نوافل جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں مکتوب نمبر288دفتر اول

 اس بیان میں کہ عاشورہ اور شب برات میں نماز نوافل کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے اور اس کے مناسب بیان میں سید انبیا مانکپوری کی طرف صادر فرمایا ہے ۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِىْ شَرَّفَنَا بِمُتَابِعَةِ سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ وَجَنَّبَنَا عَنِ ارْتِكَابِ الْمُبْتَدَعَاتِ فِى الدِّيْنِ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى مَنْ قَمَعَ بُنْيَانَ الضَّلَالَةِ وَرَفَعَ اَعْلَامِ الْهِدَايَةِ وَعَلىٰ اٰلِهِ الْاَبْرَارِ وصَحْبِہِ الْاَخْيَارِ الله تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو سید المرسلین کی متابعت سے مشرف فرمایا اور دین کی بدعتوں سے بچایا اور آنحضرت ﷺپر جنہوں نے گمراہی کی بنیاد کو اکھیڑا اور ہدایت کے جھنڈوں کو بلند کیا اور ان کی آل ابرار اور اصحاب اخیار پر صلوۃ وسلام۔ 

جاننا چاہیئے کہ اکثر خاص و عام لوگ اس زمانہ میں نوافل کے ادا کرنے میں بڑا اہتمام کرتے ہیں اور مکتوبات یعنی فرضی نمازوں میں سستی کرتے ہیں اور ان میں سنتوں اور مستحبوں کی رعایت کم کرتے ہیں۔ نوافل کو عزیز جانتے ہیں اور فرائض کوذلیل و خوار ۔ فرائض کو اوقات مستحبہ میں بمشکل ادا کرتے ہیں اور جماعت مسنونہ کی تکثیر بلکہ نفس جماعت میں کوئی تنقید نہیں رکھتے نفس فرائض کو غفلت وسستی سے ادا کرنا غنیمت سمجھتے ہیں اور روز عاشوراء(دس محرم) اور شب برات اور ماہ رجب کی ستائیسویں رات اور ماہ رجب کے اول جمعہ کی رات کو جس کا نام انہوں نے لیلۃ الرغائب رکھا ہے بڑااہتمام کرتے ہیں اور نوافل کو بڑی جمعیت کے ساتھ جماعت سے ادا کرتے ہیں اور اس کو نیک و مستحن خیال کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ شیطان کے تسویلات یعنی مکروفر یب ہیں جو سیئات کو حسنات کی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔ 

شیخ الاسلام مولانا عصام الدین ہروی شرح وقایہ کے حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ نوافل کو جماعت سے ادا کرنا اور فرض کی جماعت کو ترک کرنا شیطان کا مکروفریب ہے۔ 

جاننا چاہیئے کے نوافل کو جمعیت تمام کے ساتھ ادا کرنا، ان مکرو ہہ اور مذمومہ بدعتوں میں سے ہے جن کے حق میں حضرت رسالت پناہ ﷺنے فرمایا ہے۔ مَنْ ‌أَحْدَثَ فِي ‌أَمْرِنَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ جس نے ہمارے امر میں ایسی نئی چیز پیدا کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ جاننا چاہیئے کہ نوافل کو جماعت کے ساتھ ادا کرنافقہ کی بعض روایات میں مطلق طور پر مکروہ ہے اور بعض روایات میں کراہت تداعی اورتجمیع (یعنی بلانے اورا جتماع) پر مشروط ہے۔ پس اگر بغیر تداعی کے ایک دو آدمی مسجد کے گوشہ میں نفل کو جماعت سے ادا کریں تو بغیر کراہت کے روا ہے اور تین آدمیوں میں مشائخ کا اختلاف ہے اور بعض روایات میں چار آدمیوں کی جماعت بالا تفاق مکروہ نہیں اور بعض روایات میں اصح (زیادہ صحیح)یہ ہے کہ مکروہ ہے۔ 

فتاویٰ سراجیہ میں ہے کہ تراویح اور کسوف کی نماز کے سوا نوافل کو جماعت سے ادا کرنا مکروہ اور فتاوی غیاثیہ میں ہے کہ شخ امام سرخسی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ رمضان کے سوا نوافل کو جماعت سے ادا کرنا جبکہ تداعی کے طریق پر ہو مکروہ ہے لیکن جب ایک یا دو اقتداء کریں تو مکروہ نہیں اور تین میں اختلاف ہے اور چار میں بلا خلاف کراہیت ہے۔ 

اور خلاصہ میں ہے کہ نفلوں کی جماعت جب تداعی کے طریق پر ہو تو مکروہ ہے لیکن جب اذان و اقامت کے بغیر گوشہ مسجد میں ادا کئے جائیں تو مکروہ نہیں۔ 

اورشمس الائمہ حلوانی نے کہا ہے کہ جب امام کے سوا تین آدمی ہوں تو بالاتفاق مکروہ ہے اور چار میں اختلاف ہے اوراصح یہی ہے کہ مکروہ ہے۔ 

اور فتاوی شافعیہ میں ہے کہ ماہ رمضان کے سوا نوافل کو جماعت سے ادا نہ کریں اور نوافل تداعی کے طور پر یعنی اذان و اقامت کے ساتھ ادا کرنا مکروہ ہے لیکن اگر ایک یا دو اقتداء کرلیں جو تداعی کے طور پر نہ ہوتو مکروہ نہیں اور اگر تین اقدام کریں تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے اور اگر چار اقتداء کریں تو بالا تفاق مکروہ ہے۔ اس قسم کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں اور فقہ کی کتا ہیں ان سے بھری ہوئی ہیں اور اگر کوئی ایسی روایت پیدا ہو جائے جو عدد کے ذکر سے ساکت ہو اور اس سے مطلق طور پر نفل کو جماعت سے ادا کرنا جائز ہوتا ہو تو اس کو مقید پرمحمول کر نا چا ہیئے جو دوسری روایات میں واقع ہے اور مطلق سے مقید مراد لینا چاہیئے اور جواز کو دو یا تین پرمنحصر کرنا چاہیئے کیونکہ علمائے حنفیہ اگرچہ اصول میں مطلق کو مقید پر عمل نہیں کرتے لیکن روایات کو مقید پر عمل کرنا جائز بلکہ لا زم جانتے ہیں اور اگر بفرض محال حمل نہ کریں اور اطلاق پر ہی رہنے دیں تو یہ مطلق اس مقید کا معارض ہوگا۔ اگر چہ قوت میں برابر ہوں اور مساوات ممنوع ہے کیونکہ کراہت کی روایتیں باوجود کثرت کے مختار اور مفتی بہا ہیں ۔ برخلاف اباحت کی روایتوں کے اور اگر مساوات کو مان بھی لیں تو ہم کہتے ہیں کہ کراہت و اباحت کے دلائل متعارض ہونے کی صورت میں کراہت کی جانب کوترجیح ہے کیونکہ احتیاط کی رعایت اسی میں ہے جیسا کے اصول فقہ کے جاننے والوں کے نزدیک مقررہے۔ 

پس وہ نماز جو روز عاشورا اور شب برات اور لیلۃ الرغائب میں جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور دودوسو یا تین تین سو یا اس سے زیادہ آدی مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں اور اس نماز اور اجتماع اور جماعت کو حسن خیال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ فقہاء کے اتفاق سے امر مکروہ کے مرتکب ہیں اور مکروہ کومستحسن جاننا بڑا بھاری گناہ ہے کیونکہ حرام کو مباح جاننا کفر تک پہنچا دیتا ہے اور مکروہ کو احسن سمجھنا ایک درجہ اس سے کم ہے۔ اس فعل کی برائی کو اچھی طرح ملاحظہ کرنا چاہیئے اور کراہیت کے دفع کرنے میں ان کے پاس سند عدم تداعی ہے ہاں عدم تداعی بعض روایات میں کراہت کو دفع کرتی ہے لیکن ایک یا دو کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ بھی اس شرط پر کہ گوشہ مسجد میں ہو – وَبِدُونِهَا خَرْطُ الْقَتَادِ ( اور اس کے سوا بے فائد ه رنج و تکلیف ہے)

تداعی سے مراد ہے نمازنفل کے ادا کرنے کے لئے ایک دوسرے کو خبر دینا اوریہ معنی اس جماعت میں متحقق ہیں کیونکہ قبیلہ قبیلہ عاشورا کے ایک دوسرے کوخبر کر تے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ فلاں شیخ یا فلاں عالم کی مسجد میں جانا چاہیئے اور نماز کو جمعیت سے ادا کرنا چا ہیئے اور اس فعل کو معتبر ہ جانتے ہیں اس قسم کا اعلام اذان و اقامت سے بھی ابلغ ہے۔ پس تداعی بھی ثابت ہوگئی ۔ اگر تداعی کو اذان و اقامت پر ہی مخصوص رکھیں جیسا کہ بعض روایات میں واقع ہے اور اس سے اذان و اقامت کی حقیقت مراد ہیں تو پھر بھی جواب وہی ہے جو اوپر گزر چکا کہ ایک یا دو کے ساتھ مخصوص ہے یا دوسری شرط کے ساتھ جو اوپر مذکور ہو چکی۔ 

جاننا چاہیئے کہ ادائے نوافل کی بنیاد اخفاء و تستر یعنی پوشیدگی پر ہے تا کہ سمعہ و ریاء کا گمان نہ گزرے اور جماعت اس کے منافی ہے اور فرائض کے ادا کرنے میں اظہار و اعلان مطلوب ہے کیونکہ ریا ءوسمعہ کی آمیزش سے پاک ہے۔ پس ان کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا مناسب ہے یا ہم یہ کہتے ہیں کہ کثرت اجتماع فتنہ پیدا ہونے کامحل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز جمعہ کے ادا کرنے کے لئے سلطان یا اس کے نائب کا حاضر ہونا شرط ہے تا کہ فتنہ کے پیدا ہونے سے امان رہے اور ان مکرو ہہ جماعت میں بھی فتنہ پیدا ہونے کا قوی احتمال ہے۔ پس یہ اجتماع بھی مشروع نہ ہوگا بلکہ منکر ہوگا۔ 

حدیث نبوی میں ہے الْفِتْنَةُ ‌نَائِمَةٌ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ أَيْقَظَهَافتنہ سویا ہوتا ہے جو اس کو جگاتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ 

پس اسلام کے والیوں اور قاضیوں اورمحتسبوں کو لازم ہے کہ اس اجتماع سے منع کریں اور اس بارے میں بہت ہی زجر و تنبیہ کریں تا کہ یہ بدعت جس سے فتنہ برپا ہو، جڑ سے اکھڑ جائے وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي ‌السَّبِيلَ (اللہ تعالیٰ حق ثابت کرتا ہے اور وہی سیدھے راستہ کی ہدایت دیتا ہے۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ393 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں