پندرہویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے پندرہویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس الخامس عشر فی ایثار المومن علی نفسہ ‘‘ ہے۔

 منعقدہ 9 ذیعقد 545   بروز اتوار بمقام خانقاہ شریف

ایمان والا سامان آخرت کرتا ہے، کافرسارا فائدہ لیتا اور مزے اڑاتا ہے:

ایمان والا حسب ضرورت لیتا ہے ، کافر سارا فائدہ لیتا اور مزے اڑاتا ہے، ایمان والا تھوڑے سے گزراوقات کرتا ہے، اور بہت سا مال آخرت کے لئے آگے بھیجتارہتا ہے، جتنا سامان مسافر اپنی ضرورت کے مطابق اٹھا سکے، اس قد روہ اپنے نفس کے لئے رکھ لیتا ہے ۔ اس کا سارا مال، اور پوری ہمت اور دل آ خرت میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس کا دل دنیا سے کٹ کر اس طرف لگا ہوا ہے۔ وہ اپنی سب عبادتیں آخرت میں بھیجتا ہے، دنیا اور دنیا والوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا، اگراس کے پاس اچھا کھانا ہوتو وہ اس نیت سے فقیروں کو کھلا دیتا ہے کہ اسے آخرت میں اس سے بہتر کھلایا جائے

مؤمن عارف عالم کا دلی مقصود قرب الہی کا دروازہ ہے، اور یہ چاہتا ہے کہ اس کا دل آ خرت سے پہلے دنیا ہی میں اللہ اسے واصل ہو جائے ، ایمان والے کے دل کے قدموں اور باطن کی سیر کی انتہا قرب الہی ہے،  میں تجھے قیام اور قعود، اور رکوع اورسجود اور بے خوابی اور محنت ومشقت میں دیکھتا ہوں ، لیکن تیرے دل کا یہ حال ہے

تو اپنی جگہ سے عروج وترقی کرتا ہے، نہ اپنے وجود کے گھر سے نکلتا ہے نہ اپنی عادت سے باز آ تا ہے

تو مولی کی طلب میں سچائی دکھا کہ تیری سچائی (صدق ) تجھے بہت ہی مشقت سے بے پروا کر دے گی ، اپنے وجود کے انڈے کو صدق کی چونچ سے کھٹک دے ۔ جن دیواروں سے تجھے خلقت دکھائی دیتی ہے، اور جن کے بیچ میں تو قید ہے، توحید اور اخلاص کی کدالوں سے ان دیواروں کو گرا دے، طلب کے جس پنجرے سے تو چیزوں کا طالب ہوتا ہے، اپنےزہد کے ہاتھ سے اسے توڑ ڈال، اپنے دل کے ساتھ اڑ جا اور قرب الہی کے دریا کنارے اتر جا، اس وقت سابقہ تقدیرالہی کا ملاح عنایت الہی کی کشتی لے کر آئے گا اورتجھے اس پر سوار کر کے اللہ تک پہنچا دے گا،  یہ دنیا دریا ہے اور بندے کاایمان اس کے لئے کشتی ہے، اسی لئے حضرت لقمان حکیم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نصیحت ارشادفرمائی :

”بیٹا! دنیا دریا ہے اور ایمان کشتی عبادات ملاح، اور کنارا آخرت ہے ۔‘‘

اے گناہوں پر اصرار کرنے والو! عنقریب تم پر وہ وقت آنے والا ہے کہ نہ آ نکھیں تمہاری ہوں گی ،نہ کان تمہارے ہوں گے ، تم اپاہج اور محتاج ہو گے، خلقت کے دل تم پرسخت ہو جائیں گے، تمہارا سارا مال اسباب نقصانوں اورتاوانوں اور چوریوں میں چلا جائے گا، عقل سے کام لو، اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ، اس کے حضور میں توبہ کرو۔ مال پر بھروسہ نہ کرو، نہ ا سے اس کا شریک ٹھہراؤ نہ اس کے ساتھ ٹھہرو، مال کو دلوں سے نکال دو، اسے اپنے گھروں اور جیبوں کے اندر اپنے غلاموں اور وکیلوں کے پاس رکھوادو اورموت کے انتظار میں رہو، حرص کو کم کر دو اورامیدوں کو گھٹا دو حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  کہ ایمان والا   اللہ کی معرفت رکھنے والا اللہ سے دنیا و آخرت نہیں مانگتا،۔وہ اپنے مولی سے مولی ہی کو طلب کرتا ہے۔

 اللہ کی طرف اپنے دل سے رجوع کرو:

اے بیٹا! تو اپنے دل سے اللہ کی طرف رجوع کر توبہ کرنے والا وہی ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔ارشاد باری تعالی ہے:

وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ’’اپنے رب کی طرف رجوع ہو جاؤ ۔‘‘

یعنی اپنی ہر چیز کو اس کے حوالے کر دو ، اپنے نفس اس کے سپرد کر دو، نفس کو اس کی قضا اور قدر، اس کے امرونہی اور اس کے تصرفات کے سامنے ڈال دو، اپنے دلوں کو اس کے حضور میں بے زبان ، ہاتھ پاؤں اور آنکھوں کے بغیر کسی بھی چون و چراکے بغیر کسی جھگڑے اور مخالفت کے بغیر ڈال دو، اس کی موافقت اور تصدیق کرتے رہو اور یوں کہو: امر الہی سچا ہے، ۔ تقدیرسچی ہے، قضاسچی ہے ۔‘‘

جب تم ایسے ہو جاؤ گے تو تمہارے دل اس کی طرف رجوع کر کے اس کا مشاہدہ کرنے لگیں گے ، پھر کسی چیز سے مانوس نہ ہوں گے بلکہ عرش الہی سے لے کر فرش کی تہہ تک کی تمام چیزوں سے وحشت کھا ئیں گے ۔ ساری خلقت سے الگ ہوکر اورنئی پیدا ہونے والی سب چیزوں سے تعلق توڑ کر اللہ کی طرف دوڑ یں گے ۔

پیرومرشد کا ادب وہی کر سکتا ہے جو ان کی صحبت میں رہا ہو، اور اللہ کے ساتھ ان کے جواحوال تھے، ان میں سے بعض سے آگاہ ہو، اللہ والے تعریف اور برائی کی پرواہ نہیں کرتے ، وہ تعریف کو گرمی اور رات کی طرح سمجھتے ہیں ، اور برائی کو سردی اور دن کی طرح خیال کرتے ہیں، اور انہیں اللہ ہی کی طرف سے سمجھتے ہیں ، اس لئے کہ ان دونوں کو لانے کے لئے اللہ کے سوا کوئی قدرت نہیں رکھتا ، جب ان پر یہ بات ثابت ہو گئی تو وہ تعریف کرنے والوں کے آگے نہیں پڑتے ، اور برائی کرنے والوں کے پیچھے نہیں بھاگتے ۔ سب سے ایک سے رہتے ہیں، کسی سے مشغول نہیں ہوتے ۔ ان کے دلوں سے خلقت کا اچھا اور برا جاننا نکل گیا ہے وہ کسی کی دوستی اور دشمنی کی پرواہ نہیں کرتے ، بلکہ ہر ایک سے رحمت سے پیش آتے ہیں۔

صدق کے بغیر علم کا کچھ نفع نہیں:

 صدق کے بغیر علم تجھے کیا نفع دے گا، علم دے کر اللہ نے تجھے راہ سے ہٹادیا ، تیرا علم سیکھنا اور نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا سب خلقت کے لئے ہے، تا کہ وہ تمہاری دعوت کر یں ، اور تمہارے لئے اپنا مال خرچ کر یں اپنے گھروں اور مجلسوں میں تمہاری تعریف کر یں یہ بات مان لو کہ تمہیں ان سے یہ سب حاصل ہو جائے گا لیکن جب تمہیں موت اور عذاب اور قبر کی تنگی اور خوف تمہارے اور ان کی بیچ میں حائل ہو جائیں گے، اور وہ تمہاری کسی طرح سے کوئی مدد نہ کر سکیں گے ، اور جو کچھ تو نے ان کے مالوں سے کمایا، وہ تیرے نہیں اوروں کے کام آئے گا ۔ البتہ اس کا حساب و عذاب تمہارے ذمہ ہوگا۔ اے بد بخت! اے محروم!  تو ان میں سے ہے جو دنیا میں کام کرنے والے ہیں ، اور تکلیف اٹھانے والے ہیں اور قیامت کے دن دوزخ میں تکلیف اٹھانے والا ہوگا ۔ عبادت ایک صنعت ہے، اولیاء وابدال جو کہ مخلص اور اللہ کے مقرب ہیں ، وہی اس کے اہل ہیں ، وہ دل سے باعمل عالم ہیں ، زمین میں اللہ کے نائب اور نبیوں اور رسولوں کے وارث ہیں تم نہیں ہو، اے حرص کے بندو! – اے زبان درازی اور باطن کی جہالت سے ظاہری فقہ میں مشغول رہنے والو! – سمجھ سے کام لو علم حاصل کرو، اور اس پر عمل بھی کرو ۔

 زبانی ایمان کافی نہیں، دل کی گواہی لازم ہے۔

اے بیٹا! تو کچھ بھی نہیں جب تک تیرا اسلام بھی نہ ہو تو اسلام کی کسی چیز پر نہیں ، کلمہ شہادت جو کہ اسلام کی بنیاد ہے، وہ بھی تیرے لئے کافی نہیں ، زبان سے لا الہ الا اللہ تو کہتا ہے، لیکن عمل سے اس کی نفی کرتا ہے ) یعنی تو جھوٹ بولتا ہے ۔۔ تیرے دل میں معبودوں کی ایک جماعت ہے: وقت کے حاکم اور محلہ کے سرکردہ سے ڈرنا تیرامعبود ہے۔ اپنی آنکھ اور کان اور ہاتھ کی گرفت پر اعتماد کرنا تیرامعبود ہے۔ نفع ونقصان اور منع وعطا کے لئے طاقت کی طرف متوجہ  ہونا تیرامعبود ہے۔ بہت سے لوگ ان چیزوں پر توکل کئے بیٹھے ہیں ۔ جبکہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ پر بھروسہ ہے ۔ ان کا اللہ کویاد کرنا زبانی کلامی ہے، دل سے نہیں، اس معاملہ میں جب انہیں پرکھا جائے تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور جھگڑ نےلگتے ہیں اور کہتے ہیں: ہمیں ایسا کیوں کہتے ہو، کیا ہم مسلمان نہیں !‘‘ کل قیامت کے دن سب سامنے آ جائے گا، رسوائی اور خسارہ ظاہر ہو جائیں گے ۔ تجھ پر افسوس ہے کہ لا اللہ کہتے ہو، ( یعنی کوئی معبود نہیں) ، یہ کلی نفی ہے، الا اللہ کہتے ہو (یعنی اللہ ہی معبود ہے، کوئی اور نہیں )، یہ کلی اثبات ہے۔ گویا خدا کے لئے نہ کہ اس کے غیر کے لئے  اور جب تیرے دل نے اللہ کے سواکسی اور پر بھروسہ کیا تو تو کلی اثبات میں جھوٹا ہو گیا ۔ اور جس پر تو نے بھروسہ کیا ، وہی تیرا معبود ٹھہرا، ظاہر کا کچھ اعتبارنہیں ، دل ہی سب کچھ ہے ۔

وہی مومن ( ایمان والا ) ، وہی موحد ( توحید والا )، وہی خالص ، وہی متقی و پرہیز گار، وہی زاہد ، وہی (مؤقن ) ( یقین رکھنے والا ) وہی عارف ، وہی عامل ،وہی امیر، وہی بادشاہ ، باقی سب اعضاء اس کے تابعدار اور شکر ہیں، جب تم لا الہ الا اللہ کہو، تو پہلے دل سے کہو، پھر زبان سے ، اللہ ہی پر توکل کرو اور اس کے غیر کا سہارا چھوڑ دو۔ ظاہری طور پر شرعی حکم کی تعمیل میں رہو اور باطنی طور پر اللہ کے ساتھ لگے رہو، بھلائی اور برائی کوظاہر پر چھوڑ دو ، اور باطن کی بھلائی اور برائی کے پیدا کرنے والے کے ساتھ جوڑ دو، جس نے اسے پہچان لیا اس کا فرماں بردار ہو گیا ، اس کے سامنے زبان بولنا بھول گئی ۔ اللہ اور اس کے نیک بندوں کے سامنے عاجزی وانکساری کرنے والا بن گیا ، اس کا فکر اور غم اوراگر یہ زاری دو گنا ہو گئے ، خوف اور دہشت بڑھ گئے ۔ بدعملی پر شرمندگی ہونے لگی حیا آنے لگی ، اگلے گناہوں اور خطاؤں پر شرم آنے لگی ، جو کچھ معرفت اور علم اور قرب الہی پایا تھا، اس کے زوال کا خوف اور ڈر ہو گیا ۔ کیونکہ اللہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے، اور لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ۔ یعنی جو کچھ وہ کرے اس کی کوئی پوچھ نہیں ، اور ان سے پوچھ ہوگی‘‘  عارف دو نگاہوں کے درمیان تردد میں رہتا ہے، جب و ہ عمل کے لئے اپنی اگلی کوتاہی اور بے حیائی اور نادانی اور غرور کی طرف دیکھتا ہے ۔ شرم کے مارے مر جا تا ہے ۔ اس کی پکڑ سے ڈرا جا تا ہے اور آئندہ کی طرف دیکھتا ہے کہ  آیا وہ مقبول ہوتا ہے یا مردود، جو کچھ عطا فرمایا گیا ہے وہ چھین لیا جائے گا ، یا بحال رہے گا ،  قیامت کے دن ایمان والوں کی صحبت ملتی ہے یا کافروں کی ، اسی لئے رسول اللہ  ﷺ نے ارشادفرمایا: –

أَنَا ‌أَعْرَفُكُمْ ‌بِاَللَّهِ ‌وَأَشَدُّكُمْ ‌لَهُ خَشْيَةً»”میں تم سب سے زیادہ اللہ کو پہچاننے والا ہوں، اور تم سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ۔ ہل عرفان میں سے گنے چنے ہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں بجائے خوف کے امن نصیب ہوتا ہے۔ جو کچھ ان کے مقدر میں طے ہو چکا ہے، وہ انہیں سنا یا جا تا ہے، انہیں اپنے انجام اور ٹھکانے کا پتہ ہوتا ہے، لوح محفوظ پر جو کچھ ان کے لئے لکھا ہے، ان کا باطن اسے پڑھ لیتا ہے ۔ باطن سے دل کو خبر ہو جاتی ہے، لیکن اس آگاہی کے ساتھ اسے چھپانے کی ہدایت بھی کر دیتا ہے تا کانفس کو اس امر کا بالکل علم نہ ہو، اس امر کا آغاز اسلام لانا، احکام پرعمل پیرا ہونا اور منع کئے ہوئے سے باز رہنا اور آفتوں پر صبر کرنے سے ہے، اوراس امر کی انتہا یہ ہے کہ ماسوا اللہ کو چھوڑ دیتا ، مٹی اور سونا تعریف اور برائی برابر ہوں ، دینا اور نہ دینا، ایک ہوں،  جنت اور دوزخ نعمت اور مصیبت برابر ہوں ، امیری درفقیری خلقت کا وجود اور عدم ایک ہو جائیں ۔ جب یہ حالت کامل ہو جائے تب اللہ اس کا ہو جا تا ہے، اللہ کی طرف سے اسے خلقت کی سرداری اور ولایت کا فرمان آ جا تا ہے۔ پھر جوبھی اسے دیکھتا ہے، اللہ کی ہیبت اور اللہ کی طرف سے اسے ملنے والی نورانیت کی تمنا کرتا ہے۔ ‌رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ، اے ہمارے رب! ہمیں دنیا کی بھلائی عطا کرے ، اور آخرت کی بھلائی عطا کر اور دوزخ کے عذاب سے بچا، آمین!‘‘

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 108،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 71دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں