جذبہ اور سلوک کے حاصل ہونے اور جلال و جمالی دونوں صفتوں کے ساتھ تربیت پانے اور فنا و بقا اور ان کے تعلقات اور نسبت نقشبندیہ کی فوقیت کے بیان میں یہ بھی اپنے پیر بزرگوار کی خدمت میں لکھا:۔
حضور کا کمترین بنده احمد عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے حضور کی توجہ عالی کی برکت سے جذبہ (سیر انفسی)اور سلوک(سیر آفاقی) کے دونوں طریقوں اور جلال و جمال کی دونوں صفتوں سے تربیت فرمائی۔ اب جمال عین جلال ہے اور جلال عین جمال۔
رسالہ قدسیہ کے بعض حاشیوں میں اس عبارت کو اپنے ظاہری مفہوم سے پھیر کر اپنے وہی مفہوم پر عمل کیا ہے۔ حالانکہ عبارت اپنے ظاہر پر محمول ہے ۔ تغیر و تاویل کے قابل نہیں ہے اور اس تربیت کی علامت محبت ذاتی سےمتحقق ہوتا ہے۔ اس تحقق سے پہلےممکن نہیں اور محبت ذاتی فنا کی علامت ہے اور فنا سے مراد ماسوائے اللہ کا فراموش ہو جاتا ہے۔
پس جب تک علوم پورے طور پر سینہ کے میدان سے صاف نہ ہو جائیں اور جہل مطلق کے ساتھ متحقق نہ ہو جائیں ان کا کچھ حصہ حاصل نہیں ہوتا اور یہ حیرت و جہل دائمی ہے اس کا زائل ہونا ممکن نہیں ۔ ایسا نہیں کہ جب بھی حاصل ہو جائے اور بھی زائل ہوجائے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بقاء سے پہلے جہالت محض ہے اور بقا کے بعد جہالت اور علم دونوں اکٹھے ہیں، عین نادانی کی حالت میں شعور میں ہے اور عین حیرت کے وقت حضور میں کہ یہی مقام مرتبہ حق الیقین(یقین کے تین درجوں میں سے تیسرا درجہ معتبر ذرائع اور مشاہدہ کے ساتھ کسی شے کا اس درجہ یقین ہو جانا کہ عالم اس کی ماہیت میں مستغرق اور فنا ہو جائے یہ درجہ عین الیقین سے بھی بڑا ہے شریعت کا مشاہدہ حاصل ہوجانا ہے حق الیقین ہے) کا ہے جہاں علم و عین ایک دوسرے حجاب نہیں ہے اور علم جو ایسی حالت سے پہلے حاصل ہوتا ہے۔ احاطہ اعتبار سے خارج ہے اس حالت کے باوجود اگر علم ہے تو اپنے آپ ہی میں ہے اور اگر شہود(مشاہدہ) ہے تو وہ بھی اپنے آپ میں ہے اور اگر معرفت یا حیرت ہے اور وہ بھی اپنے آپ ہی میں ہے جب تک نظر باہر میں ہے ، بے حاصل ہے اگرچہ اپنے آپ ہی میں نظر رکھی ہو نظر باہر سے بالکل منقطع ہو جانی چاہیے۔
حضرت خواجہ بزرگ یعنی خواجہ بہاؤ الدین نقشبند قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ابل اللہ فنا و بقا کے بعد جو کچھ دیکھتے ہیں اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اور جو کچھ پہچانتے ہیں اور ان کی حیرت اپنے وجود میں نہیں ہے۔
یہاں سے صاف طور پر مفہوم ہوتا ہے کہ شہود(مشاہدہ) اور معرفت اور حیرت صرف اپنے نفس میں ہے ان میں سے کوئی بھی باہر میں نہیں ہے جب تک ان تینوں میں سے ایک بھی باہر میں ہے۔
اگرچہ اپنے آپ میں رکھتا ہوں، فنا حاصل نہیں ہوتی تو بقا کیسے حاصل ہو جائے گی۔ فنا و بقا میں نہایت(انتہا) مرتبہ یہی ہے اور فناو بقا کے ساتھ متحقق ہونے کے بعد باہرمیں بھی شہود رکھتے ہیں لیکن ان عزیزوں میں مشائخ نقشبندیہ قدس سرہم کی نسبت تمام نسبتوں سے برتر ہے۔
نہ ہر کہ آئینہ دار وسکندری داند نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند
ترجمہ ۔ کوئی آئینہ رکھنے سے سکندر بن نہیں جاتا ۔ اور نہ سر منڈانے پر کوئی قلندر بنتا ہے
جب اس سلسلہ کے بڑے بڑے مشائخ میں سے ایک یا دو کو بہت سے قرنوں کے بعد اس نسبت سے مشرف کرتے ہیں تو دوسرے سلسلوں کی نسبت کا کیا بیان کیا جائے ۔ يہ نسبت حضرت خواجہ عبدالخالق غجد وانی قدس سرہ کی ہے اور اس نسبت کو پورا اور کامل کرنے والے خواجہ خواجگان حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند قدس سرہم ہیں اور ان کے خلیفوں میں سے حضرت خواجہ علا ؤ الدین(عطار) قدس سرہ اس دولت سے مشرف ہوئے تھے۔
این کار دولت است کنوں تا کرا دہند
یہ بڑی اعلی دولت دیکھئے کس کو ملتی ہے
عجب معاملہ ہے کہ پہلے جو بلا و مصیبت واقع ہوتی تھی ۔ فرحت و خوشی کا باعث ہوتی تھی اورفقیر هل من مذید (کیا اور کچھ ہے)کہتا تھا اور جو کچھ دنیاوی اسباب سے کم ہوتا تھا ۔ اچھا معلوم ہوتا تھا اور اس قسم کی خواہش کرتا تھا لاحق ہو جاتا ہے تو پہلے ہی صدمہ میں ایک قسم کاغم پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر چہ جلدی دور ہو جاتا ہے اور کچھ نہیں رہتا ہے اور ایسے ہی پہلے اگر بلا و مصیبت کے دفع کرنے کے لئے دعا کرتا تھا تو اس سے اس رفع کرنا مقصود نہ ہوتا تھا اور وہ خوف و حزن جوزائل ہوگئے ہوتے تھے اب پھر رجوع کررہے ہیں اور معلوم ہوا کہ وہ حال سکر(مستی) کی وجہ سے تھا صحو کی حالت میں عجز اورمختاری اور خوف و حزن اور غم و شادی جیسے عام لوگوں کو تھا۔ یہ بات دل کو اچھی نہ لگتی تھی لیکن حال غالب تھا۔ دل میں گزرتا تھا کہ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی دعا اس قسم کی نہ تھی کہ جس سے اپنی مراد کا حاصل ہونا مقصود ہو اب جب کہ فقیر اس حالت سے مشرف ہوا اور خوف وحزن کے سبب سے تھیں ۔ نہ مطلق امر کی تابعداری کیلئے بعض امور کو ظاہر ہوتے ہیں حکم کے موافقت کبھی بھی ان کے عرض کرنے میں گستاخی کرتا ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ44 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی