نماز میں سترہ کی تحقیق

نماز میں سترہ کی تحقیق
سُترہ کے احکام نماز دین اسلا م کا اہم ترین رکن ہے اور اس کی بجاآوری کے لئے بہت سے احکامات کی پابندی ضروری ہے۔ لیکن اکثر نمازی یا تو ان سے غافل ہیں یا سستی کا شکار ہیں۔ انہی میں سے ایک اہم مسئلہ ’’سترہ‘‘ کا بھی ہے کہ جس کے بارہ میں لوگ افراط یاتفریط کا شکار ہیں یعنی کچھ تو سترہ کو فرض و واجب قرار دے کر بغیرسترہ پڑھی جانے والی نماز کے بطلان کے قائلین ہیں جبکہ دیگر سترہ کی عدم فرضیت کا اعتقاد رکھنے کی بناءپر سترہ کو اہمیت دینے سے قاصرہیں جس کے نتیجہ میں ان کی اکثر نمازیں سترہ کے بغیر ادا ہوتی ہیں جو کہ خلاف سنت ہے۔ذیل میں ہم ان دلائل کو پیش کر یں گے جن کے ذریعہ سے حق بات کا علم ہو سکے کہ سترہ رکھنا نمازی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ مگر یہ فرض یا واجب بھی نہیں کہ بغیر سترہ کے نماز ہی نہ ہو۔ بلکہ اگر کو ئی شخص کبھی سترہ کے بغیر نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائے گی مگر اس کو معمول بنانا خلاف سنت ہے۔ سترہ کی اہمیت سیدنا عبد اللہ بن عمر ﷜ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «لَا تُصَلِّ إِلَّا إِلَى سُتْرَةٍ، وَلَا تَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ». ’’سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو اور کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دو۔ اگر وہ انکا ر کر دے تو اس سے لڑو کیونکہ اس کے ساتھ یقیناً شیطان ہے ۔‘‘ [صحیح ابن خزیمۃ، کتاب الصلاۃ، باب النھي عن الصلاۃ إلی غیر سترۃ، (800)، صحیح مسلم (506)] ابوسعیدخدری ﷜ فر ماتے ہیں كہ رسول ﷺ نے فرمایا : «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ وَلْيَدْنُ مِنْهَا». ’’جب تم میں سے کو ئی ایک نماز پڑھے تو وہ ستر ے کی طرف نماز ادا کرے اور اس کے قریب ہو۔‘‘ [سنن أبي داؤد، کتاب الصلاۃ، تفریع أبواب السترۃ، باب ما یؤمر المصلي أن یدرأ عن الممر بین یدیہ، (698)] قرہ بن ایاس کہتے ہیں کہ عمر ﷜ نے مجھے دو ستونوں کے درمیا ن نمازپڑھتے ہو ئے دیکھا تو مجھے پکڑ کر سترہ کے قریب کر دیا اور فرمایا: «صَلِّ إِلَيْهَا» ’’اس کی طرف نماز ادا کر ۔ ‘‘ [مصنف ابن أبي شیبۃ، کتاب صلاۃ التطوع والإمامۃ وأبواب متفرقۃ، باب من کان یکرہ الصلاۃ بین السواري، (7502)] انس ﷜بیان فرماتے ہیں: «لَقَدْ رَأَيْتُ كِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ عِنْدَ المَغْرِبِ»، وَزَادَ شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَنَسٍ، حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» میں نے کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھا کہ وہ مغرب کے وقت ستونوں کی طرف جلدی کر تے تھے [یعنی مغرب سے قبل دو رکعتیں پڑھنے کے لئے ان کو اپنا سترہ بناتے ۔(بخاری: 625)] [صحیح البخاري، کتاب الصلاۃ، باب الصلوۃ إلی الأسطوانۃ، (503)(481)] یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ «رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، قَدْ نَصَبَ عَصًا يُصَلِّي إِلَيْهَا». میں نے انس بن مالك ﷜ كو مسجد حرام میں د یكها كہ وه لاٹهی گاڑ كر اس كی طرف نماز اداكر رہے تھے ۔ [مصنف ابن أبی شیبۃ، کتاب الصلوات، باب قدر کم یستر المصلي؟ (2853)] نافع ﷫ فرماتے ہیں: «كَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا لَمْ يَجِدْ سَبِيلاً إلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ ، قَالَ لِي : وَلِّنِي ظَهْرَك». عبداللہ بن عمر ﷜ جب مسجد کے ستون میں سےکسی ستون کی جانب کوئی جگہ نہ پاتے تو مجھے کہتے کہ میری طرف اپنی پشت کر دو ۔ [مصنف ابن أبی شیبۃ، کتاب الصلوات، باب الرجل یستر الرجل إذاصلی إلیہ أم لا؟ (2878)] مندرجہ با لا ادلہ سے معلوم ہوا کہ 1 رسول ﷺ نے بغیر سترہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ 2 آپﷺ نے سترہ کا اہتمام کرنے کی تاکید فرمائی ہیں۔ 3 اور سترہ کے قریب ہونے کا حکم دیا ہے ۔ 4 صحابہ کرام ﷢ سترہ کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ۔ 5 کسی کو بغیر ستر ہ نماز پڑھتے دیکھ کر اس کو ستر ے کے قریب کر دیتے ۔ 6 مسجد میں بھی سترہ کا اہتما م فرماتے ۔ 7 دیوار یا ستون کے پیچھے جگہ نہ ملتی تو لاٹھی وغیرہ کا ستر ہ اپنے آگے رکھ لیتے۔ 8 اور اس کی عدم موجو دگی میں کسی شخص کو سترہ بنا کر نماز ادا کر تے ۔ سترہ مستحب ہے تو گویا سترہ کی اس قدر اہمیت ہے کہ بغیر سترہ نماز پڑھنے کا تصور خیر القرون میں تقر یباً نا پید تھا۔ لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ سترہ رکھنا فرض ہے۔ بغیر سترہ بھی رسول ﷺ نے نماز ادا کی ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ﷜ بیان فرماتے ہیں: «صَلَّى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي فَضَاءٍ لَيْسَ بَيْنَ يَدَيْهِ شَيْءٌ». رسول اللہ ﷺ نے کھلی جگہ میں نماز پڑھی اور آپﷺ کے سا منے کو ئی چیز (بطور سترہ) نہ تھی۔ [مصنف ابن أبی شیبۃ، کتاب الصلوات، باب من رخص فی الفضاء أن یصلی بھا، (2866)، مسند أحمد، (1965)، مسند أبی یعلی، (2601)] سیدنا عبدالله بن عباس ﷜عنہ فرماتے ہیں: «أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلَامَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ» میں گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ ان دنو ں میں قریب البلوغت تھا اور رسول اللہ ﷺ منی میں بغیر دیوار کے نماز پڑھ رہے تھے ۔ [صحیح البخاري، كتاب العلم، باب متی یصح سماع الصغیر؟ (76)] اس باب میں حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں مسند بزار کے حو الے سے تائیداً یہ روایت ذکر کی ہے: «وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ لَيْسَ لِشَيْءٍ يَسْتُرُهُ». نبی ﷺ فرض نماز ادا کر رہے تھے۔ آپﷺ کے آگے کو ئی ایسی چیز نہ تھی جو آپﷺ کا سترہ بنتی۔ [فتح الباری: 1/171، طبع: دار المعرفۃ، بیروت، مسند البزار، مسند ابن عباس رضی اللہ عنھما (4951)] ابن بطال نے شرح بخاری 2/129 میں اس کی سند ذکر کی ہے جو کہ حسن ہے۔ سیدنا ابن عباس ﷜ فرماتے ہیں كہ: «جِئْتُ أَنَا وَغُلَامٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ عَلَى حِمَارٍ ” فَمَرَرْنَا بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَنَزَلْنَا عَنْهُ وَتَرَكْنَا الْحِمَارَ يَأْكُلُ مِنْ بَقْلِ الْأَرْضِ أَوْ قَالَ: مِنْ نَبَاتِ الْأَرْضِ فَدَخَلْنَا مَعَهُ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ رَجُلٌ: أَكَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ؟ قَالَ: لَا» میں اور بنی ہاشم کا ایک لڑکا گدھے پر سوار ہو کر آئے ۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے گزرے تو آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے تو ہم (گدھے سے) اترے اور اس کو زمین کی نباتا ت کھانے کے لئے چھوڑدیا اور ہم آپ ﷺ کے ساتھ نماز میں داخل ہو گئے۔ ایک آدمی نے (ابن عباس ﷜سے ) پو چھا کیا آپﷺ کے آگے لاٹھی یا نیزہ (بطور سترہ)تھا؟ تو فرمایا: نہیں ۔ [مسند أبي یعلی، أول مسند ابن عباس: 4/311 (2423)] اس حدیث کے تمام رجال صحیح کے ہیں اور صحیح میں بھی یہ حدیث مختصراً آئی ہے۔ [صحیح البخاري، کتاب العلم، باب متی یصح سماع الصغیر؟ (76)] مذکو رہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوا کہ سترہ فرض یا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ جس کا م کے کرنے کا رسول اللہﷺ حکم دیں، وہ فرض و واجب ہو تا ہے۔ لیکن جب کوئی قرینہ صارفہ مو جود ہو تو آپ ﷺ کا امر وجوب و فر ضیت کے لئے نہیں، بلکہ استحباب کے لئے ہو تا ہے۔ زیر بحث مسألہ میں رسول اکرم ﷺ کا حکم موجود ہے کہ سترہ کا اہتمام کرو اور سترہ کے بغیر نماز ادا کی ہے۔ جس سے معلوم ہو تا ہے کہ فرض و واجب نہیں ہے۔ بلکہ مستحب ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ چو نکہ ستر ہ مستحب ہے، لہٰذا اس کااس قدر اہتما م کرنا بھی ضروری نہیں، جیسا کہ سمجھ لیا گیا ہے۔ بلکہ کسی فعل کا مستحب ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کو ضرور بالضرور کیا جائے۔ لیکن اگر کبھی زندگی میں ایسا مر حلہ آجائے کہ بندہ اس پر عمل نہ کر ے تو وہ گناہگار نہ ہو گا ۔لیکن اگر وہ مستحب کو پس پشت ڈالناہی اپنا اکثر کا معمو ل بنالے تو یہ جائز نہیں ۔اس کی مثال یو ں سمجھیے کہ رسول اللہ ﷺ نے بغیر عذر کے زندگی میں ایک با ر دو نمازوں کو صورۃً جمع کر کے ادا کیا ہے، جس سے جمع بین الصلوتین بغیر عذر کا جواز نکلتا ہے۔ لیکن اگر کو ئی اس کو معمول ہی بنا لے اور اکثر دو نمازوں کو جمع کر تا رہے تو وہ مخالف سنت ہو گا۔ وھلم جراً لہٰذا ستر ہ کا اہتمام کرنے کی ہر ممکن کو شش کی جائے۔ لیکن اس کے باوجود اگر کبھی سترہ نہ مل سکے یا کو ئی شے سترہ بنانے کی نظرنہ آئے تو بغیر سترہ بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ سترہ اور نمازی کے درمیان فاصلہ ابو سعید خدری ﷜ بیان فر ماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ وَلْيَدْنُ مِنْهَا». جب تم میں سےکو ئی ایک نماز پڑھے تو وہ سترہ کی طرف نماز پڑھے اور اس کے قریب ہو جائے۔ [سنن أبي داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما یؤمر المصلي أن یدرأ عن الممر بین یدیہ، (698)] سہل بن سعد ﷜ فرماتے ہیں: «کَانَ بَيْنَ مُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الجِدَارِ مَمَرُّ الشَّاةِ». رسول اللہ ﷺ کی نماز والی جگہ اور دیوار کے درمیان بکری کے گزرنے کی جگہ تھی۔ [صحیح البخاري، کتاب الصلاۃ، باب قدر کم ینبغی أن یکون بین المصلی والسترۃ؟ (496)] درج بالا ادلہ سے معلوم ہوا کہ 1 نمازی سترہ کا اہتمام کر ے اور اس کے قریب کھڑا ہو ۔ 2 سترہ اور نمازی کے سجدہ والی جگہ کے درمیا ن زیادہ سے زیادہ بکری کے گزر سکنے کی جگہ ہو ۔ سترہ کی مقدار طلحہ بن عبید اللہ ﷜ بیان فر ماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «إذَا جَعَلْتَ بَيْنَ يَدَيْكَ مِثْلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ فَلاَ يَضُرُّكَ مَنْ مَرَّ بَيْنَ يَدَيْكَ». جب تو اپنے آگے اونٹ کے کجاوے کے پچھلے حصہ کے برابر کو ئی چیز کر لے تو تیرے آگے سے گزرنے والا تجھے کو ئی نقصان نہ دیگا۔ [سنن أبي داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما یستر المصلي، (685)] عطاء بن ابی رباح ﷫ فرماتے ہیں: «آخِرَةُ الرَّحْلِ ذِرَاعٌ فَمَا فَوْقَهُ» اونٹ کے کجاوے کا پچھلا حصہ ذراع یا اس سے زیادہ (اونچا)ہوتا ہے ۔ [سنن أبي داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما یستر المصلي، (686)] ذراع : ہتھیلی کو کھول کر کہنی تک کا حصہ ذراع کہلاتا ہے۔ اور یہ تقریباً ڈیڑھ فٹ بلند چیز رکھے تو وہ اس کا سترہ بن سکے گی۔ اس سے کم اونچائی والی چیز سترہ کا کا م نہیں دیتی۔رہی وہ روایت جس میں خط کھینچنے کا ذکر ہے کہ اگر سترہ میسر نہ آئے تو خط کھینچ لیا جائے۔ [سنن أبي داؤد، (689)] تو ا س کی سند میں ابو عمر وبن محمد بن حرُیث اور اس کا دادا حُریث مجہول ہیں ۔ لہٰذا یہ روایت ساقط الاعتبار ہے۔ اس لیے خط کھینچنا سترہ سے کفایت نہ کرے گا۔اور جو لو گ بطور سترہ اینٹ یا کوئی اور چیز جو ڈیڑھ فٹ سے چھوٹی ہو، رکھ کر نماز پڑھتے ہیں، ان کی نماز بغیر سترہ ہے کیو نکہ سترہ کی شرعی مقدار «الذراع فما فوقہ» بیان کی گئی ہے ۔ نمازی کے آگے سے گزرنا: ابو جہیم عبداللہ بن حارث الأنصاری ﷜فر ماتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: «لَوْ يَعْلَمُ المَارُّ بَيْنَ يَدَيِ المُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ».اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو علم ہو جائے کہ اس پر کتنا گنا ہ ہے تو اس کے لئے چالیس ( دن ،مہینے ،یا سال ) تک کھڑا ر ہنا گزرنے سے بہتر ہو گا۔ [صحیح البخاري، کتاب الصلاۃ، باب إثم المار بین یدي المصلي، (510)] دج بالا حدیث سے معلو م ہو تا ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا بہت سخت گناہ ہے۔ لہٰذا کسی بھی حالت میں نمازی اور سترہ کے درمیان سے یا اگر سترہ موجود نہ ہو تو نمازی کے آگے سے نہ گزرا جائے ۔ یا د رہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے کی یہ ممانعت مطلقاً ہے۔ گزرنے والا خواہ کئی میلوں کے فاصلے سے بھی گزرے، اسے اتنا گناہ ہے جتنا کہ قریب سے گزرنے والے کےلئے ہے ۔اس طرح امام اور مقتدیوں کے درمیا ن گزرنا بھی سترہ اور نمازی کے درمیان سے گزرنا ہی ہے۔ کیو نکہ امام کا سترہ ہی مقتدیوں کیا سترہ ہے۔ لہٰذا اس سے بھی اجتناب کیا جائے . هذا ما عندي والله أعلم بالصواب .


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں