نیت مراقبہ وقوف قلب
. فیض می آید از ذات بیچون بلطیفہ قلبی من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین
ذات باری تعالیٰ کی طرف سے عظیم مرشدین گرامی اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ سے میرے لطیفہ قلب میں فیض آتا ہے۔
تشریح
یہ مراقبہ وقوف قلبی (ﷲ تعالیٰ کے سامنے حضورِ قلب کی ایسی کیفیت کہ دل میں اﷲ کے سوا کوئی نہ ہو )ہے پہلا مراقبہ یہ ہے کہ اپنے شیخ کے حکم کے مطابق جتنے دنوں کی لئے ارشاد ہو اتنے دن کو مخصوص کرے
اپنے لطیفہ قلب کو حضرت سرورعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لطیفہِ قلب کے مقابل سمجھ کر زبانِ خیال سے التجا کرے۔ کہ الہی ان تجلیات افعالیہ کا فیض کہ جن کو تو نے آں سرور عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لطیفہِ قلب سے حضرت آدم علیہ السلام کے لطیفہِ قلب میں ڈالا ھے اس خاکسار کے لطیفہِ قلب میں بحرمت پیرانِ کبار القاء فرما۔
قربیت و ولایت اس لطیفہ کی بواسطہ حضرت آدم علیہ السلام حاصل ہوتی ہے۔ اس ولی کو آدمی المشرب کہتے ہیں۔ اس مراقبہ میں سیر دائره امکان تک کہ بالائے عرش ہے ہوتا ہے جس قدر صفائی و نورانیت دل ہوتی ہے۔
قلب انسانی افعال الہیہ کا مظہر ہے اس لئے اس مقام میں تجلیات افعالیہ الہیہ (تکوینی تجلیات ) کے ورود کا مراقبہ کرایا جاتا ہے، جب تک سالک پر مثال انسانی نہ کھلے یعنی کیفیات قلب ظاہر نہ ہوں اس وقت تک افعال الہیہ کے ظہور کا ادراک نہیں ہو سکتا ، افعال الہیہ یعنی صفت التکوین(امر کن سے مشتق ہے) کی تجلیات کے مظہر کامل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ باعتبار ظہور حضرت آدم علیہ السلام ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ میں ایسا وقت بھی نبی تھا جب کہ آدم علیہ السلام کیچڑ اور پانی میں تھے جن کا تعلق صفت التکوین سے ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کا رب ہے اس لئے اس مراقبہ میں حضرت آدم علیہ السلام کے واسطہ سے فیض حاصل کیا جاتا ہے ۔
جو سالک سلوک طے کرتا ہو ا مراقیہ لطیفہ قلب پر پہنچتا ہے اور اپنے مثال کو جسم مادی پر غالب کو لیتا ہے تو اس کو اس مراقب میں تجلیات افعالیہ کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ تجلیات افعالیہ کا رنگ زرد ہے
انسان کی فطرت طبیعیہ کے خلاف جو افعال منجانب اللہ اس سے ظہور پذیر ہوں وہ افعال الہیہ کہلاتے ہیں مثلاً انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے معجزات اور اولیائے کرام کے کرامات وغیرہ ۔
فیض کیا ہے
فیض : اللہ تعالی کے اسماء و صفات سے بندہ مومن کو ملنے والے انوار و تجلیات کو فیض کہتے ہیں۔
بیچون(اس جیسا کوئی نہیں) فارسی زبان کا لفظ ہے چوں کے معنی کیوں اللہ رب العزت کی ذات کی طرف کیوں؟ کب؟ کیسے؟ کے الفاظ راجح نہیں ہو سکتے ان کی ممانعت ہے تو اس سے مراد وہ ذات جس کی کوئی مثال اور نہ کوئی مشابہت ہے لفظ بیچوں اس ذات یکتا(اللہ) پر دلالت کرتا ہے۔
لطیفہ اللہ کے انوار و تجلیات کے وارد ہونے کی جگہ ، انسان کا جسم کثیف ہے اللہ جہان والوں سے بے نیاز ہے إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (العنکبوت:6) یقینا اللہ تمام دنیا جہان کے لوگوں سے بےنیاز ہے۔
لیکن بندے کو اپنا وصل اور قرب دینے کیلئے اس کے جسم میں کچھ خاص مقام ایسے رکھ دئیے جن پر اللہ کے انوار و تجلیات کا وارد ہوتے ہیں جنہیں لطائف کہتے ہیں (قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ، نفسی، قالبی)
قلب: ایک تو ہمارے جسم کا لوتھڑا ہے جسے ہم قلب کہتے ہیں دوسرا اس کا اصل قلب( غیر مادی لطیفہ ) ہے ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نےاصل قلب کی وسعت کا جو بیان کیا کہ اگر ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو وسعت قلب میں رکھ دیا جائے تو ایسے محسوس ہوگا کہ بہت بڑے صحرا میں سات سکے پڑے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے اس قلب کے بارے میں فرمایا ہے
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ (بخاری کتاب الایمان)
خبردار ہوجاؤ ! کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ خراب ہوجاتا ہے تو تمام بدن خراب ہوجاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔
گویا سلطنت جسم کی بادشاہت لطیفہ قلب کے پاس ہے۔
مزید ارشاد فرمایا
الشَّيْطَانُ جَاثِمٌ عَلَى قَلْبِ ابْنِ آدَمَ، فَإِذَا سَهَا وَغَفَلَ وَسْوَسَ، وَإِذَا ذَكَرَ اللَّهَ خَنَسَ (مصنف ابن ابی شیبہ)
شیطان، ابن آدم کے دل پر بیٹھا ہوتا ہے پس جب انسان بھولتا ہے اور غافل ہوتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے اور جب آدمی خدا کا ذکر کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد:28)
جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے
مشائخ نے قلوب سے سارے لطائف مراد لئے ہیں
لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةٌ، وَصِقَالَةُ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللَّهِ (الدر المنثور)
ہرشے کو کوئی نہ کوئی چیز صاف کرنے والی ہوتی ہے اور دلوں کو صاف کرنے والا اﷲ کا ذکر ہے
اس مراقبہ میں اللہ جل جلالہ کی ذات سے ہمیں لطیفہ قلب پر فیض مل رہا ہوتا ہے وہ نور تجلی صفات فعلیہ کا ہوتا ہے جو مشائخ کرام کے سینہ بسینہ ہوتا ہوا ہمارے سینوں میں داخل ہوتا ہے
بواسطہ پیران کبار یہ فیض مجھے اپنے مرشدین کے وسیلہ سے مل رہا ہے شریعت مطہرہ اور عقائد میں وسیلہ کی بہت فضیلت ہےاس وسیلہ میں اپنے مرشد کے توسط سے تمام اکابرین سلسلہ کے وسیلہ سے فیض کا حصول رسول اللہ ﷺ تک پہنچنا ہے اگرچہ عکس کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو اگر وسیلہ نہ ہو تو انبیاء و رسل اور اولیاء و علماء کی ضرورت نہ ہوتی
لفظ کُبار
لفظ کُبار اگر کِبار پڑھا جائے تو معنی غرور، تکبر، ہے کُبار کے معنی تعظیم عزت اور بڑائی کے ہیں پیر و مرشد وہ ہوتا ہے جو خود بھی کمال تک پہنچا ہو اور دوسروں کو بھی کمال تک پہنچا سکتا ہو ہر دعوی کرنے والا پیر نہیں ہوتا بلکہ جسے دیکھو تو اللہ یاد آجائے سر سے پاؤں تک شریعت کی پابندی کرنے والا ہو جس کی نگاہ کامل سے شریعت کی دوسروں کو پابندی نصیب ہو جائے مردہ دل زندہ غافل سے ذاکر ہو جائے