غیرمشہورہ معانی میں قرب و بعد وفرق ووصل کے حامل ہونے اور ان کے مناسب بعض علوم کے بارے میں۔ یہ بھی اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے ۔
حضور کا احقر خادم عرض کرتا ہے کہ مدت ہوئی ہے کہ اس بلند درگاہ کے خادموں کے حالات سے اطلاع نہیں تھی۔ ہردم انتظار ہے ۔
عجبے نیست اگر زندہ شور جان عزیز چوں ازاں یار جدا مانده پیامے برسد
کیا عجب کہ میری جان کو تازہ زندگی ملے اگر دور دراز کے محبوب کا پیغام آجائے
جانتا ہے کہ حضور کی دولت کے لائق نہیں ہے۔
و این بس کہ رسد ز دور بانگ جرسم
ترجمہ: ع یہی کافی ہے کہ دور سے گھنٹیوں کی آوازیں آتی رہیں۔
عجب معاملہ ہے کہ بُعد کا نام قُرب رکھا ہے اور نہایت فراق کو وصل کہتے ہیں۔ گویا در حقیقت اس کےضمن میں قرب و وصال کی نفی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ شعر
كَيْفَ الْوُصُوْلُ إِلىٰ سُعَادَ وَدُوْنَهَا قُلَلْ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ خُيُوْفُ
میں سعاد تک کعب کیسے پہنچوں کس قدر خوفناک راستے ہیں
پس اسی واسطے ہمیشہ کاغم اور دائمی فکر دامنگیر ہے۔ مراد کو بھی آخر کار مرید کی ارادت پر مرید ہونا پڑتا ہے اورمحبوب کومحب کی محبت پر محب ہونا پڑتا ہے۔
دین و دنیا کے سردار آنحضرت ﷺمرادیت اور محبو بیت کے مقام کے با وجود محبین اور مریدین سے ہوئے ہیں۔ اسی واسطے آپ کے حال کی نسبت یوں خبر دی ہے کہ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَاصِلَ الْأَحْزَانِ دَائِمَ الْفِكْرِ (رسول اللہ ﷺہمیشہ غم کرنے والے اور دائمی فکر کرنے والے تھے) اور آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ ما أؤذى نبي مثل ما أوذيت (جس قدر مجھے ایذ ادی گئی ہے کسی اور نبی کوو یسی ایذ انہیں دی گئی۔) محب، محبت کے بوجھ کو اٹھاسکتے ہیں ۔ محبوبوں کو اس بوجھ کا اٹھانا دشوار ہے۔ یہ قصہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ع
قصة العشق لا نفصام لها
ترجمہ: ع قصہ عشق کانہیں انجام
حامل عریضہ ہذاا لہ بخش ایک قسم کا جذب ومحبت رکھتا ہے اس کے اصرار سے چند کلمے حضور کے خادموں کی طرف لکھے گئے ہیں۔ الغرض خدمت و ملازمت کا شوق ظاہر کر کے ان حدود کی طرف متوجہ ہوا ہے۔اول اول اس نے اپنے بعض اور ارادوں کو ظاہر کیا تھا جب اس بارے میں خاکسار کی طرف سے سستی معلوم کی تو اب صرف ملاقات پر راضی ہوکر اس نے چند باتیں لکھوائیں۔ زیادہ گستاخی ادب سے دور ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ57 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی