بڑے درجے والے مہینے ماہ رمضان کی فضیلتوں اور حقیقت محمدی علیہ وعلی آلہ الصلوة والسلام کے بیان میں۔ یہ بھی اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا ہے۔
حضور کے خادموں میں سے ذلیل اور حقیر خادم گزارش کرتا ہے کہ مدت سے حضور کا کوئی نوازش نامہ صادر نہیں ہوا اور اس بلند درگاہ کے خادموں کے احوال کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ہر دم انتظار ہے۔ ماہ مبارک رمضان شریف کا آنا مبارک ہو۔ اس مہینے کو قرآن مجید کے ساتھ (جو تمام ذاتی اور شیونی (اس کا مُفرد شان ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) کمالات کا جامع ہے اور اس دائرہ اصل میں داخل ہے ،جس میں کسی ظلیت کوراہ نہیں اور قابلیت اولی یعنی حقیقت محمدیہ(تمام اسماء الہیہ کا جامع،صاحب اسم اعظم ) ﷺ اس کا ظل ہے بڑی مناسبت ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے اس مہینے میں قرآن مجید کا نزول واقع ہوا۔ شَهۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ اس بات کا مصداق ہے اور اس مناسبت کے باعث یہ مہینہ بھی تمام خیرات و برکات کا جامع ہے جو برکت و خیر کہ تمام سال میں ہرشخص کوپہنچتی ہے خواہ وہ کسی راہ سے پہنچے اس ماہ مبارک کی بے نہایت برکتوں کے دریا کا ایک قطره ہے۔ اس مہینے کی جمعیت (دل کو اطمینان حاصل ہونا) تمام سال کی جمعیت ہے اور اس مہینے کا تفرقہ (انتشار و پراگندگی) (انتشار و پراگندگی) تمام سال کا تفرقہ (انتشار و پراگندگی) ہے۔ فطوبى لمن مضى عليه هذا الشهر المبارك ورضى عنه و ويل لمن سخط عليه فمنع من البركات و حرم من الخيرات (ترجمہ) پس اس شخص کیلئے خوشخبری ہے جس پریہ مہینہ خوشی خوشی گزر گیا اور ہلاکت ہے اس شخص کیلئے جس پر یہ مہینہ ناراض گیا اور وہ اس کے خیرات و برکات سے محروم رہا۔
اور نیز قرآن مجید کا ختم کرنا اس مہینہ اور اسی واسطے سنت ہوا ہے تا کہ تمام اصلی کمالات (قرآن کے کمالات)اور ظلی برکات(جو قرآن اور رمضان سے تعلق رکھتے ہیں) حاصل ہو جائیں۔ فمن جمع بينهما یرجی أن لا يحرم من بركاته ولا يمنع من خيراته. (ترجمہ) پس جس نے ان دونوں کو جمع کیا امید ہے کہ وہ اس مہینے کی برکات و خیرات سے محروم نہ رہے گا۔
وہ برکتیں جو اس مہینے کے دنوں سے وابستہ ہیں وہ اور ہیں اور وہ خیرات جو اس مہینے کی راتوں کے متعلق ہیں وہ اور ہیں اور ممکن ہے کہ اسی حکمت کے سبب یہ حکم ہوا ہے کہ افطار میں جلدی کرنا اورسحرگی میں دیر کرنا اولی و افضل ہے تا کہ دونوں وقتوں کے حصوں کے درمیان پورا پورا امتیاز حاصل ہو جائے۔
قابلیت اولیٰ( حقیقت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ کو قابلیت اولی کہا جاتا ہے) جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اور جس سے مراد حقیقت محمدی ہے۔ على مظهره الصلوة والتسلیمات (اس کے مظہر پر صلوت و سلام ہوں) وہ ذات کی قابلیت(ذات اور شیونات یا ذات اور صفات کے درمیان نسبت کو قابلیت کہا جاتا ہے) تمام صفات کے ساتھ متصف ہونے کی وجہ سے نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض نے حکم کیا ہے بلکہ ذات کی قابلیت اس حکم کے اعتبار سے ہے جو ان تمام ذاتی اور شیونی(اس کا مُفرد شان ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے صفات و شیونات میں بہت باریک فرق ہے تمام صفات الہیہ خارج میں ذات تعالیٰ پروجود زائدہ کے ساتھ موجود ہیں اور شیونات محض اعتبارات ہیں جو ذات جل شانہ میں اعتبار کئے گئے ہیں) کمالات سے متعلق ہے جو قرآن مجید کی حقیقت کا حاصل ہے اور قابلیت اتصاف جو خانہ صفات کے مناسب ہے اور اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے درمیان برزخ کی طرح ہے وہ دوسرے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے حقائق ہیں۔ یہی قابلیت ان اعتبارات کے لحاظ سے جو اس میں مندرج ہیں۔ بے شمار حقائق ہوگئی ہے وہ قابلیت جس کو حقیقت محمد یہ(علیہ الصلوة والسلام) کہتے ہیں۔ اگر چہ ظلیت رکھتی ہے لیکن صفات کا رنگ اس سے ملا ہوا نہیں ہے اور کوئی مانع ور پردہ درمیان میں نہیں ہے اور محمدی المشرب ( محمدی المشرب تمام مراتب کا جامع ہے اس میں سالک متخلق باخلاق اللہ ہو جاتا ہے اس ولایت کو ولایت حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور سالک کو محمدی المشرب کہتے ہیں )گروہ کے حقائق اس علم کے اعتبار سے جو بعض ان کمالات کے ساتھ تعلق ہوتا ہے ذات کی قابلیتیں ہیں اور وہ قابلیت محمد یہ اللہ تعالی کی ذات پاک اور ان متعدد قابلیتوں کے در میان برزخ کی طرح ہے اور ان بعض کا حکم اس سببب سے ہے کہ قابلیت محمدیہ کا قدم گاہ صرف خانہ صفات میں ہے اور خانہ صفات کے عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) کی نہایت(انتہا) اس قابلیت تک ہے۔ اسی وجہ سے اس کو آنحضرت ﷺکی طرف منسوب کیا ہے اور چونکہ یہ قابلیت اتصاف ہرگز دور نہیں ہوتی۔ اس واسطے ان بعض نے یہ حکم لگایا ہے کہ حقیقت محمدی ہمیشہ حائل ہے ورنہ قابلیت محمد یہ علی مظہر ہا الصلوة والتحیہ کیلئے جو ذات باری تعالی میں مجرد اعتبار ہے۔ نظر سے دور ہوناممکن بلکہ واقع ہے اور قابلیت اتصاف اگرچہ اعتباری ہے لیکن برزخ ہونے کی وجہ سے ان صفات کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے، جوو جود زائد کے ساتھ خارج میں موجود ہیں اور اس کا دور ہو ناممکن نہیں ہے۔ اسی واسطے ہمیشہ تک اس کے حائل ہونے کا حکم کرتے ہیں۔
اس قسم کے علوم جن کا منشاء اصالت وظلیت کی جامعیت ہے بہت وارد ہوتے ہیں اور ان میں اکثر کاغذ کے پرچوں میں لکھے جاتے ہیں۔ مقام قطبیت (دقیق علوم کا منشاء)مقام ظلیت کے علمی دقائق کا منشاء ہے اور مرتبہ فردیت (دائرہ اصل کے معارف وارد ہونے کا واسطہ ہے۔ )ان دو دولتوں یعنی مقام قطبیت اور مرتبہ فردیت کے جمع ہونے کے بغیر ظل اور اصل کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہے۔
اسی وا سطے بعض مشائخ قابلیت اولیٰ کو کہ جسے تعین اول کہتے ہیں ۔ذات سے زیادہ نہیں جانتے اور اس قابلیت کے شہود کو تجلی ذاتی خیال کرتے ہیں۔ والحق ماحققت والامرما اوضحت والله سبحانہ يحق الحق وهو يهدي السبيل (اور حق وہی ہے جو میں نے تحقیق کی ہے اور حقیقت امروہی ہے جس کو میں نے واضح کیا اور اللہ تعالی حق ظاہر کرتا ہے اور سیدھے راستے کی ہدایت بخشا ہے۔)
و ہ رسالہ جس کے لکھنے کیلئے خاکسار کوحکم ہوا تھا۔ اس کے پورا کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ اسی طرح مسودے پڑے ہوئے ہیں۔ دیکھیں اللہ تعالی کی حکمت اس توقف میں کیا ہوگی۔ زیادہ گستاخی ادب سے دور ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ143 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی