نظر برقدم و ہوش در دم و سفر در وطن وخلوت در انجمن کے بیان میں جو طریقہ عليہ نقشبند یہ قدس اللہ تعالیٰ اسرار مشائخھا میں اصول مقررہ ہیں ۔ حاجی یوسف کشمیری کی طرف صادر فرمایا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ طریقہ علیہ نقشبندیہ کے اصول مقررہ میں سے ایک نظر بر قدم ہے نظر بر قدم سے مراد نہیں کر نظر ندم سے تجاوز نہ کرے اور قدم سے زیادہ بلندی کی خواہش نہ کرے کیونکہ یہ بات خلاف واقع ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ نظر ہمیشہ قدم سے بلندی کی طرف چڑھے اور قدم کو اپنا ردیف بنائے کیونکہ بلندی کےزینوں پر پہلے نظر چڑھتی ہے۔ اس کے بعد قدم صعود کرتا ہے اور جب قدم مرتبہ نظر میں پہنچتا ہے نظر اس سے اوپر کے زینہ پر آ جاتی ہے اور قدم بھی اس کی تبعیت (اتباع کے طور پر) میں اس زینہ پر چڑھ آتا ہے۔ بعد ازاں نظر پھر اس مقام سے ترقی کرتی ہے۔ علی ہذالقیاس اور اگر مراد یہ ہے کہ نظر اس مقام تک ترقی کرے جہاں قدم کی گنجائش نہ ہو۔ یہ بات بھی غیر واقع ہے کیونکہ قدم کے تمام ہونے کے بعد اگر نظر تنہا نہ ہوتو بہت سے مراتب فوت ہو جاتے ہیں۔
اس کا بیان یہ ہے کہ قدم کی نہایت سالک کی استعداد کے مراتب کی نہایت تک ہے بلکہ اس نبی کی استعداد کی نہایت تک ہے جس کے قدم پر وہ سا لک ہے لیکن قدم اول بالاصالت (براہ راست) ہے اور دوسرا قدم اس نبی کی تبعیت سے اور اس استعداد کے مراتب سے اوپر اس کا قدم نہیں لیکن نظر ہے اور یہ نظر جب تیز ی حاصل کر لے تو اس کا منتہا اس نبی کی نظر کے مراتب کی نہایت ہے جس کے قدم پر وہ سالک ہے کیونکہ نبی کے کامل تابعداروں کو اس کے تمام کمالات سے حصہ حاصل ہوتا ہے لیکن مراتب استعداد کی نہایت تک جو سالک کی اصالت اور تبعیت سے ہے۔ قدم ونظر موافقت رکھتے ہیں۔ بعدازاں قدم کوتاہی کرتا ہے اور نظر تنہا صعود کرتی ہے اور اس نبی کے مراتب نظر کی نہایت تک ترقیاں کرتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی نظر بھی ان کے قدم پر صعود کرتی ہے اور ان بزرگواروں کے کامل تابعداروں کو بھی ان کی نظر کے مقام سے حصہ حاصل ہے جیسا کہ ان کے قدم کے مقام سے نصیب حاصل ہے اور حضرت خاتم الانبیاء علیہ الصلوة والسلام کے قدم کے اوپر مقام رؤیت ہے جس کا وعدہ دوسروں کو آخرت پر دیا گیا ہے جو کچھ دوسروں کے لئے ادھار ہے آنحضرت ﷺکے لئے نقد ہے اور آنحضرت ﷺکے کامل تابعداروں کو اس مقام سے بھی حصہ حاصل ہے اگر چہ رؤیت نہیں ہے۔
فریاد حافظ ایں ہمہ آخربہر زه نیست ہم قصه غریب وحدیث عجیب ہست
ترجمہ: نہیں بے فائدہ حافظ کی فریاد بہت عمدہ ہے اس کا ماجرا سب۔
اب ہم اصلی بات کو بیان کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر نظر بر قدم سے مراد یہ ہو کہ قدم نظر سے تخلف نہ کرے ۔ اس طرح پر کہ کسی وقت مقام نظر تک نہ پہنچے تو نیک ہے کیونکہ یہ معنی ترقی کے مانع ہیں ۔ ایسے ہی اگر نظر وقدم سے مراد ظاہری نظر وقدم لئے جائیں تو بھی گنجائش ہے کیونکہ راستے میں چلنے کے وقت نظر پراگندہ ہو جاتی ہے اور ہر طرح کے محسوسات کی طرف لگ جاتی ہے۔ اگر نظر کو قدم پر لگایا جائے تو جمعیت کے اقرب ہے اور یہ مراد دوسرے کلمہ کے معنی کے مناسب ہے جو اس کا قرین ہے اور وہ کلمہ ہوش در دم ہے۔
غرض اول اس تفرقہ (انتشار و پراگندگی) کے دفع کرنے لئے ہے جو آفات سے پیدا ہوتا ہے اور کلمہ دوسرا انفس کے تفرقہ کو دفع کرتا ہے اور کلمہ تیسرا جوان دوکلموں کے قرین ہے سفر در وطن ہے اور وہ اس میں سیر کرنے سے مراد ہے جو اندراج النہایت فی البدایت کے حاصل ہونے کا باعث ہے جو اس طریقہ علیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگرچہ سیرانفسی تمام طریقوں میں ہے لیکن سیر آفاقی کےوصول کے بعد ہے اور اس طریق میں ایک سیر سے شروع کرتے ہیں اور سیر آفاقی اسی سیر کے ضمن میں مندرج ہے۔ اگر اس اعتبار سے بھی کہہ دیں کہ اس طریقہ علیہ میں نہایت بدایت میں مندرج ہے تو ہوسکتا ہے اور چوتھاکلمہ جوان تینوں کلموں کے ساتھ ہے۔ خلوت در انجمن ہے جب سفر در وطن میسر ہو جائے تو انجمن میں بھی خلوت خانہ وطن میں سفر کرتا ہے اور آفاق کا تفرقہ انفس کےحجرہ میں راہ نہیں پاتا۔ یہ بھی اس صورت میں ہے کہ حجرہ کے دروازوں اور روزنوں کو بند کر لیں۔ پس چاہیئے کہ انجمن میں متکلم و مخاطب کا تفرقہ نہ ہو اور کسی کی طرف متوجہ نہ ہو۔ یہ سب تکلفات اور حیلے بہانے ابتداء اور وسط ہی میں ہیں اور انتہا میں ان میں سے کچھ بھی درکار نہیں ۔ عین تفرقہ میں جمعیت کے ساتھ اورنفس غفلت میں حاضر رہتے ہیں۔ اس بیان سے کوئی یہ گمان نہ کرے کہ جمعیت میں تفرقہ و عدم تفر قہ منتہی کے حق میں مطلق طور پر مساوی ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ تفرقہ اور عدم تفرقہ اس کی باطن کی جمعیت میں برابر ہیں ۔ اس کے باوجود اگر ظاہر و باطن کے ساتھ جمع کرلے اور تفرقہ کو ظاہر سے بھی دفع کردے تو بہت ہی بہتر اور مناسب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی علیہ الصلوة والسلام کو فرماتا ہے۔ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا اپنے رب کا نام یاد کر اور سب سے توڑ کر اس کے ساتھ جوڑ۔
جاننا چاہیئے کہ بعض اوقات ظاہری تفرقہ سے چارہ نہیں ہوتا تاکہ خلق کے حقوق ادا ہوں ۔ پس تفرقہ ظاہر بھی بعض اوقات اچھا ہوتا ہے لیکن تفرقہ باطن کسی وقت بھی اچھا نہیں کیونکہ وہ خاص حق تعالیٰ کے لئے ہے۔ پس عبادت کے تین حصے حق تعالیٰ کے لئے مسلم ہوں گئے۔ باطن سب کا سب اور ظاہر کا نصف حصہ اور ظاہر کا دوسرا حصہ خلق کے حقوق ادا کرنے کے لئے رہا۔ چونکہ اس حقوق کے ادا کرنے میں بھی حق تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری ہے اس لئے ظاہر کا دوسرا نصف بھی حق تعالیٰ کی طرف راجع ہے۔ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُتمام امور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ پس اسی کی عبادت کر۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ452ناشر ادارہ مجددیہ کراچی