اسقاط

پہلی فصل التشوف الی حقائق التصوف

کتاب “التشوف الی حقائق التصوف” کی پہلی فصل کا عنوان “تصوف کے اشتقاق میں” (الفصل الاول فی اشتقاق التصوف) ہے، جس میں شیخ القرآن والتفسیر استاذ العلماء پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ مولانا محمد حمید جان سیفی نے لفظ “صوفی” اور “تصوف” کے مآخذ اور اس سے متعلق مختلف اقوال کو تفصیلاً بیان کیا ہے۔ :

تصوف کے اشتقاق میں مختلف اقوال

لفظِ صوفی کے اشتقاق کے بارے میں اہل علم کے ہاں کئی آراء پائی جاتی ہیں:

۱. صوفہ (الصوفة) سے اشتقاق: بعض حضرات کا خیال ہے کہ صوفی “صوفہ” سے مشتق ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس طرح اون کا ایک لچھا (صوفہ) بے جان اور اللہ کے سامنے مکمل سپردگی کی حالت میں ہوتا ہے، صوفی بھی اللہ کے سامنے اپنی مرضی کو فنا کر کے مکمل استسلام (سپردگی) کی حالت میں ہوتا ہے،۔

۲. صفہ (الصِفَة) سے اشتقاق: ایک قول یہ ہے کہ یہ “صفہ” سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے اوصافِ حمیدہ (اچھی صفات) کو اپنانا اور اوصافِ مذمومہ (بری صفات) کو ترک کرنا،۔

۳. صفا (الصفاء) سے اشتقاق: ابو الفتح البستی رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر محققین کے نزدیک صوفی “صفا” (پاکیزگی) سے مشتق ہے۔ اس حوالے سے ایک مشہور شعر کا ذکر کیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں نے صوفی کے لفظ پر بہت اختلاف کیا اور اسے “صوف” (اون) سے مشتق سمجھا، لیکن میں یہ نام صرف اس جوان کو دیتا ہوں جس نے اللہ کے لیے اپنے دل کو پاک (صفا) کیا، یہاں تک کہ اسے “صوفی” کہا جانے لگا،۔

۴. اہلِ صفہ (اہل الصفہ) کی نسبت: بعض کے نزدیک صوفی وہ ہے جو “اہلِ صفہ” کے نقشِ قدم پر چلے۔ یہ وہ صحابہ کرام تھے جنہوں نے دنیا چھوڑ کر اللہ کی یاد کے لیے خود کو وقف کر رکھا تھا۔ قرآن کریم کی سورہ کہف کی آیت ۲۸ میں انہی حضرات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں،۔

۵. صفِ اول (الصف الاول) سے نسبت: ایک قول یہ ہے کہ صوفیاء کو صوفی اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے دل اللہ کے حضور صفِ اول میں ہوتے ہیں۔ وہ تمام عبادات اور نیکی کے کاموں میں سب سے آگے رہنے کی کوشش کرتے ہیں،۔

۶. صوف (الصوف) سے اشتقاق: لغوی اعتبار سے سب سے مضبوط قول یہ ہے کہ صوفی “صوف” (اون) سے بنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں صوفیاء تکلفات کو چھوڑ کر سادہ اور موٹا اونی لباس (صوف) پہننے کو ترجیح دیتے تھے جو کہ ان کے زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی علامت تھا،۔

اصطلاحِ تصوف کی تاریخ اور ضرورت

اس اعتراض کا جواب کہ لفظِ “تصوف” عہدِ صحابہ اور تابعین میں نہیں سنا گیا تھا۔ مصنف فرماتے ہیں کہ:

  • تصوف کا لفظ اگرچہ بعد میں مشہور ہوا، لیکن اس سے مراد وہی حقیقت ہے جو صحابہ کے دور میں موجود تھی،۔
  • جیسے نحو، فقہ اور منطق جیسی اصطلاحات بعد کے ادوار میں فنون کی تدوین کے لیے وضع کی گئیں، اسی طرح تصوف کی اصطلاح بھی روحانی تربیت کے فن کے لیے مقرر کی گئی،۔
  • تصوف کا اصل مقصد تزکیہ نفس، صفائے قلب، اخلاق کی اصلاح اور مرتبہ احسان تک پہنچنا ہے۔ اسے چاہے “اسلام کا روحانی پہلو” کہہ لیں یا “جانبِ احسانی”، اس کی حقیقت وہی ہے جو اسلاف سے چلی آ رہی ہے،۔

فنی اور لغوی بحث کا نچوڑ

امام ابوبکر بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق صوفیاء سے متعلق تمام اوصاف ان کے مختلف ناموں اور القاب میں جمع ہو گئے ہیں۔ اگرچہ الفاظ مختلف ہیں (جیسے صفا، صفوت، صوف) مگر ان سب کا روحانی مطلب ایک ہی ہے،۔ لغوی طور پر اگر اسے “صفا” سے ماخوذ سمجھا جائے تو نسبت “صفوی” ہونی چاہیے تھی، لیکن کثرتِ استعمال کی وجہ سے “صوفی” مشہور ہو گیا،۔

خلاصہ یہ کہ تصوف محض ایک نام نہیں بلکہ دل کی پاکیزگی اور اللہ کے ساتھ سچے تعلق کا نام ہے،۔


مثال: تصوف کے اشتقاق کی مثال ایسی ہے جیسے کسی پاکیزہ آئینے کو مختلف ناموں سے پکارا جائے۔ کوئی اسے اس کی چمک (صفا) کی وجہ سے پہچانے، کوئی اس کے فریم (لباس/صوف) کی وجہ سے، اور کوئی اس میں نظر آنے والے عکس (اوصاف) کی وجہ سے۔ نام جو بھی ہو، اصل مقصود وہ شفافیت ہے جو حقیقت کو واضح طور پر دکھا سکے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں