منافق کی پہچان

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کے ملفوظات میں سے ہے۔

صالحین کا انکار کرنے والا منافق اور دجال ہے:

اہل اللہ میں سے صالحین کے حالات کا انکار وہی کرتا ہے جو منافق ودجال ہو، اور اپنی خواہش پر سوار ہو، یہ امرصحیح اعتقاداور اس کے بعدعمل کر نے پر منحصر ہے، جو ظاہر شریعت پر عمل پیرا ہوتا ہے، اسے اللہ کی معرفت کا وارث بنا دیا جاتا ہے اور اس سے آگاہ کر دیا جا تا ہے ۔ حکم ، اس کے اور مخلوق کے بیچ میں ہوتا ہے، جبکہ علم ، اس کے اور خالق کے درمیان ، اس کے ظاہری اعمال ، باطنی اعمال کے مقابلے میں ایک ذرے کی مانند ہو جاتے ہیں، اس کے اعضا ءسکون میں ہوتے ہیں جبکہ دل سکون نہیں کرتا ۔ اس کی ظاہری آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن دل جا گتارہتا ہے اور ذکر کرنے میں لگار ہتا ہے، ۔۔ اللہ کے ایک ولی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے ہاتھ میں تسبیح تھی جس پر ذکر کر رہے تھے، آ نکھ لگ گئی، کچھ دیر بعد آنکھ کھلی  تسبیح پرنظر پڑی تو دیکھا کر تسبیح کے دانوں پر ان کی انگلیاں چل رہی ہیں، اور زبان پر اللہ کا ذکر برابر جاری ہے،

– اس کے دل کوعمل کا حکم ملتا ہے،وہ عمل میں لگ جاتا ہے۔

اس کے باطن کوعمل کا حکم ملتا ہے، وہ عمل میں لگ جا تا ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے:  اللہ والوں کے لئے اس کے سوا اور بھی عمل ہیں، جو وہ کرتے رہتے ہیں۔

ظاہری عمل اعضاء کے اعتبار سے عام لوگوں کے لئے ہیں جبکہ باطنی عمل دلوں اور باطنی اعتبار سے خاص بندوں کے لئے ہیں۔ اندرون خانہ ہونے والے راز و نیاز ان کے اور خالق کے درمیان ہوتے ہیں ، جن پر اوروں کو خبرنہیں ہوتی ۔۔۔اتنے قرب کے باوجودیہ خوف کے قدم پر کھڑے ڈرتے رہتے ہیں۔ کہیں دوسروں کی طرح ان کے حالات نہ بدل دیئے جائیں،

 کہیں انہیں قرب کے مرتبہ سے ہٹانہ دیا جاۓ ،

 کہیں ان کے قلب مسخ نہ کر دیئے جائیں۔

 کہیں ان کے چاند سورج گرہن میں نہ آ جائیں، ۔

 کہیں ان کے پاؤں پھسل نہ جائیں۔

یہ ہمیشہ انہی خیالوں میں پڑے قرب الہی کی زنجیر  سے لٹکے رہتے ہیں اور اس کے دامن رحمت کو تھامے یہی التجا کرتے رہتے ہیں:

 ربنا لا نريد بقاء الإيمان والمعرفة تصدق علينا بذلك قد تمسكنا بذيل رحمتك فلا تخيب ظننا فيك كون لنا ذلك فإنك إذا أردت أمرا قلت له كن فيكون  ”اے ہمارے رب! ہم تجھ سے دنیا و آخرت کچھ نہیں چاہتے بلکہ ہم دین میں عفو و عافیت چاہتے ہیں ۔ اور ہم ایمان و معرفت کی بقاء کے طالب ہیں، تو ہی بطورصدقہ ہمیں عطا فرما، ہم نے تیری رحمت کا دامن تھام لیا ہے۔ ہم تیرے ساتھ جو گمان رکھتے ہیں، ہمیں اس میں خائب وخاسر نہ کر دینا ۔۔۔ تو ہماری اس مراد کو پورا فرما دیے۔ کیونکہ تو جب کسی امر کا ارادہ کر لے تو اسے کن فرما دیتا ہے اور وہ ہو جا تا ہے۔

فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 572،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں