مولانا روم کے ایک مقالہ کی تشریح مکتوب نمبر 211دفتر اول

ایک سوال کے جواب میں جو مولوی علیہ الرحمتہ کے مقولہ کے بارے میں کیا گیا تھا اور مقام تکمیل اور ارشاد کی ضروری شرطوں کے بیان میں مولانا یارمحمدقدیم بدخشی کی طرف لکھا ہے۔ 

میرے عزیز بھائی مولانا یارمحمد قدیم کامکتوب مرغوب پہنچ کر فرحت کا موجب ہوا۔ حضرت حق تعالیٰ بحرمت النبی و آلہ الامجادصلی اللہ علیہ وعلیہم الصلوة والسلام، کمال اورتکمیل کی بلندی تک پہنچائے۔ 

مولوی(مولانا روم) علیہ الرحمہ کے مقولے کی نسبت پوچھا تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ وہ نازنین(محبوب) جو میری بغل میں تھاوہ حق تعالیٰ تھا۔ آیا اس قسم کی باتیں کہنی جائز ہیں یا نہیں تو جاننا چاہیئے کہ اس قسم کی باتیں اس راہ میں بہت واقع ہوتی ہیں اور زبان پر آتی ہیں۔ اس قسم کا معاملہ تجلی صوری کا ہے ۔

کہ صاحب معاملہ اس صورت متجلی(ظاہر یا منکشف ہونا)   کو حق تعالیٰ خیال کرتا ہے ورنہ بات دراصل وہی ہے جوشیخ بزرگ امام ربانی خواجہ یوسف ہمدانی قدس سرہ فرمائی ہے۔ تِلْکَ خِیَالَاتٌ تُرَبّٰي بِهَا أَطْفَالُ الطَّرِيْقَةِ یہ وه خیال ہیں جن سے طریقت کے بچوں کی تربیت کی جاتی ہے۔ 

دوسرا یہ کہ چونکہ آپ کو طریقہ سکھانے کی ایک قسم کی اجازت دی گئی ہے اس لئے اس بارہ میں چندفائدے لکھے جاتے ہیں ۔ گوش ہوش سے سن کر ان پرعمل کریں۔ 

جاننا چاہیئے کہ جب کوئی طالب آپ کے پاس ارادت سے آئے اس کے طریقہ سکھانے میں بڑاتامل کریں۔ شاید اس امر میں آپ کا استدراج (شعبدہ بازی) مطلوب ہو اور خرابی منظور ہو۔ خاص کر جب کسی مرید کے آنے میں خوشی وسرور پیدا ہو چاہیئے کہ اس بارے میں التجاوتضرع کا طریقہ اختیار کر کے بہت سے استخارے کریں تا کہ یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ اس کو طریقہ سکھانا چاہیئے اور استدراج وخرابی مراد نہیں کیونکہ حق تعالیٰ کے بندوں میں تصرف کرنا اور اپنے وقت کو ان کے پیچھے ضائع کرنا۔ خدائے تعالیٰ کے اذن کے بغیر جائز نہیں۔ آیت کریمہ ‌لِتُخْرِجَ ‌النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ( تاکہ تو لوگوں کو میرے سے نور کی طرف نکالے۔ اللہ کے اذن سے) اس مطلب پر دلالت کرتی ہے۔ 

ایک بزرگ فوت ہوگیا اس کو خطاب ہوا کہ تو وہی ہے کہ جس نے میرے دین میں میرے بندوں پر زرہ پہنی تھی۔ اس نے کہا ہاں فرمایا کہ تو نے میرے خلق کو میری طرف کیوں نہ چھوڑا اور دل کو کیوں نہ میری طرف متوجہ کیا۔ 

اور وہ اجازت جو آپ کو اور دوسروں کو دی گئی ہے چند شرائط  پرمشروط ہے اور حق تعالیٰ کی رضامندی کا علم حاصل کرنے پر وابستہ ہے۔ ابھی وقت نہیں آیا کہ مطلق اجازت دی جائے۔ اس وقت کے آنے تک شرائط کو اچھی طرح مدنظر رکھیں۔ اطلاع دینا شرط ہے اور میر نعمان کی طرف بھی یہی لکھا گیا ہے۔ وہاں سے معلوم کر لیں ۔ غرض کوشش کریں تا کہ وہ وقت آجائے اور شرائط کی تنگی سے چھوٹ جائیں۔ والسلام۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول(حصہ دوم) صفحہ89ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں