أن احوال کے بیان میں جو نیچے اترنے کے مقام یعنی مقام نزول سے مناسبت رکھتے ہیں۔ یہ بھی اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے۔
یہ سیاه رو بد بخت اور بد خوگنہگار اپنے وقت و حال پر غرور اور دصل و کمال پر فریفتہ ہوا ہوا کیا عرض کرے۔ جس کا کام سر بسر مولی کی نافرمانبرداری ہے اور اس کا عمل عزیمت اور اولیٰ کا ترک کرنا ہے۔ خلق کی نظرگاه یعنی اپنے ظاہری وجود کو آراستہ کیا ہوا ہے اور خدائے تعالی کے منظر یعنی دل کو خراب کیا ہوا ہے۔ اس کی ساری ہمت ظاہر کے آراستہ کرنے پر لگی ہوئی ہے اور اس کا باطن اس باعث سے ہمیشہ رسوائی میں ہے اس کا قال اس کے حال کے مخالف ہے اور اس کا حال اس کے اپنے خیال پرمبنی ہے اس خواب و خیال سے کیا ہوتا ہے اور اس قال و حال سے کیا بنتا ہے۔ بدبختی اور خسارہ اس کو حاصل ہے اور سرکشی اور گمراہی اس کے شامل حال۔
فساد اور شرارت کا مبدأ اورظلم ومعصیت کا منشاء (پیدا ہونے کی جگہ)ہے غرض مجسم عیوب اور مجموعہ گناہ اس کی نیکیاں لعنت اور رد کرنے کے لائق ہیں۔ اس کی بھلائیاں طعن و دفع کرنے کے مستحق- رب قاری القران والقران يلعنه (بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان کولعنت کرتا ہے) اس کے حق میں عادل گواہ ہے اور کم من صائم ليس له من صيامه إلا الظماء والجوع (بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو روزہ سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا) اس کی شان میں سچا گواہ ہے۔
پس افسوس ہے اس پر جس کا حال اور مرتبہ اور کمال اور درجہ ایسا ہو اس کا استغفار اس کے تمام گناہوں کی مانند گاہ ہے بلکہ ان سے بڑھ کر ہے اور اس کی توبہ اس کی تمام برائیوں کی طرح برائی ہے بلکہ ان سے زیادہ بری ہے۔ کل مايفعله القبیح قبيح (برا آدی جو کچھ کرتا ہے برا ہی ہوتا ہے اس بات کا مصداق ہے۔ع
ا ز گندم جوز جو گندم نیا ید ترجمہ: ع نہیں گندم سے جواگتے نہ جو سے گندم اگتی ہے
اس کی مرض ذاتی ہے جو علاج قبول نہیں کرتا اور اس کی بیماری اصلی ہے جو دوا قبول نہیں کرتی جو چیز کسی کی ذات میں داخل ہو یعنی ذاتی ہووہ ہرگزذات سے دور نہیں ہوتی ۔ ع
سیاہی از حبشی کے رود کہ خود رنگ است
ترجمہ: ع سیاہی رنگ حبشی سے بھلا کب دور ہوتی ہے
کیا کیا جائے ۔ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ. (اللہ تعالی نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے) ہاں خیرمحض (سراسر بھلائی)کے لئے شریر محض ہونا چاہے تا کہ خیریت کی حقیقت ظاہر ہو وَبِضِدِّھَا تَتَبَيَّنُ الْأَشْيَاءُ (اور چیزیں اپنی ضدوں ہی سے پہچانی جاتی ہیں) خیر و کمال مہیا تھا شرو نقص اس کے لئے چاہئے تھا۔ حسن و جمال کے لئے آئینے کی ضرورت ہے اور آئینہ نہیں ہوتا مگر کسی شے کے مقابل۔
پس معلوم ہوا کہ خیر کے لئے شر اور کمال کے لیے نقص بمنزلہ آئینے کے ہے۔ پس جس چیز میں نقص وشرارت زیادہ ہوگا ۔ اسی قدر خیروکمال اس میں زیادہ نمایاں ہوگا۔
عجب معاملہ ہے کہ اس ذم(برائی) میں مدح کے معنی پیدا کئے اور یہ شرارت و نقصان خیر وکمال کا محل ہوگیا۔
پس یہی وجہ ہے کہ مقام عبدیت تمام مقامات سے بلند ہے کیونکہ یہ معنی مقام عبدیت میں کامل اور پورے طور پر پائے جاتے ہیں۔ محبوبوں کو اس مقام سے مشرف فرماتے ہیں اور محب شہود(مشاہدہ) کے ذوق سے لذت پاتے ہیں۔ بندگی میں لذت کا حاصل ہونا اور اس کے ساتھ انس(بندگی) پکڑنا محبوبوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ محبوں کا انس محبوب کے مشاہدہ میں ہے۔ محبوبوں کا انس محبوب کی بندگی میں ۔ اس انس میں ان کو اس (دید نقص کی) دولت سے مشرف کرتے اور اس نعمت سے سرفراز فرماتے ہیں۔
اس میدان کے تیز رفتار شہسوار دین و دنیا کے سردار اور اولین و آخرین کے سردار حبیب رب العالمین ﷺہیں اور جس کسی کو محض اپنے فضل سے یہ دولت بخشنا چاہتے ہیں اس کو آنحضرت ﷺکی کمال متابعت عنایت فرماتے ہیں اور اس وسیلہ سے اس کو بلند درجہ پر لے جاتے ہیں ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالی کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالی بڑے فضل والا ہے۔)
کمال شر اورنقص سے مراد اس کا علم ذوقی ہے نہ یہ کہ شرارت ونقص سے متصف ہو۔ اس علم والا اللہ تعالی کے اخلاق سے متخلق ہے اور یہ علم بھی اسی تخلق کےثمروں میں سے ہے۔ شرارت ونقص کو اس مقام میں کیا مجال ہے۔ سوائے اس کے کہ علم اس کے متعلق ہو۔ یہ علم شہود تام (کامل مشاہدہ) کی وجہ سے خیرمحض ہے کہ جس کے پہلو میں سب کچھ شر دکھائی دیتا ہے۔ یہ معاملہ نفس مطمئنہ کے اپنے مقام پر اتر آنے کے بعد ہے۔
پس بندہ جب تک اس طرح اپنے آپ کو زمیں پر نہ ڈالے اور کام یہاں تک نہ پہنچائے۔ اپنے مولائے جل شانہ کے کمال سے بے نصیب ہے۔ پس اس کا کیا حال ہوگا جو اپنے آپ کو عین مولا جانے اور اپنی صفات کو اس ذات پاک کی صفات خیال کرے۔ تعالی اللہ عن ذالک علوا کبیرا(اللہ تعالی اس بات سے بہت بلند و برتر ہے)یہ امر اسماء و صفات میں الحادو زندقہ ہے۔ اس عقیدے والے لوگ اس گروہ میں شامل ہیں جن کے حق میں یہ آیت ہے وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ( ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں) یہ نہیں کہ جس کا جذبہ سلوک پر مقدم ہے، محبو ہین میں سے ہے لیکن محبوبیت میں جذبہ کا اول ہونا شرط ہے ہاں ہر جذبہ میں محبوبیت کے ایک قسم کے معنی حاصل ہیں کہ جن کے بغیر جذبہ نہیں ہوتا اور وہ معنی عوارض سے پیدا ہوئے ہیں۔ ذاتی نہیں ہیں اور وہ ذاتی معنی کسی شے سے معلل اور وابستہ نہیں ہیں جس طرح ہرمنتہی کو آخر جذبہ حاصل ہے لیکن محبوں کے زمرہ میں داخل ہے نہ زمرہ محبوبین میں اسی طرح عارض کے سبب محبوبیت کے معنی پیدا ہوئے ہیں اور یہ بات اس کے حق میں کافی نہیں ہے اور وہ عارض تصفیہ اور تزکیہ (رذائل سے پاک) ہے اور بعض مبتدیوں میں آنحضرت ﷺکی اتباع اگر چہ بعض امور میں ہو مجمل طور پر اس معنی کے حاصل ہونے کا باعث ہے بلکہ منتہی میں بھی اتباع ہی ہے اور محبوبوں میں اس محبوبیت ذاتیہ کے معنی کا ظہور فضل ربی ہونے کے باوجود آنحضرت ﷺکی اتباع سے وابستہ ہے بلکہ میں کہتا ہوں وہ ذاتی معنی بھی آنحضرت ﷺکی ذاتی مناسبت کی وجہ سے ہیں اور وہ اسم جو اس کا رب ہے اس خصوصیت کے حق میں اس اسم کے مناسب واقع ہوا ہے جو آنحضرت ﷺکا رب ہے اور وہاں سے یہ سعادت حاصل کی ہے۔ والله سبحانه اعلم بالصواب واليه المرجع والماب والله يحق الحق وهو يهدي السبيل (اور اللہ تعالی بہتر جانتا ہے اور اسی کی طرف بازگشت ہے اور اللہ حق ظاہر کرتا ہے اور سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔)
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ53 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی