پرگنہ مستکن کے قاضیوں سے تعزیت مکتوب نمبر104دفتر اول

ماتم پرستی کے بارے میں پرگنہ مستکن کے قاضیوں کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

وہ مصیبت جو مغفرت پناہ کے فوت ہونے سے پہنچی۔ اگرچہ بہت سخت اور مشکل ہے لیکن مقام بندگی ہے۔ مولائے پاک کے فعل سے راضی ہونے کے سوا کچھ چارہ نہیں ۔ بندوں کو یہاں رہنے کے لئے نہیں بھیجا۔ بلکہ (نیک)کام کرنے کے لئے وہ کام کرنا چاہیئے اگر(انسان نیک) کام کر کے چلا گیا تو کچھ ڈر نہیں بلکہ بادشاہ ہے اور المَوْتُ ‌جَسْرٌ يُوْصِّلُ الحَبِيبَ إِلى الحَبِيب یعنی  موت ایک پل ہے جو دوست کو دوست سے ملاتا ہے) اس کی شان میں ثابت ہے۔ چلے جانے پر مصیبت نہیں ہے بلکہ جانے والے کے حال پر ہے کہ دیکھئے اس کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں ۔ دعا و استغفار وصدقہ سے امداد کرنی چاہیئے۔ 

رسول الله ﷺنے فرمایا ہے مَا ‌الْمَيِّتُ ‌فِي ‌الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ، يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ، فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَتْ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ کہ میت قبر میں فریاد چاہنے والے غریق کی طرح ہوتی ہے اور اس دعا کی منتظر رہتی ہے جو اس کو باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچے۔ پس جس وقت اس کو وہ دعا پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتی ہے اور بیشک اللہ تعالی زمین  پر رہنے والوں کی دعا سے اہل قبور پر پہاڑوں جتنی رحمت نازل فرماتا ہے اور بیشک زندوں کا تحفہ مردوں کی طرف ان کے لئے مغفرت مانگتا ہے۔ 

آپ کا محبت نامہ پہنچا۔ موسم سرما کی ہو افقراء پرسخت ہے ورنہ کبھی اپنے آپ کو معذور نہ رکھتا (جلد جواب دیتا)۔سفارش بڑی تا کید سےلکھی ہے۔ انشاء الله فائدہ مند ہوگی ۔ زیادہ لکھنا سر دردی ہے محبت کے نشان والے قاضی حسن اور تمام عزیز بہت بہت دعوات مطالعہ کریں اور تمام امور میں حق تعالی سے شاکر و راضی رہیں۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ283ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں