر روز وہ ایک نئی شان سےتجلی فرماتا ہے 

یعنی وہ مقادیر کو مواقیت کی طرف لے جاتا ہے۔ دنیا میں محض دعاسے اللہ 

تعالی کسی کو کچھ نہیں دے دیتا اور نہ ہی محض دعاسے کسی کی تکلیف کو دور کر تا ہے۔ 

اور وہ جو حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : . لَا ‌يَرُدُّ القَضَاءَ إِلَّا ‌الدُّعَاءُ

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس دعا کے بارے یہ فیصلہ ہو چکا ہو تا ہے کہ اس سے تقدیر بدل جائے گی صرف اسی سے تقدیر بدلتی ہے۔ ہر دعاسے نہیں۔ اسی طرح کوئی شخص اپنے عمل کی بناء پر جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اللہ تعالی کی رحمت کے طفیل اسے یہ سعادت نصیب ہوگی لیکن بہر حال مسلم امر ہے کہ اللہ تعالی اپنوں کے درجات میں تفاوت ان کے اعمال کےتفاوت کی وجہ سے روارکھے گا۔ 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں آیا ہے کہ : إنها سألت النبي صلى الله تعالى عليه وعلى آله واصحابه وسلم هل يدخل أحد الجنة بعمله؟ فقال .لا. بل برحمة الله تعالى قالت ولا أنت فقال ولا آنا إلا أن يتغمدني الله برحمته ووضع يده على هامته .

آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے نبی کریم رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا۔ کیا کوئی اپنے عمل کی بنا پر جنت جائے گا؟ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ اللہ کی رحمت کے طفیل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا۔ آپ بھی نہیں ؟ فرمایا۔ میں بھی نہیں۔ الا یہ کہ اللہ تعالی مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔ (یہ کہتے ہوئے) آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اپنے سراقدس پر رکھا ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کےذمے کسی کا حق واجب نہیں ہے اور نہ ہی اللہ تعالی پر لازم ہے کہ کیا سے عہد پورا کرے۔ بلکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔ جس پر چاہتا ہے رحمت فرماتا ہے۔  جسے چاہتا ہے نواز تا ہے۔ جو چاہتا ہے کر گذر تا ہے۔ اس سے پوچھا نہیں جا سکتا کہ کیا کہا۔ کیوں کہا۔ ہاں وہ پوچھتا ہے۔ جسے چاہتا ہے اپنے فضل و احسان سے بے حساب رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنےعدل کی بنا پر محروم کر دیتا ہے۔ 

اور ایسا کیوں نہ ہو عرش تا فرش سب اسی کی ملکیت ہے۔ اس کے علاوہ 

کوئی مالک وصانع نہیں ہے۔ فرمایا۔ 

هَلْ مِنْ ‌خَالِقٍ ‌غَيْرُ اللَّهِ کیا اللہ کے بغیر کوئی اور خالق بھی ہے؟

 أَإِلَهٌ ‌مَعَ ‌اللَّهِ. کیا کوئی اور خدا ہے الله تعالی کے ساتھ ؟ 

هَلْ تَعْلَمُ لَهُ ‌سَمِيًّا کیا تم جانتے ہو اس کا کوئی ہم مثل ہے ؟“

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ  تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

اے حبیب یوں) عرض کرو)۔ اے اللہ !مالک سب ملکوں کے توبخش دیتا ہے ملک جسے چاہتا ہے اور چھین لیتا ہے ملک جس سے چاہتا ہے۔ اور عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور ذلیل کر تا ہے جس کو چاہتا ہے۔ تیرے ہی ہاتھ میں ہے ساری بھلائی۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تو داخل کر تا ہے رات (کا حصہ ) دن میں اور داخل کر تا ہے دن (کا حصہ ) رات میں۔ اور نکالتا ہے تو زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے۔ اور رزق دیتا ہے جسے چاہتا ہے بے حساب ۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 174 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں