نفس کو چھوڑ،بارگاہ رب میں حاضر ہو

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

حظوظ نفس کا ترک تین مرحلوں میں تکمیل پذیر ہو تا ہے۔ 

پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ بندہ اپنی طبیعت کے تاریک راستہ پر چل رہا ہو تا ہے۔ وہ ہاتھ پاؤں مارتا ہے لیکن کوئی راہ سجھائی نہیں دیتا۔ ہر کام طبیعت کے اقتضاء کے مطابق سرانجام دیتا ہے۔ اس کے سامنے نہ الله تعالی کی بندگی ہوتی ہے اور نہ کوئی دوسری حد جواے بھٹکنے سےبچالے۔ سرگردانی اور بے راہ روی کے عالم میں اللہ کریم اس پر نظر رحمت فرماتا ہے اور اپنے محبوب بندوں میں سے کسی کو اس کی رہنمائی کیلئے بھیج  دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر دوسرا کرم یہ ہوتا ہے کہ ضمیر اور وجدان کی صورت میں دوسرا واعظ اس کی رہنمائی کیلئے مامور ہو جاتا ہے۔ مرشد اور وجدان اسے راہ مستقیم پر چلنے میں مدد دیتے ہیں۔ نفس اور طبیعت کے خلاف اس کی مدد کرتے ہیں اور اس پر یہ بات عیاں کرتے ہیں کہ نفس کی موافقت اور شریعت کی مخالفت عیب ہے یوں بند ہ اپنے تمام تصرفات میں شریعت کی پابندی کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالی کا فرمانبردار بندہ بن جاتا ہے۔ شریعت کے ساتھ قائم طبیعت سے فانی وہ دنیا کی حرام، مشتبہ اور خلق کے احسانات کو ترک کر دیتا ہے۔ اپنے کھانے پینے ، لباس، گھر ، نکاح اور دوسری تمام ضرورتوں میں شریعت کی حلال اور حق کے مباحات کو حاصل کر تا ہے اور وہ بھی اتنے کہ ان سے روح و جسم کا تعلق باقی رہے۔ اللہ تعالی کی اطاعت کی قوت حاصل رہے اور اپنے مقدر کو پالے اور اس سے تجاوز نہ کرے۔ 

دنیا کو حاصل کرنے ، اس سے لطف اندوز ہونے اور اس کو پورا کرنے سے پہلے دنیا سے کوچ کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ پس بنده مو من تمام احوال میں شریعت کی حلال اور مباح کردہ سواری پر سوار ہو کر آستانہ ولایت تک پہنچتا ہے اور اولیاء محققین میں جو خاصان بارگاه ، اہل عزیمت اور حق تعالی کے طالب ہوتے ہیں شمار ہوتا ہے۔ پس بنده اسی کےحکم سے کھاتا ہے۔ اور اس مقام پر گروہ حق تعالی کی طرف سے ایک ندا سنتا ہے جو اس کے باطن سے اٹھ رہی ہوتی ہے۔ اپنے نفس کو چھوڑ کر میری بارگاہ میں آجا اگر تو خالق کا طلبگار ہے تو حظوظ دنیا اور خلق کو ترک کر دے۔ دنیا و آخرت کے جوتے اتار پھینک۔ 

کائنات و موجودات سے خالی ہو جا۔ سب تمنائیں اور آرزوئیں ترک کر دے۔ ہر چیز سے قطع تعلقی کر لے۔ ہر ایک سے فانی ہو جابیگانگی حق اور ترک شرک سے خوشحال ہو جا اپنے آپ کوسچے ارادے سے آراستہ کر لے۔ پھر سر جھکائے حضور باری میں داخل ہو۔ نہ دائیں یعنی آخرت کی طرف دیکھ اور نہ بائیں یعنی دنیا کی طرف ملتفت ہو۔ نہ خلق سے تعلق رکھ اور نہ حظوظ دنیاسے سروکار۔ 

جب بندہ اس مقام پر فائز ہو جاتا ہے اور اسے قرب حق کا شرف حاصل ہو جاتا ہے تو حق تعالی کی طرف سے اسے خلعتیں ارزانی ہوتی ہیں ۔ بارگاه رب العزت سے اسے طرح طرح کے علوم و معارف ملتے ہیں اور نوع بنوع فضل و کرم اسے ڈھانپ لیتے ہیں۔ اسےحکم ملتا ہے ۔ اللہ کے فضل و نعمت سے لطف اندوز ہو۔ اور اسے رد کر کے اور انہیں ٹھکرا کر سوئے ادبی کا مرتکب نہ ہو۔ کیونکہ بادشاہ کے عطیے کو رد کر ناباد شاہ کی تحقیر اور اس کی بارگاہ کے استخفاف کے مترادف ہے۔ پس بندہ مؤمن اس مقام پر اللہ کی عطا کو قبول کر تا ہے مگر دنیا کی ان نعمتوں کو دل نہیں دیتا۔ جبکہ اس سے پہلے وہ ان نعمتوں سے حرص وہوا کے زیر اثر لطف اندوز ہو تا تھا مگر اب امر باطنی کی پیروی کر تا ہے اور مقصودذات حق تعالی کی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ احوال کی تبدیلی کے باعث ہوا۔ جب مقام و مرتبہ میں تبدیلی آئی تو لقمہ بھی بدل گیا۔ لہذا حظوظ ولذتہائے دنیا کو قبول کرنے میں بندے کی چار حالتیں ہیں۔ 

پہلی حالت تو یہ ہے کہ دنیااور حظوظ دنیا کو اپنی طبیعت کے زیر اثر قبول کرتا ہے۔ اور یہ حرام ہے۔ دوسری حالت یہ ہے کہ شریعت کی پابندی کرتے ہوئے اسے قبول کرتا ہے۔ یہ حالت مباح اور حلال ہے۔ تیسری حالت امر باطنی سے قبول کرنے کی ہے اور یہ حالت ولایت اور ترک ہوا کی ہے۔ چوتھی حالت یہ ہے کہ انسان دنیا کی لذتوں کو اس کے فضل و کرم سے قبول کرے اور یہ وہ حالت ہے جس میں سب ارادے معدوم ہو جاتے ہیں اور انسان ابدال کے مقام کو حاصل کر لیتا ہے۔ اس حالت میں انسان کی مراد سوائے مولا کریم کے کچھ نہیں رہتی۔ اور وہ اللہ کی قدرت یعنی فعل باری تعالی کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ یہ حالت علم ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان صفت صلاح سے متصف ہو جاتا ہے۔ اور کسی بندے کو اس وقت تک صالح نہیں کہا جا سکتا جب تک وہ اس مقام کو واقعی حاصل نہیں کر لیتا۔یہی ارشاد ربانی ہے۔

 إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ یقینا میرا حمایتی اللہ ہے جس نے اتاری یہ کتاب ۔ اور وہ حمایت کیا کر تا ہے نیک بندوں کی“۔ 

یہی وہ بندہ ہے جس کے ہاتھ کو مصالح و منافع ذاتیہ کو قبول کرنے اور مفاسد و مضارہ کو دفع کرنے سے روک دیا گیا۔ وہ اس شیر خوار کے بچے کی مانند ہے جودایہ کی جھولی میں اپنے نفع و نقصان سے بے پرواہ پڑا ہو تا ہے یا میت کی مانند جو غسال کے ہاتھوں میں بے اختیار و بے ارادہ ہے۔ یہ بندہ اپنا سب کچھ رب ذوالجلال کے سپرد کر چکا ہے۔ اس کی تربیت دست قدرت کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔ وہ کوئی اختیار و ارادہ نہیں رکھتا۔کبھی وہ حالت بسط و کشاد میں ہوتا ہے اورکبھی حالت قبض میں۔ کبھی غنی ہو تا ہے اور کبھی فقیر۔ اسے کچھ اختیار نہیں۔ وہ کچھ بھی طلب نہیں رکھتا اور نہ کسی حالت کے زوال اور تغیر کی تمنارکھتا ہے۔ بلکہ ہمیشہ تسلیم و رضا کا پیکربنے اللہ تعالی کی مشیت کے سامنے سرنگوں رہتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس پر اولیاء اور ابدال کے احوال کی انتہاء ہوتی ہے۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 1نفس کو چھوڑ،بارگاہ رب میں حاضر ہو ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں