محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔
جب ہم تیرے حالات کو اگلے لوگوں کے حالات پر قیاس کرتے ہیں تو ہم ان میں سے ایک چیز بھی تجھ میں نہیں پاتے ، تو نے اپنے نفس کوکھانا کھلایا، چنانچہ اس نے دیکھ لیا کہ تو نے اس کی خواہشیں پوری کر دیں ، اس لئے وہ تجھ پر غالب آ گیا اور دست درازی کرنے لگا۔ کاش کہ تو اس کی مراد قطع کردیتا، اور اسے توڑنے میں مشغول ہوتا مگر تو نے اس کی خواہشوں کو پورا کر دیا، اور تو نے اپنے شیطان کے لئے دروازہ کھول دیا، کیونکہ شیطان تو اس کی آرزو اور تمنا کی تلقین کیا کرتا ہے۔نفس تو کچھ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا بلکہ شیطان جن اس کی طرف خواہشیں ڈالتا رہتا ہے ۔ اس شیطان کو شیطان انس کے بغیر تیرے اوپر قدرت وقابونہیں ہوتا ۔ جب وہ فضولیات کی طرف سبقت کرتا ہے تو وہ قابو پالیتا ہے، اگر تو اس کے مادہ کوقطع کر دیتا اور اسے حرام اور شبہات اور مشبہات سے بچالیتا تو اس کی آگ بجھ جاتی ۔ اگر تو مباح چیزوں کے استعمال میں کمی کرتا تو اس کی فضولیات کا غدہ پھل جا تا اس کی خواہشیں منتقل ہو جاتیں ،خوف اور امید کےجھاڑ اس میں اگنے لگتے ، اس کے باطن کی تاریکی نور بن جاتی ،وہ دل کے ساتھ سکون پا تا اسے اللہ تعالی کی طرف سے ندادی جاتی :
يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ اے اطمینان والی جان ! تو اپنے رب کی طرف واپس ہو ۔
عام آدمی کو موت کے وقت ندادی جاتی ہے:
تو قرب کے دسترخوان سے اور اللہ کی حضوری کے آستانہ سے کہاں دور چلا گیا۔
اور اس آیت کے مصداق بنا
وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ” بے شک وہ ہمارے نزدیک البتہ برگزیدہ اور پسندیدہ بندوں میں سے ہیں۔ تیرا دل اس وقت تک صاف نہیں ہوسکتا جب تک کہ تیرا نفس صاف نہ ہو جائے تو اصحاب کہف کے کتے کی طرح تابع نہ بن جائے ، تو قرب الہٰی کے آستانے کی چوکھٹ پر انتظار کر ، دل جب حضوری میں ہو اور نفس اس کے باہر نکلنے کا منتظر ہو، اپنی ایمانی کمزوری کے وقت ظاہری شریعت کو لازم پکڑ ، قرآن وسنت سے جو رخصتیں دستیاب ہوں، ایمانی قوت کے حصول تک ان پرعمل پیرارہ ، جب تیرا ایمان قوت پکڑ لے تو عزیمیت وقوت کی سواری کو لازم پکڑلے، اگر تو اپنے نفس پر سوار ہو جائے گا تو قضاوقدر کے ساتھ سیر کرتے ہوئے اس کی موافقت کرے گا، حضرت منصور حلاج رحمۃ اللہ علیہ سے سولی دینے کے وقت کسی نے عرض کیا: ’’ آپ مجھے وصیت فرمائیں‘‘ – آپ نے ارشادفرمایا: ۔
تو اپنے نفس کو سنبھال، اگر تو اسے اپنی خدمت میں نہ لگائے گا تو وہ تجھے اپنا خادم بنالے گا‘۔ سید ناغوث اعظم رحمۃ الہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابتدائی دور میں میرے پاس ایک بڑی عمدہ قمیض تھی ، میں اسے بیچنے کے لئے کئی بار بازار لے گیا لیکن کوئی اس کا خریدار نہ ملا پھر میں اسے ایک آدمی کے پاس لے گیا، اس کے پاس ایک دینار کے بدلے قمیض کو گروی رکھ دیا ، حتی کہ عید کا دن آ گیا، وہ آدمی اچانک میری قمیض لے آیا اور کہنے لگا: ” تم اسے لے لو اور پہنو، اور میں نےجودینار لینا طے کیا تھا ، وہ میں نے معاف کیا‘‘۔ میں نے ہر چند منع کیا ، اس نے پھر کہا:
اسے لے لو اور پہنو ورنہ میں اسے ضائع کر دوں گا‘‘۔
غرض اس نے اس قمیص کا پہننا میرے لئے لازم کر دیا، میں نے جان لیا کہ وہ مقدر میں ہے، اس میں میرا زہد نہ چلے گا۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 733،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور