اللہ سے حسن ظن رکھو (باب چہارم)

اللہ سے حسن ظن رکھو حکمت نمبر40

اللہ سے حسن ظن رکھو کے عنوان سے  باب  چہارم میں  حکمت نمبر40 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
40) إنْ لم تحسِّنْ ظنَّكَ بهِ لأجلِ وَصْفِهِ، فحَسِّنْ ظنَّكَ بهِ لأجْلِ معاملتِهِ مَعَكَ، فهَلْ عوَّدكَ إلاَّ حَسَنًا؟ وهَلْ أسدى إليْكَ إلاّ مِننًا؟.
اگر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی صفات کی بناء پر حسن ظن نہیں رکھتے ہو تو تمہارے ساتھ جو اچھے سلوک اس نے کیا ہے اس کی بنا پر اس کے ساتھ حسن ظن رکھو ۔ تو کیا اس نے تمہیں اچھے حال کے سوا کبھی برے حال میں رکھا۔ اور کیا تمہارے پاس احسان کے سوا کچھ اور بھیجا؟

خواص اور عوام کا حسن ظن

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن کے معاملہ میں انسانوں کی دو قسم ہے:۔
ایک قسم، خواص : اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا حسن ظن اس کے جمال اور کمال کے مشاہدہ سے پیدا ہوتا ہے، ان کیلئے دونوں برابر ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا رحمت و رافت اور جو دو کرم سے موصوف ہو نا ختم نہیں ہوتا ہے تو جب ان کے سامنے اپنے جلال یا قہر کے ساتھ تجلی کرتا ہے تو اس کے پردے میں جو کچھ اس کی نعمت کا کمال اور اس کی رحمت کی شمولیت ہوتی ہے۔ اس کو سمجھ لیتے ہیں۔ اور ان کے اوپر رحمت اور جمال کا مشاہدہ غالب ہو جاتا ہے۔ پس ان کا حسن ظن ہر حال میں ہمیشہ قائم رہتا ہے۔
دوسری قسم عوام : اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا حسن ظن اس کے احسان اور اس کے اچھے سلوک، اور اس کے انعام کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جب ان کے اوپر قہریت یاسختی نازل ہوتی ہے تو وہ اس کے سابقہ احسان اور اس مہربانی اور انعام پر نظر کرتے ہیں۔ جو اس نے ان کو پہلےعطا کیا ہے۔ تو جو کچھ ان کے اوپر اب وارد ہوتا ہے اس کو ماضی پر قیاس کرتے ہیں اور قبولیت اور رضا مندی کے ساتھ اس کو گوارا کرتے ہیں۔ اور یہ حسن ظن نظر اور نظر کی کمزوری اور طاقت کے مطابق کمزور اور طاقتور ہوتا ہے بخلاف پہلے حسن ظن کے کہ وہ یعنی خواص کا حسن ظن وصف کے مشاہدہ سے پیدا ہوتا ہے اور وصف بھی مختلف نہیں ہوتا ہے اور دوسرا یعنی عوام کا حسن ظن فعل کے مشاہدہ سے پیدا ہوتا ہے اور فعل مختلف ہوتا رہتا ہے۔ پس اے مرید! اگر تم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا حسن ظن رکھنے کی طاقت نہیں ہے جو اس کے مختلف نہ ہونے والے وصف رحمت و رافت کے مشاہدہ سے پیدا ہوتا ہے تو تم اس کے اس مہربانی اور احسان کی بنا پر جو اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے اس کے ساتھ حسن ظن رکھو۔ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ بھلائی اور لطف وکرم کے سوا کچھ اور کیا ہے۔ اور کیا اس نے تمہارے پاس بڑے احسانات اور زیادہ نعمتوں کے سوا کچھ اور بھیجا ہے؟
حضرت رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:۔
احِبُّوا اللهَ لِمَا يُغَذِیْكُمْ بِهِ مِنْ نِعْمَةٍ ، وَاَحِبُونِي بِحُبِ اللَّهِ تم لوگ الله تعالیٰ کی محبت اس لئے کرو کہ وہ تم کو اپنی نعمت سے غذا دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی محبت کیلئے مجھ سے محبت کرو۔
حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ میں صرف اللہ تعالیٰ کو محبت کرتا ہوں تو ایک شخص نے کہا: اے میرے سردار! آپ کے جد معظم حضرت رسول اکرم ﷺ نے اپنے مندرجہ ذیل قول مبارک سے آپ کے قول کا انکار فرمایا ہے:۔
جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبِّ مَنْ أَحْسَنَ إِليها قلوب اس کی محبت پر پیدا کئے گئے ہیں جس نے اس کے ساتھ احسان کیا ہے۔

وسواس کا شر

حضرت شیخ ابوالحسن نے جواب دیا، بیشک جب ہم نے اللہ تعالیٰ کے سواکسی کو احسان کرنے والا نہیں دیکھا تو ہم نے صرف اللہ تعالیٰ سے محبت کی ۔
نیز حضرت شیخ ابوالحسن نے فرمایا:۔ ایک رات کو میں نے سورہ قُلۡ أَعُوذُ بِرَبِّ ٱلنَّاسِ پڑھنا شروع کیا۔ جب میں مِن شَرِّ ٱلۡوَسۡوَاسِ ٱلۡخَنَّاسِ تک پہنچا۔ تو مجھ سے کہا گیا وسواس کا شر:۔ وہ وسوسہ ہے جو تمہارے اور تمہارے دوست کے درمیان داخل ہوتا ہے تم کو تمہارے برے افعال یاد دلاتا ہے اور تم کو تمہارے نیک افعال بھلا دیتا ہے اور تمہارے نزدیک بائیں ہاتھ والے یعنی برائی کے اعمالنامے کو زیادہ کرتا ہے۔ اور داہنے ہاتھ والے یعنی نیکی کے اعمالنا مے کو تمہارے نزدیک کم کرتا ہے تا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کی بخشش کے حسن ظن سے پھیر کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بدظنی میں مبتلا کر دے پس اس وسوسہ سے بچو اور عابدین و زاہدین اور اطاعت کرنے والے صالحین نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔
نیز حضرت شیخ ابو الحسن نے فرمایا:۔ عارف وہ ہے جو زمانہ کی سختیوں اور مصیبتوں کو ، اپنے او پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والی مہربانیاں تصور کرتا ہے۔ اور زمانہ کی برائیوں کو اپنی طرف اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھتا ہے۔فَاذْكُرُوا الَآءَ اللهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ الآية . تم لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو تا کہ تم کو کامیابی حاصل ہو


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں