محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کی فتوحات میں سے ہے۔
واصل الی اللہ ہونا ہے تو
اے باطل! – اے سراپا ہوس! تو اسباب کوقطع کر دے اور ارباب کو چھوڑ دے تو یقینا واصل الی اللہ ہو جائے گا، جو کچھ تو ترک کرے گا وہ خود بخود تیرا استقبال کرے گا ۔ یہاں ہرقم کا چنا ہوا کھانا طباق میں موجود ہے، محبوب کے گھر میں قرب کی منزل میں طبیب بھی موجود ہے،اس دوران ایک شخص سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی مسئلہ دریافت کر نے کے لئے کھڑا ہوا ۔ آپ نے فرمایا خاموش رہو! میں تیرے سوال کو دیکھتا ہوں کہ تیرے نفس اور طبیعت سے نکل رہا ہے، تو میرے ساتھ خطرے میں نہ پڑ، میں صاحب شمشیر اورقتل کر ڈالنے والا ہوں ، اوراللہ ہمیں اپنے نفس سے ڈراتا ہے، مگراے عامی! اللہ تجھے اپنے عذاب سے ڈراتا ہے، ” اوراے خاص! اللہ تجھے اپنے نفس سے ڈراتا ہے –
اے خاص الخاص وہ تجھے اپنی تبدیلیوں اور حالتوں کے پلٹ دینے سے ڈراتا ہے کہ وہ تیرے کان اور آنکھ اور قوتوں اور مال واہل و عیال کولے لے جائے گا۔، پھر تجھے آخرت کی طرف لے جائیگا ۔
اے خاص الخاص ! اللہ تجھے اپنے سے ڈراتا ہے اپنے خوف کے قدم پرکھڑارہ حتی کہ کہ تو غافل نہ ہو۔
اور مال واہل وعیال کو لے لے گا یا ، اللہ تیرے سر سے مشورہ کرے اور کہے
بے شک میں ہی اللہ ہوں تو خوف نہ کر اور ڈرمت‘‘۔ جب تجھے یہ مرتبہ حاصل ہو جائے گا تو جب بھی تو خوف کی طرف بڑھے گاوہ تجھے منع کرے گا ، تیرا امن خوف سے مکدر ہوگا وہ اسے صاف کر دے گا، جب قلب کی صحت تمام ہو جائے گی ، زمین و آسمان کے درمیان کی سلطنت کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گی یہ امر بناؤ سنگھار اور تمنا اور تکلف اور بناوٹ سے حاصل نہیں ہوا کرتا ، یہ اس لیاقت واہلیت سے حاصل ہوتا ہے جو آسمان سے اترتی ہے، تجھے تیرے دل میں زہد کے ساتھ قیام کرنے سے عمل ترقی دے سکتا ہے، تجھ پر اور تیری مجلس والوں پر رحمت اترتی ہے، مباحات اور زائدانعامات یکے بعد دیگرے آتے رہیں گے،(یعنی تیری اس بلندی سے فرشتوں کو فخر ہوگا ، اور بلندیاں نصیب ہوں گی)۔ ایک مرید حکیم کے سامنے آ کر بیٹھ گیا، اور کہنے لگا: میں جنت میں تھوڑی سی جگہ چاہتا ہوں ، اس کے سوا کچھ طلب نہیں کرتا‘‘۔ حکیم نے اسے جواب دیا: جس طرح تو نے آخرت سے قناعت کر لی ہے، اسی طرح تو دنیا سے بھی قناعت کر لیتا‘‘
جب مرنا برحق ہے اور مرے بغیر چارہ نہیں ، تو ابھی مر جا، میت کو کسی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا ،دینے یا نہ دینے سے امید اور خوف سے کوئی علاقہ نہیں رہتا، نہ آپس کی دشمنی ہوتی ہے اور نہ دوستی ، فقط سکون اور سکوت ہوتاتو نفع اٹھانے کے لئے اور مصیبت سے نجات پانے کے لئے مردے کی طرح ہو جا، مردہ کوئی بات چیت نہیں کرتا ۔ پھر اللہ چاہے گا تو تیرے مردہ ہونے کی حالت میں تجھے گویائی دے دے گا ، جب تو اپنی خودی اور خلق سے مر جائے گا تو تو ایسے کلام سے گویا ہو جائے گا جو کہ سراپا صدق اور حق ہوگا، کیونکہ مردہ سچی اور حق ہی خبر دیا کرتا ہے، ۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 743،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور