نیت مراقبہ وقوف اخفی
فیض می آید از ذات بیچون بلطیفہ اخفی من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین
ذات باری تعالیٰ کی طرف سے عظیم مرشدین گرامی اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ سے میرے لطیفہ اخفیٰ میں فیض آتا ہے۔
تشریح
یہ مراقبہ وقوف اخفی (ﷲ تعالیٰ کے سامنے حضورِ اخفی کی ایسی کیفیت کہ لطیفہ اخفی اللہ کی طرف متوجہ ہو )ہے پانچواں مراقبہ یہ ہے کہ اپنے شیخ کے حکم کے مطابق جتنے دنوں کی لئے ارشاد ہو اتنے دن کو مخصوص کرے۔
مراقبہ لطیفہِ اخفٰی اپنے لطیفہِ اخفٰی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لطیفہِ اخفٰی کے مقابل تصور کرکے خیال کی زبان سے التجا کرے کہ الہی تجلیات شان جامع کا فیض جو تو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لطیفہِ اخفٰی میں القاء فرمایا ھے بحرمت پپیرانِ کبار اسے میرے لطیفہِ اخفٰی میں القاء فرما۔
اخفی انسانی کا تعلق صفت العلم ہے ہے جو آنحضور علیہ الصلواۃ و السلام کا رب ہے اور وہ شان جامع جمیع صفات کمالیہ و کیانیہ الہیہ کا مظہر ہے اس لئے یہاں تجلیات مذکورہ کے وارد ہونےکا مراقبہ کرایا جاتا ہے شان جامع الہیہ کی تجلیات کا رنگ سبز ہے۔
اس لطیفہ میں شان جامع کا فیض ملتا ہے یہاں تمام فیوض مجتمع ہوتے ہیں یعنی صفات فعلیہ صفات ذاتیہ صفات سلبیہ شیونات و اعتبارات سب کا
لطیفہ اخفی سے مراد ذات بحت (خالص ذات)مرتبہ ہویت ہے اسی ذات کی توصیف میں سبوح قدوس فرمایا گیا ہے الله الصمد بھی اور اسی کو وراء الوراء ثم وراء کہا جاتا ہے اور یہی ذات صفات و اعتبارات سے مبرا اور قید اطلاق سے منزہ ہے بہ وہ ذات قدسی ہے جس کے متعلق خود ارشاد باری ہے الا انه بكل شئ محیط اس لطیفہ کے نور کا رنگ سبز ہے ۔
عالم امر کے ان پانچوں لطائف کی فنائیت کے بعد دائرہ امکان (عالم امر جو لفظ کن سے وجود میں آیا عالم خلق جو بتدریج مراحل سے سے بنا کے مجموعے کودائرہ امکان کہتے ہیں)کی سیر ختم ہوجاتی ہے۔ مشائخ نے انوار و تجلیات دیکھنے کو اس دائرہ کے طے کرنے کی علامت فرمایا ہے۔ واضح رہے کہ دائرہ امکان کا نصف زمین سے عرش تک ہے اور دوسرا نصف عرش سے اوپر ہے۔
پیران کبار طریق نقشبندیہ نے دائرہ امکان کی اس طرح توضیح فرمائی ہے کہ اذکار الہی سے کل لطائف منور ہو جانے کے بعد ان سب لطائف کے انوار ایک ساتھ مجتمع ہو کر ایک دائرہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس کو اصطلاح صوفیہ میں دائرہ امکان کہا جاتا ہے۔ دائرہ امکان میں سب سے پہلے جانب بالا ایک کشش محسوس ہوتی ہے۔ اس کے اس قلب پر واردات ہوتے ہیں جو سالک کو فنا و معدوم کر دیتے ہیں