پھل شاخ پر ہی پکتا ہے

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

کیا تجھے راحت و سرور چاہیئے تو سکون و استقرار کا خواہاں ہے۔ امن آشتی کی خواہش رکھتا ہے۔ نعمتوں اور برکتوں کے حصول کا ارادہ رکھتا ہے۔ حالانکہ تو چلنے اور پگھلنے ، نفس کو مارنے اور مجاہدہ کی بھٹی سے دور ہے۔ دنیا و آخرت کی مرادیں اور اعواض ابھی زائل نہیں ہوئے اور تیرے اندر ہزاروں خواہشیں ہزاروں تمنائیں زندہ ہیں ؟ 

ٹھہر جا۔ اے عجلت پسند جلدی کا ہے کی۔ بھاگنے سے کیا فائدہ۔ اے جھانکنے والے آہستہ آہستہ ، دروازہ اس وقت تک بند رہے گا جب تک خواہش دم توڑ نہیں دیتیں حالانکہ تیرے اندر تو ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ جب تک ذرہ ذرہ پگھل کردل پاک نہیں ہو جا تا دروازہ بند رہے گا۔ مکاتب کے ذمے جب تک ایک درہم بھی ہے وہ غلام ہے۔ تیرے دل میں دنیا کی خواہشات کا ایک ذرہ بھی ہے تو تب بھی توراہ نہیں پاسکتا۔ 

دنیا تیرا مطلوب و مقصود ہے۔ تو دنیا کی آرزو اور مراد کو اپنے دل میں بسائے ہے۔ ہر چیز کو خواہش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ دنیاو آخرت کی ہر نعمت کا خواہش مند ہے۔ جب تک تجھ میں دنیاوی خواہشات باقی ہیں تو ہلاکت کے دروازے پر ہے۔ یہیں ٹهہر جا حتی کہ تجھے بتمام و کمال ان سے فنا حاصل ہو جائے۔ پھر تو بهٹی سے کندن بن کر نکلے گا۔ پھر تو آراستہ و پیراستہ، خوشبو لگا کر بادشاہ حقیقی کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا اور وہ تجھ سے مخاطب ہو کر کہے گا آج سے آپ ہمارے ہاں معزز و مکرم مہمان ہیں۔ پس توانس و آرام پائے گا اور تجھ سے نرمی اور نیکی کا برتاؤ ہو گا۔ اللہ کے فضل و کرم سےتجھے کھلایا پلایا جائے گا۔ تجھے قرب بلکہ کمال قرب سے نوازا جائے گا۔ پھر تو اسرار و رموز غیبیہ پر مطلع ہوگا۔ اور حقائق تجھ سے مخفی نہیں رہیں گے۔ اس طرح اللہ تعالی کی عطا تجھے دنیا کی تمام چیزوں سے بے نیاز کردے گی۔ 

. سونے کی ان پتریوں کو نہیں دیکھتا جو بکھری ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی وہ دست بدست پھرتی ہیں۔ دن کو یہاں اور رات کو وہاں۔ کبھی عطر فروشوں کے ہاتھ میں اورکبھی سبزی والوں کے پاس کبھی قصابوں کی جیب میں اور کبھی رنگریزوں کے پاس۔ کبھی روغن بیچنے والوں کے ہاتھ میں اور کبھی خاکروبوں کے پاس کبھی جو ہر یوں کے پاس اور کبھی ذلیل پیشہ کسی فرد کے پاس۔ 

پھر یہ پتریاں اکٹھی کر لی جاتی ہیں۔ سنار انہیں بھٹی میں ڈال دیتا ہے۔ اور آگ کی تپش سے وہ پگھل جاتی ہیں۔ پھر ان پگھلی ہوئی پتریوں کو نکالا جاتا ہے۔ انہیں کوٹ کرنرم کیا جاتا ہے اور اس سے زیور بنادیا جاتا ہے۔ پھر اس زور کو پالش کرکے خوشبو لگا کر بہترین جگہ احتیاط سے رکھا جاتا ہے۔ ان کی قیمت اور حیثیت بڑھ جاتی ہے سو جس الماری یا صندوق میں یہ زیور ہواسے تالا لگا دیا جاتا ہے۔ پھریہی زیور دلہنوں کے گلے کی زینت بنتا ہے۔ اس زیور کی بڑی تکریم  ہوتی ہے۔ اسےسجایا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ آراستگی پیدا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ زیور بادشاہ کی دلہن کے گلے کی زینت بنتا ہے۔ سونے کی پتریوں کو لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر بادشاہ کے حرم تک پہنچنے کیلئے کتنے مدارج 

طے کرنا پڑے۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہوا جب انہیں بھٹی میں پایا گیا اور پھر ضرب لگا کر اسےنرم کیا گیا۔ . 

اے بند ه مو من تیرا معا ملہ بھی ایسا ہے۔ اگر تو خدائی فیصلوں پر راضی رہا اور اللہ تعالی تیرے اندر جو تصرف کر رہا ہے اس پر تو صبر کرے گا تو اسی دنیامیں اپنے مولا کا قرب پائے گا۔ علم و معرفت اور اسرار و حقائق کی نعمت سے سرفراز ہو گا۔ اور آخرت میں انبیاء، صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھ سلامتی کے گھر میں رہائش پذیر ہو گا۔ تجھے ان نفوس قدسیہ کی معیت میں اللہ کاپڑوس نصیب ہو گا۔ حریم ذات تک تیری رسائی ہو گی۔ وہاں تیرا ٹھکانا ہو گا اور اسکی ذات عزوجل سے تجھے انس حاصل ہو گا۔ صبر کر اور عجلت کا شکار نہ ہو۔ اللہ تعالی کے فیصلوں پر سر تسلیم ورضاخم کردے۔ اور حق کو الزام نہ دے۔ تاکہ اللہ تعالی کے عفو کی ٹھنڈک ، اس کی بخشش کی حلاوت، اس کی رحمت، لطف اور کرم واحسان تجھے حاصل ہوں۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 105 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں